اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، ضلع کرم ـ پاکستان کے سرکاری ذرائع اور ضلعی انتظامیہ کے مطابق
لوئر کرم مندوری اوچت چارخیل اور بگن میں گذشتہ روز پاراچنار جانے والے سامان کے
ٹرکوں کے قافلے پر حملہ کیا گیا، جس میں ایک ڈرائیور اور فورسز کا ایک اہلکار موقع
پر جاں بحق ہوا۔
واقعے کے بعد ہیلی کاپٹروں
سے بھی شیلنگ کی گئی، اس دوران کرم ملیشاء کے کمانڈنٹ کرنل حیدر کی گاڑی پر بھی
بھاری اور خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا جس میں 3 گاڑیوں کو نقصان پہنچا تاہم
کرنل حیدر محفوظ رہے۔
واقعے میں فورسز کے 4
اہلکار شہید جبکہ کیپٹن سمیت 5 اہلکار زخمی ہو گئے جبکہ مجموعی طور پر اس واقعے میں
5 اہلکاروں کی شہید اور 5 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
شہدا میں لانس نائک قابل
خان، لانس نائک عبدالرحمان، لانس نائک یاسین، سپاہی ثقلین اور سپاہی دانش شامل ہیں
جبکہ زخمیوں میں حوالدار عظیم، نائک توصیف، نائک نیاز محمد اور لانس نائک ہارون
شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حملے میں ایک
ڈرائیور، ایک راہگیر اور 2 حملہ آور بھی مارے گئے جبکہ 5 سیکیورٹی اہلکاروں اور 5
ڈرائیوروں سمیت 20 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
پولیس کے مطابق 19 مجموعی
طور پر 35 ٹرک لوٹ لیے گئے ہیں۔ ٹرکوں کے سامان کو لوٹنے کے بعد گاڑیوں کو بھی جلا
دیا گیا۔
ڈرگز ایسوسی ایشن کے
رہنماؤں سید افتخار حسین اور سید محمد حنیف کا کہنا ہے کہ ڈرگ ایسوسی ایشن نے
مشترکہ طور پر ایک بڑے ٹریلر میں 12 کروڑ روپے کا سامان ڈالا تھا جو لوٹ لیا گیا۔
کرم سے رکن قومی اسمبلی
انجینیئر حمید حسین کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے باوجود بار بار خلاف ورزی پر
حکومت کی خاموشی افسوسناک ہے، بدامنی کے مرتکب افراد کے خلاف فوری کارروائی کی
جائے اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کاروائی کرتے ہوئے راستے کھول دیے جائیں۔
حمید حسین کا مزید کہنا
تھا کہ لیبیا کشتی حادثے میں پاراچنار سے تعلق رکھنے والے زیادہ تعداد میں
نوجوانوں کی جاں بحق ہونے کی وجہ بھی صرف اور صرف علاقے میں طویل عرصے سے بدامنی
ہے۔
دوسری جانب ممبر صوبائی
اسمبلی علی ہادی عرفانی نے کہا ہے کہ بار بار تاجروں اور دکانداروں کے کروڑوں روپے
کے سامان کو لوٹا گیا اور گاڑیوں کو جلایا گیا حکومت اور متعلقہ ادارے متاثرین کی
فوری امداد کریں اور خوراک و علاج سمیت ضروری سامان کی ترسیل یقینی بنائیں۔
امن دشمنوں کو مذموم مقاصد
میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بیرسٹر سیف [کی ڈینگ]
مشیر اطلاعات خیبر
پختونخوا بیرسٹر سیف نے گذشتہ روز کرم میں ریسکیوآپریشن کے دوران سیکیورٹی
اہلکاروں پر فائرنگ اور شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ واقعہ انتہائی
افسوسناک ہے، امن دشمنوں کو مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نےکہا کہ شہداء کی
قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، ملک و قوم کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے
اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی
حکومت شہداء اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کے دکھ میں برابر کی شریک ہے، بیرسٹر
سیف نے شہداء کے بلند درجات، زخمیوں کی جلد صحتیابی اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی
دعا کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ: پاکستان اور خاص طور
پر کے پی کے کے حکمران کوئی اقدام کرنے کے بجائے شہداء کے لئے بلند درجات، زخمیوں
کی صحتیابی اور لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں۔ کیا یہ سب مشکوک نہیں
ہے؟
تکفیری دہشت گردوں نے درجنوں ٹرکوں پر حملہ کیا جو کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات لے کر پاراچنار جا رہے تھے، یہ علاقہ پانچ مہینوں سے سرکار کی طرف سے مجاز تکفیریوں کے محاصرے میں ہے جنہیں کرم کی حدود میں "فتنۃ الخوارج" کی لسٹ سے نکالا گیا ہے۔ ٹرکوں میں سامان کو ٹھنڈے پیٹوں لوٹا گیا اور لوٹ مار میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے۔ یہ پہلا حملہ نہیں تھا اور آخری بھی نہیں ہوگا، سوائے اس کہ حکومت پاکستان ـ جو پورے ملک میں دہشت گردی سے دوچار ہے ـ اس علاقے کو پرامن بنانے کے لئے تکفیری فریق کا ساتھ دینا چھوڑ دے اور نیک نیتی سے امن کے قیام کے لئے کوشش کرے اور دہشت گردوں کے خلاف حقیقی آپریشن کریں۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے سرکاری اداروں نے بڑی تشہیری مہم چلا کر تکفیریوں کے ہاتھ یرغمال بنے ہوئے علاقے میں آپریشن کیا اعلان کیا لیکن اس آپریشن میں نہ کوئی گولی چلی اور نہ ہی کوئی "فتنۃ الخوارج" کا ملزم ٹہرا اور نہ ہی کوئی تکفیری مارا گیا اور نہ ہی زخمی ہؤا۔ چنانچہ تکفیریوں کو اطمینان ہؤا کہ وہ جو کرنا چاہیں کر سکتے ہيں اور آج وہ براہ راست سیکورٹی فورسز اور ان کے کمانڈروں کو دھڑلے سے نشانہ بناتے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جس طرح کہ صہیونیوں کو غزہ میں عالمی قوانین سے استثنا حاصل ہے کرم کے علاقے میں بھی صہیونی مقاصد کے لئے کوشاں تکفیریوں کو بھی پاکستانی قوانین اور فتنۃ الخوارج کے زمرے میں آنے سے استثنا حاصل ہے۔
تصاویر میں کچھ سیکورٹی اہلکاروں کو لوٹ مار کرنے والوں کے پہلو بہ پہلو دیکھا جا سکتا ہے جو مسلح تو ہیں لیکن تماشا دیکھنے کے ترجیح دے رہے ہیں، کیا یہ مسئلہ مشکوک نہیں ہے؟
کہا جاتا ہے کہ تکفیریوں نے ان سیکیورٹی اہلکاروں کو قتل کر دیا جو تکفیریوں کا مقابلہ کرنے پر اتر آئے تھے اور جنہوں نے مقابلہ نہیں کیا، ساتھ دیا، ہاتھ بٹایا یا خاموش تماشائی بن کر رہے، وہ محفوظ رہے!
۔۔۔۔۔۔۔
110

