بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکہ کا اپنے قریب واقع ممالک کے ساتھ اس طرح کا سلوک کوئی نئی بات نہیں۔ لاطینی امریکہ کی 20ویں صدی کی تاریخ میں امریکی مداخلتوں اور حکومتوں کے تختہ الٹنے کی کوششوں کی کئی مثالیں شامل ہیں۔ حالیہ یادداشتوں میں ان واقعات کی فہرست 1954ء کی گوئٹے مالا کی بغاوت سے شروع ہوکر 1961ء کی بے آف پگز کی ناکام کارروائی، 1973ء میں چلی میں پنوشے کی بغاوت اور 1989ء میں پاناما پر امریکی حملے تک پھیلی ہوئی ہے۔
امریکہ وینزویلا کے ساتھ کس طرح نمٹنے کی کوشش کر سکتا ہے، اس سلسلے میں 1989ء میں پاناما پر امریکی حملے کو اکثر مثال کے طور پر لیا جاتا ہے، خاص طور پر جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے سی آئی اے کو وہاں زمینی کارروائیاں شروع کرنے کی اجازت دی ہے۔
گذشتہ چند ماہ سے امریکی افواج کیریبین میں کشتیوں پر حملہ کر رہی ہیں اور یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ وہ منشیات کی اسمگلنگ کے لیے استعمال ہو رہی ہیں مگر انہوں نے اس کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے ہیں۔
ایک طویل عرصے سے لاطینی یا جنوبی امریکی ممالک کے منشیات کے کاروبار کو امریکہ نے حقیقت سے فرار کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے جبکہ وینزویلا کبھی بھی منشیات کی تجارت کا بڑا کھلاڑی نہیں رہا۔ زیادہ تر رپورٹس کے مطابق، اس کا امریکہ میں فینٹانائل کے بڑھتے مسئلے سے تقریباً کوئی تعلق نہیں۔
وینزویلا کے رہنما نیکولس مادورو کو ایک منشیات کارٹل کا سربراہ کہنا جو سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا، انہیں اقتدار سے ہٹانے کا ایک کمزور بہانہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے امریکی حکومت کی وینزویلا پر حملے کی اصل وجوہات پر پردہ پڑ جاتا ہے جو منشیات کے مقابلے کے بجائے زیادہ تر سیاسی نظریات اور عقائد پر مبنی ہیں۔
کیا پتا منشیات کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کو واقعی تشویش ہو، یعنی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن انہوں نے طلب اور رسد کے بنیادی فارمولے کو نظرانداز کردیا ہے۔ لاطینی امریکہ یا دنیا کے کسی اور حصے کے منشیات فروش اس وقت تک امریکہ میں منشیات کی ترسیل کے نیٹ ورک قائم نہیں کریں گے کہ جب تک وہاں منشیات کی طلب نہ ہو۔
امریکہ میں اوپیئڈ بحران (منشیات کی زیادتی سے ہونے والی اموات اور صحت کی ایمرجنسی) واقعی خود ’بہادر اور آزاد زمین‘ یعنی امریکی معاشرے میں بگاڑ کی علامت ہے۔ منشیات کی فراہمی کے ایک یا دو راستوں کو بند کرنے سے صرف عارضی طور پر بہتری آسکتی ہے۔
تاہم وینزویلا کے ساتھ جارحانہ مؤقف اختیار کرنے کا منشیات سے بہت کم تعلق ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں ان کے قومی مشیر برائے سلامتی جان بولٹن، کیوبا، وینزویلا اور نکاراگوا پر حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت ٹرمپ راضی نہیں تھے۔ یہاں تک کہ اپنی دوسری مدت میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مارکو روبیو کی جانب سے وینزویلا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا غیر منصفانہ انتخابات کے بارے میں شکایات نے بھی حملے کا حکم دینے کے لیے آمادہ نہیں کیا۔
مارکو روبیو جن کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جس نے کیوبا کی فیڈل کاسترو حکومت کی سخت مخالفت کی تھی جبکہ وہ ہینری کیسنجر کے بعد دوسرے شخص ہیں جو بیک وقت قومی سلامتی کے مشیر اور وزیرِ خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ اب منشیات کا بہانہ لے کر آگے آئے اور اچانک سے ٹرمپ قائل بھی ہوگئے ہیں۔
ٹرمپ نے وہ مذاکرات منسوخ کر دیے جن میں نیکولس مادورو نے مبینہ طور پر امریکہ کے ساتھ وینزویلا کے وسیع معدنی وسائل بانٹنے کی جبکہ چین اور کیوبا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کرنا تھی۔
نیکولس ماردورو تقریباً گذشتہ 12 سالوں سے ہوگو شاویز کے مایوس کُن اور پریشان کُن جان نشین کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن کا سوشلست وژن صرف وینزویلا تک ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بھی پھیلا ہوا ہے۔
وینزویلا کے غریب شہریوں کو غربت سے نکالنے کی ان کی کوشش کو کیوبا کی حمایت حاصل تھی جبکہ فیڈل کاسترو نے 2002ء میں امریکی حمایت یافتہ نیو لبرل بغاوت کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس نے عارضی طور پر ہوگو شاویز کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔
2013ء میں اپنی موت تک ہوگو شاویز نے ایسے کئی انتخابات جیتے جن کی شفافیت کی دنیا معترف تھی لیکن ان کے منتخب کردہ جان نشین نے بولیویاری تحریک کے اصولوں سے جیسے انحراف کیا ہے، اسے شاویز کے کئی حامی غداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے 2024ء کے انتخابات میں ہیر پھیر تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
ٹرمپ کی حمایت جیتنے کی ان کی مستقل خواہش نے ان کے خلاف الزامات کی فہرست میں مزید اضافہ کیا لیکن یہ ممکن ہے کہ امریکہ کی کھلی دشمنی کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔
حال ہی میں امریکہ نے کولمبیا کے خلاف بھی دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے جس کے صدر گستاو پیٹرو فلسطینیوں کے حقوق کے زبردست حامی ہیں۔ گذشتہ ماہ اقوام متحدہ میں دو ٹوک تقریر کرنے کے بعد ان کا امریکی ویزا منسوخ کر دیا گیا تھا اور جب انہوں نے امریکہ کی جانب سے کیریبین میں 40 سے زائد افراد کے ماورائے عدالت قتل پر شدید ردعمل دیا تو اُن پر پابندیاں بھی عائد کر دی گئیں۔
زیادہ ڈیموکریٹس اور چند ری پبلکن رہنماؤں نے ٹرمپ کے اقدامات اور ارادوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ری پبلکنز اس حوالے سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں کہ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کو رکھنے کے تصور کے پیچھے دیگر ممالک کے تنازعات سے امریکہ کو دور رکھنا ہے۔ وینزویلا پر حملہ درحقیقت اسی پرانے تصور کا تسلسل ثابت ہوگا جنہیں ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کے حامی ناپسند کرتے ہیں۔
ٹرمپ شاید اس صورت میں پیچھے ہٹ جائیں اگر کوئی ان کے کانوں میں یہ بات ڈال دے کہ کیریبین میں کھلے عام جنگی اقدامات کرنے سے ان کے لیے نوبیل امن انعام حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا جس اعزاز کے وہ شدید خواہش مند ہیں۔ علاوہ ازیں کہ اس جنگ سے امریکہ میں فینٹانائل کے رجحان کو روکنے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی لیکن وہ غیرمتوقع شخصیت کے مالک ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انہیں لگے کہ وینزویلا پر حملہ کرکے امریکہ کو جنوبی امریکہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملے گی۔
ٹرمپ نے کولمبیا کے صدر کو ’ملکی تاریخ کا بدترین صدر جوکہ سنگین ذہنی مسائل کا شکار پاگل ہے‘ قرار دے کر ایک بار پھر حالیہ تاریخ کے حوالے سے اپنی کم علمی کا ثبوت دیا ہے۔
ان کا بدتہذیب لہجہ تو ان کی شخصیت سے منسوب ہے لیکن شاید انہیں دوسروں پر وہ الزامات لگاتے سے پہلے اپنا عکس آئینے میں دیکھنا چاہیے جو درحقیقت ان کی اپنی ذات پر زیادہ موزوں بیٹھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ