بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || دشمن کے ان بیانیوں کا مقصد ہر چیز کو بدنما اور سیاہ دکھانا، بدگمانی اور مایوسی پھیلانا، عمومی اعتماد کو کمزور کرنا اور جھوٹے اور وقتی جذبات کو اکسانا، ہے۔ دشمن کے جعلی بیانیوں کا سامنا کرنا ایک اخلاقی ضرورت، سماجی ذمہ داری اور شرعی فریضہ ہے۔
تبیّن (تحقیق و توضیح) کا اصول
"يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا؛ [1]
اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو"۔
یعنی یہ کہ خبر سن پڑھ کر، رک جاؤ، اس کی تصدیق نہ کرو، اس کی بنیاد پر فیصلہ یا ارادہ نہ کرو، اور اس کو مزید مت پھیلاؤ، یہ ادراکی جنگ (Cognitive Warfare) کے مقابلے میں پہلا بند ہے۔
جذبات پر قابو پانے کا اصول
• جو بھی مواد غصہ دلائے، خوفزہ کرے، شدید مایوسی کا سبب ہو، اس پر گہری تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"الْغَضَبُ مِفْتَاحُ كُلِّ شَرّ؛ [2]
غصہ ہر برائی اور پلیدی کی کنجی ہے"۔
معتبر ذرائع سے رجوع کرنے کا اصول:
• افراد [یعنی عہدیداروں، مشہور شخصیات اور رہنماؤں) کی بات اور موقف کے بارے میں ان کے متعلقہ رسمی ذرائع سے جانچنا چاہئے، نہ کہ انجانے چینلز سے۔
ضروری تنبیہات اور سنجیدہ سفارشات:
• ہر صارف جہادی ذریعۂ ابلاغ ہے
• صحیح مواد پوسٹ کرنا، شیئر کرنا اور پھیلانا، ایک شرعی، اخلاقی اور معاشرتی فریضہ ہے
• ہر افواہ دشمن کی ادراکی جنگ میں اس طرف کی ایک گولی (Bullet) ہے
خدائے متعال ارشاد فرماتا ہے:
"وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ؛ [3]
اور جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو، اس کے پیچھ نہ پڑو۔"
مصنوعی ذہانت کے زمانے میں دشمن کے جعلی بیانیے پہلے سے زیادہ پیچیدہ، اور زیادہ پیشہ ورانہ بن چکے ہیں؛ لیکن بصیرت، ابلاغیاتی دانش، ابلاغیاتی تقویٰ اور قرآنی تبیّن و تحقیق کی مدد سے ان سے نمٹا جا سکتا ہے۔
ان بیانیوں کا شعوری مقابلہ نہ صرف ایک ابلاغی مہارت، بلکہ جہاد کا ایک مورچہ اور حقیقت، سلامتی اور سماجی اعتماد کی ایک بنیاد ہے۔ جو قوم تجزیہ اور تبیّن کرتی ہے، وہ بیانیوں کی جنگ میں شکست نہیں کھاتی۔
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) کا کلام:
"خواص (یعنی حکام، علماء، مفکرین، دانشوروں، اور تجزیہ نگاروں) کا فریضہ یہ ہے کہ ضرورت کے مواقع پر، دشمن کی طرف کی شک آفرینی، اور تذبذب پیدا کرنے کی کوششوں کو ناکارہ کر دیں اور [مسائل] کی تشریح کریں"۔ [4]
"ہم سب کا فریضہ ہے، دانشوروں اور ممتاز (مفکرین اور اہل علم) افراد کا فریضہ ہے؛ انقلابی حلقوں کا فریضہ ہے، یونیورسٹیوں اور حوزات علمیہ کے فعال کارکنوں، سماجی حیثیت رکھنے والے افراد ـ بالخصوص وہ جن کی بات لوگوں کی سماعتوں تک پہنچتی ہے، لوگ ان کی بات سنتے ہیں، ان سب کا فریضہ ہے کہ یہ کہ لوگوں کے ایمان کو مضبوط کریں، امیدوں کو تقویت دیں، شکوک و شبہات کو زائل کر دیں، شبہہ اور مایوسی پھیلانے کی دشمن کی روشوں کو ناکارہ بنا دیں۔" [5]
اور ہاں، بہترین کلام، کلام اللہ ہے، جو ارشاد فرماتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ؛ [6]
اے ایمان والو! شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں کی پیروی کرے گا [ہلاک ہوجائے گا] کیونکہ وہ بلاشبہ شرمناک کاموں اور برائیوں کا حکم دیتا ہے؛ اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت [نہ ہوتی] تو تم میں سے ایک بھی، کبھی بھی، [باطل عقیدوں، اور غیر پسندیدہ اعمال و اخلاق سے] پاک نہ رہتا؛ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اسے پاک رکھتا ہے اور اللہ بہت سننے والا ہے بڑا جاننے والا۔"
مورخہ: 25 دسمبر 2025ع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: آیت اللہ عباس کعبی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ