اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، خلیجی امور کے معروف امریکی تجزیہ کار اور خلیج فارس انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جورجیو کافیرو نے کہا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے واشنگٹن اور تہران کے درمیان بامعنی سفارت کاری کے امکانات کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور خطے میں عدم استحکام کو مزید بڑھایا ہے۔
ایرنا کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کافیرو نے کہا کہ اگرچہ جنرل سلیمانی کو بعض مغربی دارالحکومتوں اور تل ابیب میں تنقید کا سامنا تھا، اور عرب دنیا میں بھی ان کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی تھیں، تاہم ایران اور خطے کے کئی حصوں میں انہیں داعش کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک محب وطن محافظ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ان کے بقول، ان کا قتل ایران اور امریکہ کے درمیان اعتماد سازی اور سنجیدہ مذاکرات کو کہیں زیادہ مشکل بنا گیا۔
انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے یکطرفہ اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جون 2025 میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے اور اسرائیل کی جنگ میں امریکہ کی شمولیت کا مقصد حقیقی معنوں میں عدمِ پھیلاؤ (نان پرولیفریشن) نہیں تھا۔ کافیرو کے مطابق، اگرچہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کا خواہاں تھا، لیکن اس جنگ کے محرکات اس سے کہیں زیادہ وسیع اور سیاسی نوعیت کے تھے۔
کافیرو نے کہا کہ اسرائیل کا بنیادی ہدف ایران کو ایک کمزور اور منقسم ریاست میں تبدیل کرنا تھا، جیسا کہ شام یا لبنان کی صورتحال ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیلی قیادت ایک مضبوط، خودمختار اور متحد ایران کو اپنے لیے ناقابلِ قبول سمجھتی ہے اور خطے میں کسی بھی مسلح مزاحمت کو برداشت نہیں کرتی۔
امریکی تجزیہ کار نے خبردار کیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ایک بار پھر امریکی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ 2026 میں جنگ کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت حاصل کی جا سکے، جو پہلے سے بحران زدہ مشرقِ وسطیٰ میں مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
کافیرو نے زور دیا کہ اسرائیل کے ایسے اقدامات کو امریکہ کی حمایت اور سہولت کاری عالمی سطح پر واشنگٹن کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام اور عالمی سلامتی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ممالک کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جائے اور حسنِ نیت پر مبنی سفارت کاری کو فروغ دیا جائے، جس میں ایران اور امریکہ جیسے شدید اختلافات رکھنے والے فریقین کے درمیان بھی براہِ راست مکالمہ شامل ہو۔
قابلِ ذکر ہے کہ ایرانی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رہنما ابو مہدی المهندس 3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں شہید ہوئے تھے، جس کے بعد ایران نے عین الاسد میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل حملہ کیا تھا۔ بعد ازاں 2025 میں اسرائیل اور امریکہ کے ایران پر حملوں اور ایران کے جوابی اقدامات کے بعد بالآخر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔
آپ کا تبصرہ