اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، میڈیا ذرائع نے بتایا ہے کہ صہیونی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے سکیورٹی اور سیاسی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت منسوخ کرنے کی باضابطہ درخواست دی تھی، جسے عدالت نے منظور کر لیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، الجزیرہ نے عبرانی میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ نیتن یاہو نے وہ سماعت منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی جو آج ہونا تھی۔
ادھر صہیونی ٹی وی چینل چینل 12 اسرائیل نے بتایا کہ نیتن یاہو نے اپنی درخواست میں ’’سیاسی اور سکیورٹی وجوہات‘‘ کا حوالہ دیا ہے اور اس سے متعلق تفصیلات ایک بند لفافے میں ججوں کو فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
اسی دوران صہیونی ٹی وی چینل چینل 14 اسرائیل نے اطلاع دی کہ عدالت نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے کرپشن مقدمات کی آج ہونے والی سماعت باضابطہ طور پر منسوخ کر دی ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب نیتن یاہو شدید سیاسی دباؤ، سنگین کرپشن الزامات اور صدرِ ریاست سے معافی کی درخواست جیسے اہم مراحل سے گزر رہے ہیں۔ اتوار کے روز نیتن یاہو نے، جن کا ٹرائل گزشتہ چھ برس سے جاری ہے، صہیونی صدر کو باضابطہ طور پر معافی کی درخواست دی تھی اور اس کی وجہ بھی سکیورٹی اور سیاسی حالات کو قرار دیا تھا، تاہم ان کے مخالفین نے اس اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
نیتن یاہو اس وقت چار الگ الگ فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جن میں رشوت خوری، بدعنوانی اور عوامی اعتماد کے ناجائز استعمال جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔ اگر یہ الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تاہم نیتن یاہو ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔
مقدمہ نمبر 1000 میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے اسرائیلی نژاد ہالی وڈ پروڈیوسر اور امیر تاجر آرنون میلچان سے تقریباً سات لاکھ شیکل مالیت کے تحائف وصول کیے، جن میں مہنگی شراب اور سگار شامل تھے۔ استغاثہ کے مطابق نیتن یاہو نے ان تحائف کے بدلے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے میلچان کے تجارتی مفادات کو فائدہ پہنچایا۔
مقدمہ نمبر 2000 میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے معروف عبرانی اخبار یدیعوت آحارانوت کے مالک آرنون موزیس کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ کیا تاکہ اخبار میں ان کے حق میں مثبت خبریں شائع کی جائیں، جبکہ اس کے بدلے حکومت کی جانب سے نجی اخبار اسرائیل ہیوم پر دباؤ ڈالا جائے۔
مقدمہ نمبر 3000 میں 2016 میں جرمنی سے تین آبدوزوں کی خریداری کا معاملہ شامل ہے، جس نے صہیونی سیاسی حلقوں میں شدید ہلچل مچا دی تھی۔ اس مقدمے میں بھی نیتن یاہو پر رشوت لینے اور دفاعی سودوں میں غیر شفاف کردار ادا کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
جبکہ مقدمہ نمبر 4000 میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی بزیک کے مالک شاؤل الویچ کو کروڑوں شیکل کی سہولتیں فراہم کیں، تاکہ بزیک کے زیر انتظام خبر رساں ادارے والا کے ذریعے وزیر اعظم اور ان کے اہلِ خانہ کے حق میں میڈیا کوریج کو یقینی بنایا جا سکے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق عدالتی سماعت کی منسوخی اور صدارتی معافی کی درخواست نے صہیونی سیاست میں ایک نیا سیاسی اور آئینی بحران پیدا کر دیا ہے، جس کے اثرات آنے والے دنوں میں مزید گہرے ہونے کا امکان ہے۔
آپ کا تبصرہ