اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، حال ہی میں اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملہ کیا، جس نے خلیجی ممالک کی سیاسی صورتحال کو نہایت پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس حملے نے قطر کے حکمرانوں اور ان تمام عرب حکمرانوں کو جو اسرائیل سے تعلقات استوار کر کے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں، ایک سخت موقف میں ڈال دیا ہے۔
لبنانی سینئر محقق نصیب حطیط کے مطابق، اسرائیل نے اس حملے کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ خطے میں کسی بھی ملک کی خودمختاری کا احترام نہیں کرتا، چاہے وہ قطر جیسا اہم اتحادی ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کا اگلا ہدف ترکی ہو سکتا ہے، جو نہ صرف اسرائیل کا اتحادی ہے بلکہ حماس کا بھی حامی سمجھا جاتا ہے۔
خطے کے عرب ممالک میں ایک غلط فہمی پائی جاتی تھی کہ امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اڈے قائم کر کے، اسرائیل سے تعلقات قائم کر کے اور فلسطین کے حقوق کو نظرانداز کر کے خلیج کی سلامتی ممکن ہے۔ لیکن اس حملے نے اس توہم کو پوری طرح تباہ کر دیا ہے۔
قطر کی مشہور میڈیا نیٹ ورک الجزیرہ نے اس حملے کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا براہ راست خطاب نشر کیا، جس میں انہوں نے حماس کے رہنماؤں کو ہدف بنانے کا اعتراف کیا اور ترکی کو اگلا ہدف قرار دیا۔
اس حملے سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ خلیج ممالک کی جانب سے سیکورٹی کے لیے بڑے پیمانے پر کی گئی سرمایہ کاری اور امریکی و سعودی نصب کردہ الرٹ سسٹمز اسرائیلی حملوں کا بروقت پتہ لگانے میں ناکام رہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا اصل مقصد خطے کے حکمرانوں کی حفاظت نہیں بلکہ اسرائیل کی حمایت کرنا ہے۔
لبنان میں جاری سیاسی کشیدگی اور عادی سازی کی کوششوں پر بھی اس حملے نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ آیا ایسے ممالک جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں پیش پیش ہیں، واقعی اپنے عوام اور خطے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں؟
تحریر کے آخر میں محقق نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل صرف طاقتوروں کو ہی تسلیم کرتے ہیں اور صرف انہی سے مذاکرات کرتے ہیں جو ان کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا خطے کی قوتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاعی اور سیاسی موقف کو مضبوط بنائیں اور غیر حقیقی امن مذاکرات سے گریز کریں۔
آپ کا تبصرہ