اتر پردیش اسمبلی میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے مسلم مخالف بیان پر شدید تنقید
اہل بیت نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حالیہ اسمبلی بیان نے ریاست بھر میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔ اسمبلی اجلاس کے دوران ان کے ایک بیان کو مسلم مخالف، دھمکی آمیز اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے والا قرار دیا جا رہا ہے، جس پر اپوزیشن جماعتوں، قانونی ماہرین اور سماجی حلقوں نے سخت تنقید کی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے ایوان میں اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت مخالفین کے خلاف کارروائی کو آخری حد تک لے جائے گی اور انہیں "فاتحہ پڑھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑے گی"۔ اس بیان کو خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بالواسطہ دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ فاتحہ قرآن مجید کی ایک مختصر سورت ہے جو مسلمان نماز میں اور مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب کے طور پر پڑھتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر ماتا پرساد پانڈے نے وزیر اعلیٰ کے اس بیان کو آئینی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا:"ایک آئینی عہدے پر فائز شخص کی جانب سے اس طرح کی مذہبی زبان کا استعمال نہ صرف نامناسب ہے بلکہ جمہوری روایت کے بھی خلاف ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے حکومت سے نظم و نسق، بدعنوانی اور جواب دہی سے متعلق سوالات اٹھائے تھے، لیکن وزیر اعلیٰ نے ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے دھمکی آمیز اور مذہبی حوالوں پر مبنی زبان استعمال کی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے بیانات معاشرے میں خوف اور تقسیم کو بڑھاتے ہیں اور جمہوری مکالمے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کے مطابق مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا نہایت خطرناک رجحان ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اسمبلی میں کوڈین پر مبنی کھانسی کے شربت کے مبینہ غلط استعمال پر اپوزیشن حکومت کو گھیر رہی تھی۔ اسی دوران سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور وزیر اعلیٰ نے سماجوادی پارٹی کو نشانہ بنایا۔
واقعے کے بعد ماتا پرساد پانڈے کی قیادت میں سماجوادی پارٹی کے اراکین اسمبلی نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور کہا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے لہجے اور زبان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
قانونی ماہرین نے بھی اس معاملے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے وکیل عارب الدین نے کہا:"کسی برسرِ اقتدار وزیر اعلیٰ کی جانب سے یہ کہنا کہ لوگوں کو آخری رسومات کے لائق بھی نہیں چھوڑا جائے گا، ایک خطرناک حد عبور کرنے کے مترادف ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بیانات نہ صرف آئینی وقار کو مجروح کرتے ہیں بلکہ اقلیتی طبقے، خصوصاً مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بھی مزید گہرا کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ