اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق،فرانس کی جانب سے فلسطین کو بطور ملک رسمی طور پر تسلیم کرنے کے اعلان پر اسرائیل میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے اور اسرائیلی حکام اس فیصلے کے خلاف تلافیجویانہ سخت اقدامات کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسرائیلی روزنامہ معاریو کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام اسرائیل کے لیے ایک سیاسی زلزلہ کے مترادف ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے جن میں مغربی کنارے کی الحاق کے عمل میں تیزی، قدس میں فرانسیسی قونصل خانے کی بندش، اور فلسطینی زیرِ قبضہ علاقوں میں فرانسیسی تاریخی و مذہبی مقامات کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں۔ اسرائیلی نائب وزیر خارجہ شارن ہاسکل نے کہا ہے کہ قدس میں فرانسیسی دفتر کی بندش کا معاملہ وزیر اعظم بنیامین نتانیہو کی میز پر موجود ہے اور یہ ایک واضح پیغام ہوگا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے معاملات پر بین الاقوامی دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا۔
یورپی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ فرانس اور اسرائیل کے تعلقات اس فیصلے کے بعد مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اس اقدام کے مرکزی محرک ہیں جس کا مقصد فلسطینیوں کو سیاسی افق فراہم کرنا اور دو ریاستی حل کو تحفظ دینا ہے۔
فرانس کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اس اقدام میں اب تک برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال سمیت 11 ممالک نے ساتھ دیا ہے۔ مکرون نے اس فیصلے کو فلسطینیوں کے حق میں اہم سفارتی پیغام قرار دیا ہے۔
معاریو کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد یورپی ممالک کی اسرائیل کے بارے میں رائے میں تبدیلی آئی ہے اور اس اقدام سے اسرائیل کی مغربی دنیا میں سفارتی تحفظ متاثر ہو رہا ہے۔ اگرچہ فوری طور پر عسکری پابندیاں متوقع نہیں، مگر سفارتی تعلقات میں "نرمی" اور طویل المدتی پابندیوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
یہ اقدام فلسطینیوں کے مطالبات کو عالمی سطح پر قانونی حیثیت دینے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے جبکہ اسرائیل اسے اپنی خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے۔
آپ کا تبصرہ