بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || یہ امید، سب سے بڑھ کر، مغربی کنارے اور غزہ میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی تھی جو، ایک ہی وقت میں، فلسطینی قوم پرستی کے لئے ایک آؤٹ لیٹ (نکاسی کا راستہ) فراہم کرے گی اور اس واقعے کو روکے گی جسے بہت سے اسرائیلی اکثر آبادیاتی "ڈراؤنے خواب" کے طور پر بیان کرتے ہیں: یعنی "ایک ایسی ریاست میں عرب اکثریت، جس کا یہودی ہونا، طے پایا ہے"۔ تاہم، اسرائیل کا انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست اور بنیاد پرست ونگ کی طرف پھسلنا، مغربی کنارے میں یہودیوں کی بڑے پیمانے پر آباد کاری اور اسرائیل میں امن پسند تحریک کی عملی شکست نے متفقہ "دو ریاستی حل" کو ایک سراب میں تبدیل کر دیا ہے، جس کا مفروضہ منافقانہ طور پر صرف اس کے سرکاری حامیوں اور مخالفین دونوں کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، حالانکہ اس کے نفاذ کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اسرائیلی ریاست گذشتہ 75 سالوں میں ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینیوں کو ضم [اور قبول] کرنے یا ان کے ساتھ مہذبانہ پرامن بقائے باہمی کا ماحول بنانے سے عاجز رہی ہے۔ جب کہ فلسطینیوں کی آبادی ـ بیرون ملک مقیم [فلسطینی] پناہ گزینوں کو شمار کئے بغیر بھی، ـ اب اس ریاست کے زیر تسلط علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کے برابر ہے۔
اس طرح یہ سوال بجا طور پر پوچھا جانا چاہئے کہ کیا اسرائیلی ریاست اب بھی قائم رہنے کی مستحق ہے؟ اگر ہم یہ قبول کریں کہ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان تمام زمینوں پر اختیار رکھنے والی ریاست کو وجود کا حق (Right of Existence) حاصل ہے اور ہوگا، تو ہم ان حقیقی چیلنجوں پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں جو وہاں ایک قابل زیست مستقبل کی خواہش رکھنے والے لوگوں کو درپیش ہیں۔
ایسی ریاست کے معرض وجود میں آنے کے کے لئے جو گہری تبدیلیاں ضروری ہیں وہ جنگ میں شکست کی وجہ سے، سماجی انقلاب کے بدولت، داخلی بغاوت کے بموجب، یا اس ریاست کے اندر عوامی طبقات کی سست مگر پیوستہ اور تبدیلی کا سبب بننی والی تحریک کو حاصل ہونے والی بین الاقوامی برادری کی حمایت (خاص طور پر اگر وہ باغی [اسرائیلی] ریاست سے تعلقات منقطع کرنے کے لئے تیار ہو) کے نتیجے میں رونما ہو سکتی ہیں۔ بہتر مستقبل کا یہ آخری راستہ طویل مگر ممکن ہے (اور اسرائیل کے معاملے میں، اس طریقے کی کامیابی کا امکان دوسرے راستوں سے زیادہ ہے)۔ لیکن یہ راستہ صرف اس وقت اختیار کیا جائے گا جب اسرائیل کے معاملے پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والے مختلف گروہ اپنے آپ کو ان مقامات اور ممالک میں اتحادی تلاش کرنے کے پابند ہوجائیں جنہیں وہ پہلے صرف دشمن کے طور پر دیکھتے تھے۔
واضح رہے کہ ابنا خبررساں ایجنسی اس رپورٹ کو رپورٹ صرف اور صرف اردو پڑھنے والے سیاستدانوں، فیصلہ سازوں اور اہل قلم و بیان کو بین الاقوامی میڈیا تھنک ٹینکس کے نقطہ نظر سے آگاہ کرنے کے لئے کر رہی ہے، اور ضروری نہیں ہے کہ اس رپورٹ میں موجود آراء، دعوؤں اور اشاروں توثیق بھی کرتی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. The Question of Israel’s Right to Exist Is a Red Herring
https://foreignpolicy.com/2025/09/01/israel-existence-zionism-regime-state/
2. Does Israel have the right to exist?
https://blogs.timesofisrael.com/does-israel-have-the-right-to-exist/
3. 2 Acceptable speech and the Israel-Hamas war
https://www.pewresearch.org/2024/04/02/acceptable-speech-and-the-israel-hamas-war/
4. Disciplining the Discourse around Israel-Palestine
https://www.securityincontext.org/posts/disciplining-the-discourse-around-israel-palestine
5. Israeli apartheid,
https://en.wikipedia.org/wiki/Israeli_apartheid
6۔ "جم کرو" (Jim Crow) امریکہ ـ بالخصوص ریاست ہائے متحدہ کی جنوبی ریاستوں 1870ع کے عشرے سے 1960ع کے عشرے تک کے نسل پرستانہ قوانین کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے کے تحت سفید فاموں اور غیر سفیدفاموں کے درمیان نسلی علیحدگی نافذ کی جاتی تھی۔
7. https://en.wikipedia.org/wiki/Jim_Crow_laws
8. Documents on Plans for Postwar Germany
https://teachingamericanhistory.org/document/documents-regarding-the/
9۔ یہاں شہریت سے مراد عرب باشندوں کو یہودیوں کے مقابلے میں دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کے شہریوں کا درجہ دینا ہے۔
10. Discriminatory Laws in Israel
https://www.adalah.org/en/law/index
11. Full text of Basic Law: Israel as the Nation State of the Jewish People
https://main.knesset.gov.il/en/news/pressreleases/pages/pr13978_pg.aspx
12. King Bibi" and Israeli Illiberalism: Assessing Democratic Backsliding in Israel during the Second Netanyahu Era (2009–2021)
https://muse.jhu.edu/pub/119/article/876826/pdf
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ