بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || شاید اس بات پر کم غور کیا گیا ہو کہ غزہ کا اصل اور قدیم نام درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جد امجد حضرت ہاشم بن عبدمناف کے مقبرے کے یہیں واقعے ہونے کی بنا پر "غزۃُ ہاشم" تھا:
سلسلہ مبارکہ: پیغمبر اکرم محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف (صلی اللہ علیہ و آلہ)
غزہ میں واقع "مسجد السید ہاشم بن عبد مناف" اور متعلقہ تعمیراتی دستاویزات اس مقام کی صداقت (Authenticity) کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
اب جبکہ سفاک صہیونی ریاست نے غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے، دراصل وہ عظيم اسلامی تہذیب پر ایک اور شدید ضرب لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مسجد السید ہاشم جو کہ غزہ کے پرانے حصے میں واقع 'الدرج' نامی محلے میں واقع ہے، فلسطین کی تاریخی سرزمین کی اہم ترین زیارت گاہوں میں سے ایک ہے۔
یہ مسجد ایک تاریخی اور مذہبی علامت ہے، جس میں حضرت ہاشم کا مزار مسجد کے شمال مغربی گوشے میں واقع ہے اور فلسطینی عوام کی زیارت گاہ ہے۔
او در سال ۱۲۵ پیش از هجرت (حدود ۵۲۴ میلادی) در آخرین سفر خود در غزه درگذشت و در غاری نزدیک دیوارهای شهر دفن شد .
حضرت ہاشم بن عبد مناف، جو پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ہجرت سے 158 سال قبل پیدا ہوئے، قریش کے ایک بڑے تاجر تھے جو شام کے تجارتی سفر پر غزہ سے گذرے تھے۔ ان کا انتقال ہجرت نبوی سے 135 سال قبل (تقریبا سنہ 524ع)، ان کے آخری سفر کے دوران، غزہ میں ہؤا اور انہیں غزہ کی فصیل کے قریب ایک غار میں سپرد خاک کیا گيا۔
غزہ کا نام، حضرت ہاشم کے مقبرے کی وجہ سے، "غزۃ ہاشم" کے عنوان سے مشہور ہؤا۔ یہ نام زمانۂ جاہلیت کی عربی شاعری میں بھی مذکور ہے۔
گذشتہ دو سالوں میں غزہ پر جارحیت کے دوران مسجد السید ہاشم کے کچھ حصے غاصب صہیونی جارحوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئے اور اسپین کی تنظیم "Heritage for Peace" سمیت بین الاقوامی اداروں نے اپنی رپورٹوں میں اس مقام کو پہنچنے والے نقصان کی تصدیق کر دی۔
فلسطینی اس مقام کو "قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت" سمجھتے ہیں اور اس پر کسی بھی حملے یا تخریبی کاروائی کو صہیونی غاصبوں کی طرف سے خطے کا اسلامی ورثہ مٹانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔
غزہ کے قلب میں اس مقبرے کی موجودگی تاریخ اسلام میں اس شہر کی اہمیت کی تائید کرتی ہے۔ حضرت ہاشم بن عبد مناف کا مزار نہ صرف ایک مذہبی مقام ہے بلکہ یہ غزہ اور "اسلامی تہذیب" کے باہمی تعلق، اور "فلسطین کے تاریخی تشخص" کی علامت بھی ہے۔
غزہ ویسے بھی مغرب تہذیب کا قبرستان اور دو ارب مسلمانوں کے کردار کا منتظر اور امت مسلمہ کے لئے آزمائشگاہ کی حیثیت رکھتا ہے، اب یہ مظلوم مگر بہادر خطہ
"غزۂ ہاشم" کو درپیش المیے کی وجہ سے، پوری دنیا والوں ـ بالخصوص مسلمانان عالم کے لئے ـ ایک نیا امتحان ہے۔ غزہ نے گذشتہ دو سالہ عرصے میں مظلومیت کی انتہاؤں کو اپنی ہڈی پسلی سے محسوس کیا ہے، یہاں مغرب اور اس کے چیلے 'اسرائیل' نے ہر طرح کے ـ قابل تصور ـ مظالم کا تجربہ کر لیا ہے، یہ خطہ بدستور محصور ہے، یہاں مصنوعی بھوک مسلط کی گئی ہے، یہاں 60000 سے زائد فلسطینی ـ جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے ـ جام شہادت نوش کر چگے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب زخمی ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اور اب اس مظلوم خطے پر صہیونی غاصبوں کے مکمل قبضے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں جبکہ ایسی ہی خبریں مغربی کنارے کے بارے میں سنائی دے رہے ہیں جس سے مغربی ممالک کی منافقت اور بھی عیاں ہو گئی ہے، جو ایسی سرزمین میں دو ریاستی حل کا جھوٹا دعوی کر رہے ہیں، جس پر عنقریب مکمل صہیونی قبضے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110










آپ کا تبصرہ