بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق صہیونی ریاست نے گذشتہ ہفتے صنعاء میں کابینہ اجلاس پر دہشت گردانہ حملہ کیا تو اس کے بعد صہیونی ریاست کے لئے آل سعود کا حمایتی اور حفاظتی کردار طشت از بام ہؤا، جس کے بعد یمن نے تل ابیب کے خلاف زمینی اور سمندری سطح پر اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور ٹارگٹ بینک کو توسیع دینے اور غاصب ریاست کے خلاف ایک نیا ڈیٹرنس فارمولا نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
لبنانی اخبار 'الاخبار' کے مطابق صنعاء حکومت سے وابستہ فورسز نے 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں مقبوضہ علاقوں کے اندر چار فضائی فوجی آپریشن کیے اور بحیرہ احمر میں ایک دوسرے اسرائیلی جہاز کو نشانہ بنایا۔
یہ اقدامات گذشتہ جمعرات (30 اگست 2025ع) کو صہیونی ریاست کے حملوں اور "تبدیلی اور تعمیر حکومت" کے وزیر اعظم احمد الربوی اور یمنی کابینہ کے متعدد وزراء کے قتل کے بعد ایک نئی ڈیٹرنس حکمت عملی میں بدلنے کے دائرے میں، اٹھائے گئے تھے۔
یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سریع نے اعلان کیا کہ "یہ حملے صماد-4 ڈرونز کے ذریعے کیے گئے اور ان کے اہداف میں تل ابیب میں اسرائیلی فوج کا ہیڈ کوارٹر، الخضیرہ پاور پلانٹ اور بن گوریون ہوائی اڈہ شامل ہیں"۔
عسکری ماہرین کے مطابق یہ آپریشن صہیونی دشمن پر یمنی حملوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کا آغاز ہے۔
اس کے ساتھ ہی یمنی بحریہ نے بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں صہیونی ریاست سے وابستہ کمپنیوں کے بحری جہازوں کے خلاف نگرانی اور تعاقب کی کارروائیاں تیزتر کر دی ہیں۔
یہاں تک کہ شمالی بحیرہ احمر میں سعودی بندرگاہ ینبع کے قریب اسرائیلی ٹینکر اسکارلیٹ رے پر حملے کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت بعد صنعا کی مسلح افواج نے کل اعلان کیا کہ انہوں نے اسی علاقے میں اسرائیلی مال بردار جہاز مارسک اببے کو بھی ایک کروز میزائل اور دو ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا ہے۔
صنعا میں عسکری ذرائع نے ان کارروائیوں کو "نئی فوجی حکمت عملی، سرخ لکیروں کے بغیر" کا حصہ قرار دیا۔
انصار اللہ کے سیاسی بیورو کے رکن "ضیف اللہ الشامی" نے بھی "اسرائیل کے خلاف بڑے سرپرائزز" کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ "صنعا کے پاس نئی حکمت عملی اور نئی تزویرات ہیں اور ہماری فوجی صلاحیتیں بہت وسیع ہیں"۔
اس کے ساتھ ہی صنعاء کی جانب سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کرنے کی تیاری کی خبریں شائع ہونے کے ساتھ ہی، سعودی عرب نے گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران یمن کے ساتھ سرحدی علاقوں میں اپنی جاسوسی اور فضائی گشتی پروازوں میں اضافہ کر دیا ہے اور اپنی فضائیہ کو چوکس کر دیا ہے تاکہ سعودی عرب کی حفاظت کے لئے اسرائیل پر کسی بھی ممکنہ یمنی حملے کو روکا جا سکے۔
ایک باخبر فوجی ذریعے نے اخبار "الاخبار" کو بتایا کہ "سعودی عرب کا فضائی انتباہ مشترکہ سعودی-امریکی-اسرائیل تعاون کے فریم ورک کے اندر انجام ہے؛ اور ریاض نے کچھ دوسرے عرب ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل کی حمایت کے لئے اپنی فضائی طاقت کا استعمال کیا ہے، جب کہ سعودیوں نے گذشتہ دو سالوں سے فلسطینیوں کے خلاف جرائم کے حوالے سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، یا پھر اسرائیل کو مدد بہم پہنچاتے رہے ہیں۔"
یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب نے اعلانیہ طور پر اپنے لڑاکا طیاروں کو یمنی سرحد پر تعینات کیا ہے تاکہ یمنی میزائلوں اور اسرائیل کی طرف بڑھنے والے ڈرون طیاروں کو روکا جا سکے۔ یہ وہی اقدام ہے جو کویت میں خلیج تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کے ایک بیان سے مطابقت رکھتا ہے، اور اس میں کونسل نے سعودی عرب کی درخواست پر بحیرہ احمر میں یمن کی بحری کارروائیوں کی مذمت کی تھی!
حیرت کی بات ہے کہ دوسری جانب جہاں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل ـ جنہوں نے صنعا میں حکومتی کابینہ پر حملے کے سلسلے میں اسرائیلی جرم کی مذمت نہیں کی ہے، وہیں ـ اس ملک میں یمنی سیکورٹی سروسز کے اقدامات اور بین الاقوامی اداروں کے متعدد ملازمین سے ان کی پوچھ گچھ میں پر شدید تنقید کی ہے!!
صنعا کے متعدد ذرائع کے مطابق، جن سے پوچھ گچھ کی گئی ان میں سے زیادہ تر لوگ عالمی فوڈ پروگرام اور یونیسیف جیسی تنظیموں میں حفاظت اور سلامتی کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔
انہی ذرائع کے مطابق گذشتہ ہفتے صنعا میں اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بننے والا یمنی حکومت کا اجلاس ایک اعلانیہ اور باقاعدہ اجلاس تھا جس میں بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں نے بھی اپنے خیالات، تجاویز اور اور مشاہدے اور تشخیصات پیش کرنے کے لئے شرکت کی۔
یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈبرگ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ حملے میں متعدد "سیاسی ثالث" مارے گئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی ادارے اجلاس میں موجود تھے یا اس سے آگاہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ