3 ستمبر 2025 - 17:22
یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم کیخلاف مظاہرے؛ گھر کے باہر گاڑی اور ٹینک نذرِ آتش

مظاہرین کا وزیر اعظم نیتن یاہو سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کیلیے حماس سے معاہدے کا مطالبہ

اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا۔  کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مظاہرے وسعت اور شدت پکڑتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ نیتن یاہو کی رہائش گاہ بھی محفوظ نہیں رہی۔

عوام کی بڑی تعداد نے آج اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب شدید احتجاج کیا جس کے دوران وہاں ایک ٹینک کو بھی آگ لگادی گئی۔

ٹینک میں لگی آگ اتنی خوفناک تھی کہ اس نے ساتھ کھڑی اسرائیلی فوجی اہلکار کی ایک کار کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ٹینک اور گاڑی دونوں جل کر خاکستر ہوگئے۔

متاثرہ گاڑی کے مالک اسرائیلی فوجی اہلکار نے بتایا کہ غزہ میں جنگ کے دوران مسلسل خدمات انجام دے چکا ہوں اور یرغمالیوں کے خاندانوں کے ساتھ ہوں لیکن یہ آگ عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا رہی ہے۔

اس عوامی مظاہرے کے باعث اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قرب و جوار میں رہنے والے رہائشیوں کو اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔

مظاہرین نے کچرے کے ڈبوں اور ٹائروں کو بھی آگ لگا دی جس سے آگ قریبی گھروں اور گاڑیوں تک پھیل گئی تھی۔

یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف یہ احتجاج "یومِ خلل" (Day of Disruption) کے موقع پر ہوا جس کا مقصد غزہ میں قید 48 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔

ادھر اسرائیلی پولیس نے اس احتجاج کو "جرم اور دہشت گردی" قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدامات کسی بھی پرامن مظاہرے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔

وزیرِانصاف یاریو لیوِن اور انتہاپسند وزیرِقومی سلامتی ایتمار بن گویر نے مظاہرین کو "آتش زن دہشت گرد" قرار دیتے ہوئے طاقت کے استعمال کا حکم دیا۔

اسی دوران حکومت نے حسبِ روایت اپنے اندرونی اختلافات کا ذمہ دار اٹارنی جنرل گالی بہاراو-میارا اور اعلیٰ عدالت کو ٹھہرانا شروع کر دیا۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے بھی گاڑیوں کو آگ لگانے کی مذمت کی لیکن ساتھ ہی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اصل جرم یہ ہے کہ حکومت نے غزہ میں قید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ نہ ہونے دیا۔

اپوزیشن رہنماؤں یائیر لپیڈ اور بینی گینتز نے کہا کہ پُرامن احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے، لیکن تشدد سے جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل اندرونی طور پر شدید سیاسی و سماجی بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف نیتن یاہو کی حکومت اپنی انتہاپسند پالیسیوں کے باعث تنقید کی زد میں ہے، تو دوسری جانب غزہ میں جاری قتل و غارت اور یرغمالیوں کی بازیابی میں ناکامی نے عوامی غصے کو مزید بڑھا دیا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے دانستہ طور پر غزہ کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو سبوتاژ کیا تاکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور حکومت مخالف تحریک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نیتن یاہو کی انتہاپسند پالیسیوں نے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ اسرائیلی معاشرے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

عالمی برادری کے لیے یہ ایک اور موقع ہے کہ وہ اسرائیل کے غیرذمہ دارانہ رویے اور غزہ میں انسانی المیے پر خاموش تماشائی بننے کے بجائے دباؤ ڈالے تاکہ اصل امن قائم ہو سکے۔

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ کو جاری رکھا ہوا ہے جس سے اس کی عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہورہی ہے اور اتحادی ممالک بھی اب اس کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha