بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || یونیسف کے ترجمان ٹیس انگرام (Tess Ingram) نے اس سلسلے میں کہا: صورت حال واضح ہے؛ غذائی قلت کا شکار خواتین قبل از وقت یا کم وزن کے بچوں کو جنم دیتی ہیں جو انتہائی نگہداشت یونٹوں میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، یا اگر زندہ بچ جائیں تو غذائی قلت یا سنگین پیچیدگیوں کا سامنا کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا: "غزہ میں ہم ان تینوں عوامل کو بیک وقت دیکھتے ہیں، یونیسف نے گذشتہ اکتوبر میں تقریباً 8300 حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو شدید غذائی قلت کا شکار پایا؛ یعنی اوسطاً 270 خواتین روزانہ۔"
یونیسف کی ترجمان نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ـ کہ خواتین عام طور پر اپنا کھانا اپنے بچوں کو دے دیتی ہیں، ـ بتایا: غزہ کے ہسپتالوں میں میں نے ایسے نوزائیدہ بچے دیکھے ہیں جن کا وزن ایک کلوگرام سے بھی کم ہے اور جو بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
انگرام نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں ضروری طبی آلات کے داخلے میں رکاوٹوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ـ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل کے لئے ـ رفح بارڈر کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔
یونیسف کے ترجمان نے کہا کہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں کم وزن نوزائیدہ بچوں کا تناسب 10 فیصد تک بڑھ گیا ہے، اور تولید نسل کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔
ان کے مطابق، پہلے دن ہی مرنے والے نوزائیدہ بچوں کی تعداد میں 75 فیصد اضافہ ہؤا ہے؛ اور بچوں کی اموات کی شرح 2022 میں 27 بچے ماہانہ سے بڑھ کر جولائی تا ستمبر 2025 کے درمیان 47 بچے ماہانہ ہو گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ