اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
امام
حسین (علیہ السلام) کی چالیس حدیثیں
قَالَ
السيِّدُ الشُّهَدَاءُ الْإِمَامُ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ بْنِ طَالِبٍ
عَلَيْهِمُ السَّلاَم
سیدالشہداء امام
حسین علی بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) نے فرمایا
1۔ تین لوگوں سے حاجت طلب
کرو
"لَا تَرْفَعْ
حَاجَتَكَ إِلاَّ إِلَى أَحَدِ ثَلاَثَةٍ إِلَى ذِي دِينٍ أَوْ مُرُوَّةٍ أَوْ
حَسَبٍ فَأَمَّا ذُو الدِّينِ فَيَصُونُ دِينَهُ وَأمَّا ذُو المُرُوَّةِ فَإنَّهُ
يَسْتَحْيي لِمُرُوَّتِهِ وَأمَّا ذُو الْحَسَبِ فَيَعْلَمُ أَنَّكَ لَمْ تُكرِمْ
وَجْهَكَ أَنْ تَبْذُلَهُ لَهُ في حَاجَتِكَ فَهُوَ يَصُونُ وَجْهَكَ أَنْ
يَرُدَّكَ بِغَيْرِ قَضَاءِ حَاجَتِكَ؛ [1]
اپنی حاجت (اور ضرورتمندی) کا اظہار تین افراد کے سوا، کسی کے پاس مت کرنا: دیندار
انسان، یا جوانمرد انسان، یا خاندانی انسان؛ کیونکہ ایک دیندار انسان اپنے دین کی
حفاظت کے لئے تمہاری حاجت پوری کرتا ہے؛ ایک جوانمرد انسان اپنی جوانمردی کی رو سے
شرمندہ ہوتا ہے [کہ تمہاری حاجت پوری کرتا ہے]؛ اور ایک شریف خاندانی آدمی سمجھتا
ہے کہ تم نے اس کی طرف رجوع کرکے اپنی عزت کا سودا کیا ہے، اور وہ تمہاری ضرورتیں
پوری کرکے تمہاری عزت کو بچا دیتا ہے"۔
2۔ دو میں سے
ایک سابق الجنہ ہے
"إِنِّى سَمِعْتُ
جَدِّى صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ يَقُولُ أَيُّمَا اِثْنَيْنِ جَرَى
بَيْنَهُمَا كَلاَمٌ فَطَلَبَ أَحَدُهُمَا رِضَى اَلْآخَرِ كَانَ سَابِقَهُ إِلَى
اَلْجَنَّة؛ [2]
میں نے اپنے نانام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو فرماتے ہوئے
سنا: اگر دو افراد جھگڑا ہؤا تو جو تو جو دوسرے کو راضي کرنے کے لئے پہلے اقدام
کرے گا وہ جنت میں پہلے داخل ہوگا"۔
3۔ خالق کی ناراضگی کی قیمت پر مخلوق کی خوشنودی حاصل کرنے
کا نتیجہ
"لَا أَفْلَحَ قَوْمٌ
اِشْتَرَوْا مَرْضَاةَ الْمَخْلُوقِ بِسَخَطِ اَلْخَالِقِ؛ [3]
کوئی بھی ایسی
قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی اور فلاح نہیں پائے گی جس نے خالق کی ناراضگی کے بدلے
مخلوق کی خوشنودی خرید لی ہو"۔
4۔ خدا کی ناراضگی کی قیمت پر لوگوں کی رضامندی حاصل کرنے
کا نتیجہ
"مَنْ طَلَبَ رِضَى
اَللَّهِ بِسَخَطِ اَلنَّاسِ كَفَاهُ اَللَّهُ أُمُورَ اَلنَّاسِ وَ مَنْ طَلَبَ
رِضَا اَلنَّاسِ بِسَخَطِ اَللَّهِ وَكَلَهُ اَللَّهُ إِلَى اَلنَّاسِ؛ [4]
جو لوگوں کو
ناراض کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں سے بے نیاز کرے
گا اور جو لوگوں کی خوشنودی کے عوض خدا کو ناراض کرے گا، خدا اسے لوگوں پر چھوڑ دے
گا (اور اس سے اپنی نظریں پھیر لے گا)"۔
5۔ شیعہ اور محب /
معتقد اور عقیدتمند میں فرق
ایک شخص نے امام حسین (علیہ السلام) سے عرض کیا:
میں آپ کا شیعہ ہوں تو آپؑ نے فرمایا:
"يَا ابْنَ رَسُولِ
اللّه ِ إِنّا مِنْ شيعَتِكُمْ، قالَ عليه السلام: اِتَّقِ اللّهَ! وَلا
تَدَّعِينَ شَيْئا يَقُولُ اللّهُ لَكَ 'كَذِبْتَ وَ فَجَرْتَ فى دَعْواكَ'؛ إنَّ
شيعَتَنا مَنْ سَلُمَتْ قُلُوبُهُمْ مِنْ كُلِّ غِشٍّ وَغِلٍّ وَدَغَلٍ؛ وَلكِنْ
قُلْ أنَا مِنْ مَواليكُمْ وَمُحِبُّكُمْ"؛ [5]
اللہ کا خوف
کرو، اور ایسی بات نہ کرو کہ خدا تم سے فرما دے "تم نے جھوٹ بولا اور اپنے
دعوے میں گمراہی سے کام لیا"، ہمارا شیعہ وہ ہے جس کا قلب (دل) ہر طرح کی
دھوکہ دہی، بددیانتی اور فریب کاری سے پاک ہو۔ چنانچہ تم کہو: ہم آپ کے دوستوں اور
حب داروں میں سے ہیں"۔
6۔ خوف خدا قیامت میں امان
"لَا یَأْمَنُ یَوْمَ
القِيَامَةِ إِلَّا مَنْ قَدْ خَافَ اللهَ فِي الدُّنْيَا؛ [6]
قیامت کے دن کوئی بھی محفوظ نہيں ہوگا، سوا اس کے جو اس دنیا میں خدا [عذاب] سے ڈرتا
رہا ہے"۔
7۔ میرے پاس آنے والا مسرور ہوکر لوٹے گا
امام حسین (علیہ
السلام) نے فرمایا:
"وَحَقيقٌ
عَلَى اللّهِ اَنْ لا يَاْتيَنى مَكْرُوبٌ اِلاّ اَرُدُّهُ وَ اَقْلِبُهُ اِلى اَهْلِهِ
مَسْرورا؛ [7]
اور یہ خداوند متعال پر ہے کہ کوئی بھی غم زدہ اور مصیبت زدہ انسان
میرے پاس نہیں آئے گا سوائے اس کے کہ میں اس کو شادماں و مسرور کرکے اس کے خاندان
کے پاس لوٹا دوں گا"۔
8۔ دوزخ سے نجات کا ایک
وسیلہ
"اَلْبُكَاءُ مِنْ
خَشْيَةِ اللّهِ نَجَاةٌ مِنَ النَّارِ؛ [8]
خدا کے خوف سے گریہ کرنا دوزخ کی آگ سے نجات ہے"۔
9۔ گناہ کو زندگی کا وسیلہ
مت سمجھنا
"مَنْ حَاوَلَ
أَمْراً بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ كَانَ أَفْوَتَ لِمَا يَرْجُو وأَسْرَعُ لِمَا
يَحْذَرُ؛ [9]
جو شخص ایسے
کام کے درپے ہو جس میں اللہ کی نافرمانی ہو ان سب چیزوں سے سب سے زیادہ ناامید
ہوگا جن کی وہ زیادہ امید رکھتا ہے اور تیزرفتاری سے ان چیزوں سے دوچار ہوگا جن کے
آنے سے وہ فکرمند رہتا ہے"۔
10۔ عفو و درگذر طاقت کے
باوجود
"إِنَّ
أَعْفَى النَّاسِ مَنْ عَفَا عِنْدَ قُدْرَتِهِ؛ [10]
سب سے زیادہ بخشنے والا شخص وہ ہے جو طاقت رکھتے ہوئے بھی بخش دے۔
(یعنی وہ جو طاقت کے باوجود انتقام لینے کی بجائے، بخش دے وہ سب سے زیادہ بخشنے
والا ہے)"۔
11۔ سلام کے حسنات
"لِلسَّلَامِ سَبْعُونَ
حَسَنَةً تِسْعٌ وَسِتُّونَ لِلْمُبْتَدِء وَوَاحِدَةٌ لِلرَّادِّ؛ [11]
سلام کے لئے 70
حسنات، نیکیاں اور بھلائیاں ہیں، 69 حسنات سلام کرنے والے کے لئے اور ایک جواب دینے
کے لئے"۔
12۔ سلام نہ کرنا کنجوسی ہے
"اَلْبَخِيلُ مَنْ بَخِلَ بِالسَّلاَمِ؛ [12]
بخیل [کنجوس] ہے وہ جو سلام کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے"۔
13۔ عالم کی
نشانی
"مِنْ دَلائلِ
الْعَالِمِ إِنْتِقَادُهُ لِحَدِيثِهِ وَعِلْمُهُ بِحَقَائقِ فُنُونِ النَّظَرِ؛ [13]
عالم کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے بیان پر خود ہی تنقید کرتا ہے اور
مختلف نظریات اور آراء سے آگاہ ہوتا ہے"۔
یعنی مطالعہ
کرتا ہے اور اپنی بات کو آخری بات نہیں سمجھتا اور لوگوں کی تنقید کو اہمیت دیتا
اور ان کی رائے معلوم کرتا اور سنتا ہے۔
14 اپنی باتوں سے اپنی قدر مت گھٹانا
"لَا تَقَولُوا بِأَلْسِنَتِكُمْ
مَا يَنْقُصُ عَنْ قَدْرِكُم؛ [14]
ایسی بات اپنی زبان پر مت لاؤ جو تمہاری قدر و
قیمت گھٹا دیتی ہو"۔
15۔ اتباع حق عقل کامل کا سبب
"لَا يَكْمُلُ
الْعَقْلُ إِلَّا بِاتِّبَاعِ الْحَقِّ؛ [15]
عقل حق کی پیروی کے بغیر مکمل نہیں ہوگی"۔
16۔ غلطی اور معذرت مؤمن
کا کام نہیں
"إِيَّاكَ وَمَا
يُعْتَذَرُ مِنْهُ فَإِنَّ اَلْمُؤْمِنَ لاَ يُسِيءُ وَلاَ يَعْتَذِرُ
وَاَلْمُنَافِقَ يُسِيءُ كُلَّ يَوْمٍ وَيَعْتَذِرُ؛ [16]
اجتناب کرو ایسے افعال سے جس کی وجہ سے تمہیں معذرت کرنا
پڑتی ہے، کیونکہ مؤمن کبھی غلط کام نہيں کرتا چنانچہ اس کو معافی نہیں مانگنا
پڑتی؛ جبکہ مناقق ہر روز غلطیاں کرتا ہے چنانچہ اسے ہر روز معافیاں مانگنا پڑتی
ہیں"۔
17۔ اچھی اور بری صفات
"إِنَّ الْحِلْمَ
زِينَةٌ والْوَفَاءَ مُرُوَّةٌ وَالصِّلَةِ نِعْمَةٌ وَالإِسْتِكْبَارُ صَلَفٌ وَالْعَجَلَةُ
سَفَهٌ وَالسَّفَهُ ضَعْفٌ وَالْغُلوَّ وَرْطَةٌ وَمُجَالَسَةَ أهْلِ الدَّنَاءَةِ
شَرٌ وَمُجَالَسَةَ أهْلِ الفِسْقِ رِيبَةٌ؛ [17]
بردباری زینت
ہے، اور وفاداری (اور وفائے عہد و پیمان) جوانمردی اور فیاضی ہے، صلہ رحمی (اور
قرابتداروں سے رابطہ قائم رکھنا) نعمت ہے، استکبار تکبر، گھمنڈ، اور بڑائی جتانا
ہے، جلدبازی بے وقوفی ہے، اور بے وقوفی کمزور ہے، اور غُلُوّ اور زیادہ روی بھنور
(اور مخمصہ و مصیبت) ہے؛ اور پست اور گھٹیا لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شر اور بدی
ہے اور سیدھی راہ سے بھٹکنے والے اہل گناہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شک، الزام اور
تہمت (کا شکار ہونا) ہے"۔
18۔ ظالموں کے ساتھ جینے
سے موت بہتر
"أَلَا
تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لَا يُعْمَلُ بِهِ وَاَلْبَاطِلَ لَا يُتَنَاهَى عَنهُ
لِيَرغَبَ الْمُؤْمِنُ فِي لِقَاءِ رَبِّهِ حَقّاً حَقَّاً فَإنّي لا أَرَى
الْمَوْتَ إِلاَّ سَعَادَةً والْحَياةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلاَّ بَرَمَاً؛ [18]
کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہوتا اور باطل سے پرہیز
نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ مؤمن اور بجا ہے کہ ان حالات میں ایک مؤمن انسان لقائے پروردگار (موت) راغب
ہوجائے۔ پس میں اس راہ میں موت کو سعادت کے سوا کچھ نہيں سمجھتا اور ظالمین و
جابرین کے ساتھ جینے کو رنج و مصیبت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا"۔
19۔ عبادت کا حق اور
آرزوئیں
"مَنْ عَبَدَاللّهَ
حَقَّ عِبَادَتِهِ آتاهُ اللّهُ فَوْقَ أَمَانِيهِ وَكِفَايَتِهِ؛ [19]
جس نے خدا کی عبادت اور بندگی کا حق ادا کیا خداوند متعال اس کی
آرزؤوں سے کہيں اور اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ عطا فرماتا ہے"۔
20۔ امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت
"مَن زَارَنِي بَعْدَ مَوْتِي زُرْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
وَلَوْ لَمْ يَكُنْ إِلاَّ فِي النَّارِ لَأخْرَجْتُهُ؛ [20]
جو میری موت کے بعد میری زیارت کرے گا میں قیامت کے دن اس کے دیدار کو
آؤں گا اور حتیٰ اگر اسے دوزخ کے سوا کہیں نہ پاؤں تو اسے [دوزخ] سے نکالوں
گا"۔
21۔ شکر، نعمتوں کا ضامن
"شُكْرُكَ لِنِعْمَةٍ
سالِفَةٍ يَقْتَضِي نِعْمَةً آنِفَةً؛ [21]
پچھلی نعمت پر
اللہ کا شکر ادا کرنا، اگلی نعمت کے فورا آنے کا متقاضی ہے"۔
22۔ عقلمند عقل
سے چارہ جوئی کرتا ہے
"الْأَمِينُ آمِنٌ،
وَالْبَرِيءُ جَرِيءٌ، وَالْخَائِنُ خَائِفٌ وَالْمُسِيءُ مُسْتَوْحِشٌ، إِذَا
وَرَدَتْ عَلَى الْعَاقِلِ لَمَّةٌ قَمَعَ الْحُزْنَ بِالْحَزْمِ، وَقَرَعَ
الْعَقْلَ لِلِإِحْتِيَالِ؛ [22]
امانت دار
محفوظ رہتا ہے، اور بے گناہ آدمی نڈر ہے، اور ظالم و بدکار شخص تنہا اور گھبرایا
ہؤا رہتا ہے، جب عقلمند شخص پر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ ہوشیاری اور دوراندیشی
کے ذریعے زائل کرتا ہے اور عقل کو چارہ جوئی کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے"۔
23۔ رواداری کنجی ہے
"مَنْ أَحْجَمَ عَنِ
الرَّأْيِ وَعَيِيَتْ بِهِ الْحِيَلُ كَانَ الرِّفْقُ مِفْتَاحَهُ؛ [23]
جو کسی امر میں کوئی رائے اور نظر نہیں رکھتا اور چارہ کار اس کا
مسئلہ حل نہیں کرتا، تو اس کے معاملات کی کنجی صرف رواداری اور نرم روی ہے"۔
24۔ پاکدامنی اور حرص
"لَيسَتِ الْعِفّةُ
بِمَانِعَةٍ رِزْقا وَلَا الْحِرْصُ بِجَالِبٍ فَضْلاً وَإِنَّ الرِّزْقَ
مَقْسُومٌ وَالْأَجَلَ مَحْتومٌ وَاسْتِعمَالُ الْحِرْصِ طَالِبُ الْمَأْثَمِ؛ [24]
نہ تو حرام سے پرہیز اور پاکدامنی رزق میں رکاوٹ ہے اور نہ ہی حرص و
لالچ سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے، اور بے شک رزق تقسیم ہوچکا ہے اور اجل حتمی ہے اور
حرص گناہوں کی طرف کھینچ لیتا ہے"۔
25ـ حصول عزت کے لئے موت
کس قدر آسان ہے
"لَيْسَ شَأْني شَأنُ
مَنْ يَخَافُ الْمَوْتَ، مَا أَهْوَنَ الْمَوْتِ عَلى سَبيلِ نَيْلِ الْعِزِّ
وَاِحْياءِ الْحَقِّ، لَيْسَ الْمَوْتُ في سَبيلِ الْعِزِّ اِلاّ حَياةً خالِدَةً
وَلَيْسَتِ الْحَياةُ مَعَ الذُّلِّ إِلَّا الْمَوْتَ الَّذي لَا حَيَاةَ مَعَهُ
اَفَبِالْمَوْتِ تُخَوِّفُني ... وَهَلْ تَقْدِرُونَ عَلَى أَكْثَرِ مِنْ قَتْلي؟!
مَرْحَباً بِالْقَتْلِ في سَبيلِ اللّهِ وَلَكِنَّكُمْ لَا تَقْدِروُنَ عَلَى
هَدْمِ مَجْدي وَمَحْوِ عِزّي وَشَرَفي؛ [25]
میری شان اس
شخص کی طرح نہیں ہے جو موت سے ڈرتا ہے، عزت و سربلندی اور حق کے احیاء کی راہ میں
موت کس قدر آسان ہے۔ بے شک عزت کی راہ میں موت دائمی حیات ہے اور ذلت کے ساتھ جینا
ایسی موت کی مانند ہے جس کے بعد کوئی حیات نہیں ہے، تو کیا تم مجھے موت سے ڈراتے
ہو۔۔۔ کیا قتل سے آگے بھی کچھ ہے جو تم کر سکتے ہو؟ میں اللہ کی راہ میں قتل ہونے
کا خیر مقدم کرتا ہوں، لیکن تو میری شان و عظمت کو تباہ نہیں کر سکتے ہو اور میری
عزت و سربلندی اور میری شرافت کو نیست و نابود نہیں کر سکتے ہو"۔
26۔ اگر تمہارا کوئی دین
نہيں ہے تو ...
"وَيْحَكُمْ
يَا شِيعَةَ آلِ أَبِي سُفْيَانَ! إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دِينٌ وَكُنْتُم لَا
تَخَافُونَ المَعَادَ فَكُونُوا أَحْرَاراً فِي دُنْيَاكُمْ هَذِهِ، وَارْجِعُوا
إِلَى أَحْسَابِكُمْ إَنْ كُنْتُمْ عَرَباً كَمَا تَزْعُمُونَ؛ [26]
ہائے ہے تم پر اے گروہ خاندانِ آلِ ابی سفیان!
اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے ہو، تو کم از اپنی
اس دنیا میں آزاد اور جوانمرد رہو، اور اپنے حسب و نسب میں غور کرو، اگر ـ جیسا کہ
تم سمجھتے ہو ـ تم عرب ہو تو اپنے حسب و نسب میں غور کرو"۔
27۔ راہ حق میں ناہمواریوں
پر صبر
"اصْبِرْ عَلَى مَا
تَكْرَهُ فِيمَا يَلْزَمُكَ الْحَقُّ وَاصْبِرْ عَمَّا تُحِبُّ فِيمَا يَدْعُوكَ
إِلَيْهِ الْهَوَى؛ [27]
حق و ہدایت کے راستے میں ان واقعات و حادثات پر صبر کرو جو تمہيں
ناپسند ہیں اور صبر و استقامت کرو ان لذتوں کی طرف جانے سے جن کی طرف تمہاری
نفسانی خواہشیں تمہیں بلاتی ہیں"۔
28۔ ہمارا حبدار ہم اہل
بیت میں سے ہے
"مَنْ أَحَبَّنَا
كَانَ مِنَّا أَهْلَ اَلْبَيْتِ فَقُلْتُ مِنْكُمْ أَهْلَ اَلْبَيْتِ؟ فَقَالَ
عَلَيْهِ السَّلاَمُ: مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ؛ حَتَّى قَالَهَا ثَلاَثاً؛ ثُمَّ
قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَمَا سَمِعْتَ قَوْلَ اَلْعَبْدِ اَلصَّالِحِ ﴿فَمَنْ
تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي﴾ [28] ؛ [29]
جو ہم سے محبت
کرے وہ ہم اہل بیتْ میں سے ہے۔ میں نے عرض کیا: [کیا] آپ کا محب آپ اہل بیتْ میں
سے ہے؟ فرمایا: ہاں! وہ ہم اہل بیتْ میں سے ہے حتیٰ کہ آپؑ نے یہ جملہ تین مرتبہ
دہرایا اور فرمایا: کہ کیا آپ نے بندہ صالح (ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام)) کا یہ
کلام نہیں سنا ہے کہ "جس نے میری پیروی کی وہ مجھ سے ہے؟"۔
29۔ امام حسین
امیرالمؤمنین کا جواب دیتے ہیں
"أَقْبَلَ
أمِيرُالمؤْمِنِينَ عَلَى اِبْنُهُ اَلْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ؛ فَقَالَ:
يَا بُنَيَّ مَا السُّؤْدُدُ؟ قَالَ: إِصْطِنَاعُ الْعَشِيرَةِ وَاحْتِمَالُ
اَلْجَرِيرَةِ؛ [فَقَالَ:] فَمَا الْغِنَى؟ قَالَ عَلَيْهِ السَّلامُ: قِلَّةُ
أَمَانِيِّكَ وَالرِّضَا بِمَا يَكْفِيكَ؛ [قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:] فَمَا
اَلْفَقْرُ؟ قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ" أَلْطَمِعُ وَشَدَةَ اَلْقُنُوطِ؛
[قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:] فَمَا اَللُّؤْمُ؟ قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:
إِحْرَازُ اَلْمَرْءِ نَفْسَهُ وَإِسْلاَمُهُ عِرْسَهُ؛ [قَالَ عَلَيْهِ
السَّلاَمُ:] فَمَا اَلْخُرْقُ؟ قَالَ :الْحُسَيْنُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ]: مُعَادَاتُكَ
أَمِيرَكَ وَمَنْ يَقْدِرُ عَلَى ضَرِّكَ وَنَفْعِكَ؛ [30]
اميرالمؤمنين (علیہ السلام) نے اپنے فرزند حسین (علیہ السلام) سے
پوچھا: بیٹا! برتری اور بزرگواری کیا؟ امام حسین (علیہ السلام) نے عرض کیا:
"اہل خاندان اور قرابتداروں سے نیکی کرنا اور ان کے نقصانات کا بوجھ اٹھانا۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: توانگری اور بے نیازی کیا ہے؟
امام حسین (علیہ السلام) نے عرض کیا: خواہشوں کو کم کرنا اور جتنا آپ کے لئے کافی
ہے اسی پر راضي و خوشنود ہونا؛
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے پوچھا: فقر اور اور محتاجی کیا ہے؟
امام حسین (علیہ السلام) نے عرض کیا: لالچ اور نا امیدی۔
فرمایا لُؤم [پستی کمینگی، تنگ ظرفی، گھٹیا پن] کیا ہے؟ امام حسین (علیہ السلام) نے
عرض کیا: انسان کی پستی کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچائے اور اہل و عیال کو
ناہمواریوں اور مشکلات و خطرات میں ڈال دے۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلا) نے فرمایا: حماقت اور بے وقوفی کیا؟ عرض
کیا: حماقت اور بے وقوفی یہ ہے کہ انسان
اپنے سالار اور کمانڈر سے دشمنی کرے اور اپنے سے زیادہ طاقتور انسان سے لڑ پڑے جو
اس کو نفع اور نقصان پہنچانے کی قوت رکھتا ہے"۔
30۔ اپنا گھر ڈھا کر
دوسروں کے لئے گھر بنانا
"قَالَ لَهُ عَلَيْهِ
السَّلاَمُ رَجُلٌ: بَنَيْتُ دَاراً، أُحِبُّ أَنْ تَدْخُلَهَا وَتَدْعُوَ
اللَّهَ؛ فَدَخَلَهَا فَنَظَرَ إِلَيْهَا؛ ثُمَّ قَالَ عَلَيهِ السَّلاَمُ:
أَخَرَبْتَ دَارَكَ وَعَمَرْتَ دَارَ غَيْرِكَ؟ غَرَّك مَنْ فِي الْأَرْضِ
وَمَقَّتَكَ مَنْ فّي السَّمَاءِ؛ [31]
ایک شخص نے امام حسین (علیہ السلام) سے عرض کیا: میں نے ايک گھر بنایا
ہے اور چاہتا ہوں کہ آپ اس میں داخل ہوجایئے اور بارگاہ الٰہی میں [ہمارے لئے] دعا
فرما دیجئے۔ امام حسین (علیہ السلام) گھر میں داخل ہوئے اور ایک نظر ڈالنے کے بعد
فرمایا: تم نے اپنا [آخرت کا] گھر ویراں کردیا اور دوسروں کے لئے گھر تعمیر کیا
ہے، چنانچہ زمین والے تمہیں عزیز رکھتے ہیں [اور تمہيں عزت دیں گے] لیکن آسمان
والے تم سے دشمنی برتیں گے"۔
31۔ ہمارا دوست رسول اللہ
(صلی اللہ علیہ و آلہ) کا دوست اور ہمارا دشمن ۔۔۔
"مَنْ وَالاَنَا
فَلِجَدِّي صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمَ وَالَى، ومَنْ عَادَانَا
فَلِجَدِّي صلَّى اللَّه عَلَيه وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَادَى؛ [32]
جو شخص ہم (اہل بیتؑ) سے
محبت کرے، اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے محبت کی ہے، (ہمارا دوست
آنحضرتؐ کا دوست ہے)؛ اور جو ہم سے دشمنی کرے
اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے دشمنی کی ہے؛ (ہمارا دشمن آنحضرتؐ کا دشمن ہے)"۔
32۔ ہم عرش کے گرد نور کا
سایہ
"عَنْ حَبِيبِ بْنِ
مظَاهِرٍ اَلْأَسَدِيِّ بَيَّض اَللَّهُ وَجْهَهُ أَنَّهُ قَالَ لِلْحُسَيْنِ بْنِ
عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليهِم السَّلامُ: أَيَّ شَيْءٍ كُنْتُمْ قَبْلَ أَنْ
يَخْلُقَ اللّه عَزّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ؟ قَالَ: كُنَّا أَشْبَاحَ
نُورٍ نَدُورُ حَوْلَ عَرْشِ الرَّحمَٰنِ فَنُعَلِّمُ
المَلائِكَةَ التَّسبيحَ وَالتَّهليلَ والتَّحمِيدَ؛ [33]
حبیب بن مظاہر اسدی (اللہ ان کا چہرہ روش رکھے) سے روایت ہے
کہ انھوں نے امام حسین (علیہ السلام) سے پوچھا: قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم
(علیہ السلام) کو خلق فرمائے، آپ کس حالت میں تھے؟
امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: ہم نور کے سائے تھے اور عرش کے
گرد سیر کرتے تھے اور فرشتوں کو تسبیح (سبحان اللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ)
اور تحمید (الحمد للہ) سکھاتے تھے"۔
33۔ میرے نویں فرزند مہدی
(علیہ السلام) آخری امام ہیں
"مِنَّا اثْنَا
عَشَرَ مَهْدِيّاً أَوَّلُهُمْ أَميرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ
عَلَيهِ السَّلامُ وآخِرُهُمُ التَّاسِعُ مِن وُلْدِي وَهُوَ الإمَامُ القَائِمُ
بِالْحَقِّ يُحْيِي اللَّهُ بِهِ الأَرْضَ بَعْدَ مَوتِها ويُظْهِرُ بِهِ دِينَ الحَقِّ
عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ لَهُ غَيْبَةٌ يَرتَدُّ فيها
أَقْوَامٌ وَيَثْبُتُ فِيهَا عَلَى الدِّينِ آخَرُونَ فَيُؤْذَوْنَ وَيُقَالُ
لَهُمْ مَتَى هَذَا اَلْوَعْدُ إِنْ كُنْمَ صَادِقِينَ أَمَا إنَّ الصَّابِرَ فِي
غَيْبَتِهِ عَلَى الاَّذِى والتَّكْذِيبِ بِمَنْزِلَةِ المُجاهِدِ بِالسَّيفِ
بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ؛ [34]
ہمارے خاندان میں سے بارہ مہدی (ہدایت یافتہ امام) ہیں جن میں اول
امیرالمؤمنین علي (علیہ السلام) ہیں اور آخری میرے نویں فرزند ہیں جو حق کے ساتھ
قیام فرمائے گا اور زمین کو عدل و انصاف کے قیام سے زندہ کرے گا جب یہ ظلم و ستم
کی وجہ سے مرچکی ہوگی؛ اور دین کو ـ جو مہجور اور تنہا ہوچکا ہوگا ـ دوسرے ادیان
پر غلبہ دیں گے، حق و حقیقت کو روشن کریں گے، مہدی طویل عرصے تک غائب رہیں گے جس
کے نتیجے میں بعض اقوام اور بعض جماعتیں مرتد ہوجائیں گی اور کفر اختیار کریں گی
اور بعض لوگ دین پر ثابت قدم رہیں گے اور جو ثابت قدم رہيں گے ان کو آزار و اذیت
کا نشانہ بنایا جائے گا اور اذيت دینے والے ان سے پوچھیں گے: اگر تم سچ بولتے ہو
تو یہ بتاؤ کہ تمہارے امام کے ظہور کا وعدہ کب ہے؟ لیکن جان لو کہ جو لوگ غیبت کے
زمانے میں لوگوں کی اذيت اور تکذيب و تردید کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام
لیں گے وہ اجر و ثواب کے حوالے سے اللہ کی راہ میں ان مجاہدوں کی مانند ہیں جو
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قدموں میں تلوار لے کر جہاد کی سعادت حاصل کرچکے
ہیں"۔
34۔ فضل کیا ہے اور نقص کیا ہے؟
"قِيلَ لِلْحُسَيْنِ
بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ مَا اَلْفَضْلُ قَالَ مِلْكُ اَللِّسَانِ
وَبَذْلُ اَلْإِحْسَانِ. قِيلَ فَمَا اَلنَّقْصُ؟ قَالَ اَلتَّكَلُّفُ لِمَا لاَ
يَعْنِيكَ؛ [35]
امام حسین (علیہ السلام) سے پوچھا گیا؟ فضل اور فضیلت کیا ہے؟ فرمایا:
اپنی زبان کو قابو میں رکھنا اور لوگوں پر احسان اور ان کے ساتھ نیکی کرنا۔ عرض ہؤا:
تو پھر نقص کیا ہے؟ فرمایا: کسی بیہودہ اور بلا فائدہ کام کے لئے اپنے آپ کو زحمت
میں ڈالنا"۔
35۔ سخی ترین شخص ...
"إِنَّ أجْوَدَ
النَّاسِ مَنْ أعْطى مَنْ لَا یَرْجُو، ... وَإنَّ أَوْصَلَ النَّاسِ مَنْ وَصَلَ
مَنْ قَطَعَهُ؛ [36]
بتحقیق سب سے زیادہ سخی شخص وہ ہے جو ایسے شخص کو عطا کرے جس سے وہ
عطا کی توقع ہی نہيں رکھتا۔ اور سب سے زيادہ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا شخص
وہ ہے جو قرابتداروں میں سے ان لوگوں کے ساتھ رابطہ بحال کرے جنہوں نے اس سے رابطہ
اور رشتہ توڑ رکھا تھا"۔
36۔ لوگ دنیا کے بندے ہیں
اور دین ان کی زبان پر چسکا ہے!
"إِنَّ اَلنَّاسَ
عَبِيدُ اَلدُّنْيَا وَاَلدِّينُ لَعْقٌ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ يَحُوطُونَهُ مَا
دَرَّتْ مَعَايِشُهُمْ فَإِذَا مُحِّصُوا بِالْبَلاَءِ قَلَّ اَلدَّيَّانُونَ؛ [37]
معاشرے کے لوگ دنیا کے بندے اورغلام ہیں اور دین ان کی زبانوں پر چاٹ
چسکے کی حیثیت رکھتا ہے، اور انھوں نے اپنا وسیلۂ معاش بنیا ہؤا ہے، اور صرف خوشحالی
اور آسائش کے دنوں میں دین کے ساتھی اور ہمراہ ہیں؛ لیکن آزمائش کی گھڑی میں (جب
ان کی جان و مال و منصب اور عہدے کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہو تو) دیندار بہت کم
ہوجاتے ہیں"۔
37۔ جزا و سزا کو مد نظر
رکھو
"اِعْمَلْ عَمَلَ
رَجُلٍ يَعْلَمُ أنَّهُ مَأْخُوذٌ بِالْإِجْرَامِ، مَجْزِيٌّ بِالْإِحْسَانِ؛ [38]
ایسے شخص کی
طرح کام کرو جو جانتا ہے کہ گناہ کی صورت میں اس کی گرفت ہوگی اور مؤاخذہ ہوگا،
اور احسان اور نیک کاموں کے بدلے اس کو نیکی کے ساتھ جزا ملے گی"۔
38. قبر عمل کا صندوق ہے
"عِبادَ اللهِ! لَا
تَشْتَغِلُوا بِالدُّنْيا، فَإِنَّ الْقَبْرَ بَيْتُ الْعَمَلِ فَاعْمَلُوا وَلَا
تَغْفُلُوا؛
وَأنْشَدَ
عَلَيهِ السَّلَامُ قَائِلاً:
يَا مَنْ بِدنْيَاهُ اشْتَغَلَ
وَغَرَّهُ طُولُ الْأَمَلِ
الْمَوْتُ يَأْتِي بَغْتَةً
وَالقَبْرُ صُنْدُوقُ الْعَمَلِ؛ [39]
اے اللہ کے بندو! دنیا اور اس کی چمک دمک میں مشغول ہونے سے بچو
کیونکہ اس میں شک نہيں ہے کہ قبر عمل کا گھر ہے، تو عمل کرو اور غفلت سے بچو؛ اور
پھر منظوم انداز سے
فرمایا: اے وہ جو دنیا میں مصروف ہوچکا ہے * اور لمبی امیدوں نے اسے دھوکہ دیا ہے
* موت اچانک آنے والی ہے * اور قبر عمل کا صندوق ہے"۔
39. وہی کہو جو سننا چاہتے
ہو
"لَاَ تَقُولَنَّ فِي
أَخِيكَ اَلْمُؤْمِنِ إِذَا تَوَارَى عَنْكَ إِلاَّ مِثْلَ مَا تُحِبُّ أَنْ
يَقُولَ فِيكَ إِذَا تَوَارَيْتَ عَنْهُ؛ [40]
اپنے مؤمن بھائی کے بارے میں ـ جب وہ تم سے دور اور اوجھل ہے ـ مت کہو
سوائے ایسی بات کے جو ـ اگر تم اس سے اوجھل ہوجاؤ تو ـ پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے
بارے میں کہہ دے"۔
40. میں اشکوں کا شہید
ہوں
"أنَا
قَتیلُ الْعَبَرَةِ، لَا یَذْكُرُنِى مُؤْمِنٌ إلَّا اِسْتَعْبَرَ؛ [41]
میں گریہ و بکاء اور اشک و آہ کا شہید ہوں، کوئی بھی مؤمن مجھے یاد کرے تو آنسو بہائے بغیر نہیں رہتا"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
حوالہ جات:
[2]۔
ابو الفتح
الإربلي، علی بن عیسیٰ، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمۃ، ج2، ص242؛ الفیض الکاشانی،
محمد بن مرتضی (ملا محسن)، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الأحیاء، ج4، ص228۔
[3]۔
البحرانی
الاصفہانی، عبداللہ بن نور اللہ، عوالم العلوم والمعارف و الاحوال من الآيات
والاخبار والاقوال، ج17، ص234؛ الخوارزمی، موفق بن احمد الحنفی (اخطب خوارزم)،
مَقتَلُ الحُسَین علیہ السّلامُ، (المعروف بہ قتل خوارزمی)، ج1، ص239۔
[4]۔
علامہ مجلسی،
محمد باقر بن محمد تقی، مشکاۃ الأنوار في غرر الأخبار، ج1، ص49؛ وہی مصنف، بحار
الانوار، ج75، ص126۔
[5]۔
تفسير الإمام
العسكري (ع) (جو امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے منسوب ہے)، ص309؛ علامہ مجلسی،
بحار الانوار، ج65، ص156۔
[6]۔
ابن شہر آشوب،
محمد بن على، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام) (مطبوعہ سنہ 1956ع مطبعہ حیدریہ،
نجف)، ج3، ص25؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 44، ص 192۔
[7]۔
شیخ الصدوق،
محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ القمی، ثواب الأعمال وعقاب الاعمال، ص98۔
[8].
ابو الفتح
الإربلي، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمۃ، ج2، صفحه 239؛ القرشی، محمد باقر بن شریف، حیاۃ
الإمام الحسین علیہ السلام، ج1، ص183۔
[9]۔
الکلینی، محمد
بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، ج2، ص373، ح3؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج3، ص397؛ ج75،
ص120۔
[10]۔
شہید اول، محمد
بن مکی بن محمد الشامی العاملی الجزینی، الدرۃ الباہرۃ من الأصداف الطاہرۃ، ص24۔
[11]۔
ابن شعبہ الحرانی،
تحف العقول، ص248۔
[12]۔
ابن شعبہ الحرانی،
تحف العقول، ج1، ص248؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص128۔
[13]۔
ابن شعبہ الحرانی،
تحف العقول، ص248؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص119۔
[14]۔
محدث قمی، عباس
بن محمدرضا قُمی (المعروف بہ شیخ عباس قمی)، نفس المہموم فی مصیبۃ سیدنا الحسین
المظلوم (علیہ السلام)، ص355 و ص445۔
[15].
الدیلمی، حسن بن
محمد، أَعْلامُ الدّین فی صِفاتِ المُؤمنین، ص298؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75،
ص127۔
[16]۔
ابن شعبہ الحرانی،
تحف العقول، ص248؛ علامہ مجلسی، ج75، ص120؛ حسین بن سعید کوفی نے اس حدیث کو امام
جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ (الکوفی الاہوازی، کتاب الزہد، ص5۔
[17]۔
ابو الفتح
الإربلي، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمۃ، ج2، ص205؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75،
ص122۔
[18]۔
ابن شعبہ الحرانی،
تحف العقول، ص 245؛ علامہ مجلسی، بحار
الانوار، ج44، ص192۔
[19]۔
علامہ مجلسی،
بحار الأنوار، ج 71، ص 183؛ الفیض الکاشانی، محمد بن مرتضی (ملا محسن)، معادن
الحكمۃ فی مکاتیب الائمۃ (علیہم السلام)، ج2، ص45۔
[20].
العلوی الشجری،
محمد بن علی بن الحسن، فضل زیارۃ الحسین (علیہ السلام)، ص40؛ الطریحی النجفی،
فخرالدین بن محمد علی ، المنتخب فی جمع المَرَاثِی والخُطَب، ص69.
[21]۔
الحُلوانی، حسین
بن نصر، نزہۃ الناظر وتنبيہ الخاطر، ص80۔
[22].
الحلوانی، نزہۃ
الناظر وتنبیہ الخاطر، ص84، ح13۔
[23]۔
الدیلمی، أعلام
الدين فی صفات المؤمنین، ص298؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص128۔
[24] ۔ الدیلمی، أعلام الدين فی صفات المؤمنین، ص428۔
[25]۔
شوشتری، سید نور
اللہ بن سید شریف الدین حسینی مرعشی، (المعروف بہ قاضی نوراللہ یا شہید ثالث)، اِحْقاقُ الحَقّ واِزْہاقُ
الباطِل، ج11، ص601؛ السيد محسن العاملی، محسن بن عبد الکريم بن علی بن محمد الأمین،
أعیان الشیعہ، ج1، ص581۔
[26]۔
سید ابن طاؤس،
علی بن جعفر بن طاؤس حلی، اللہوف على قتلى الطفوف، ص119؛ الخوارزمی، مقتل الحسین
(علیہ السلام)، ج2، ص33؛ أَبُو اَلْفَرَجِ اصفہانی، علی بن الحسین بن محمد المروانی
الاموی القرشی، مقاتل الطالبیین، ص118۔
ابن کثیر، اسماعیل بن عمر القرشی، البدایۃ والنہایۃ، ج8، ص203؛ دہدشتی
بہبہانی، محمد باقر بن عبدالکریم، اَلدَّمْعَۃُ السّاکِبَۃُ فی أحْوالِ النَّبی
والعِتْرَۃ الطّاہرۃ فی أحْوالِ النَّبیِّ والعِتْرَۃِ الطّاہرۃِ، ج4، ص343؛ علامہ
مجلسی، بحار الأنوار، ج51، ص45؛ البحرانی الاصفہانی، عبد اللہ بن نوراللہ، عوالم
العلوم والمعارف یا جامع العلوم والمعارف والاحوال من الایات والاخبار والاقوال،
ج17، ص51؛ السيد محسن العاملی، أعیان الشیعہ، ج1، ص609۔
[27]۔
الحلوانی، نزہۃ
الناظر وتنبیہ الخاطر، ص85۔
[28]۔
سورہ ابراہیم، آیت 36۔
[29]۔
الحلوانی، نزہۃ
الناظر وتنبیہ الخاطر، ص40۔
[30]۔
شیخ الصدوق،
محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ القمی، معانی الاخبار، ص401؛ علامہ مجلسی،
بحار الانوار، ج75، ص102۔
[31]۔
النخعی الاشتری،
مسعود بن عیسی (معروف بہ شیخ وَرّام بن ابی فِراس) المالکی الحلی، تنبیہ الخواطر
ونزهة النواظر (المعروف بہ مجموعۂ ورام)، ج1، ص71؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد
تقی، مستدرک الوسائل و مُستَنبَطُ المَسائل، ج3، ص467؛ الشریفی، محمود، موسوعۃ
کلمات الامام الحسین (علیہ السلام)، ص755۔
[32]۔
شوشتری،
اِحْقاقُ الحَقّ واِزْہاقُ الباطِل، ج11، ص592؛ القندوزی الحنفی، سليمان بن ابراہیم،
ینابیع المودہ، ج2، ص374؛ آل الاعتماد، السید مصطفی المحسن الموسوی، بلاغۃ الحسین
(علیہ السلام)، ص65۔
[33]۔
شیخ الصدوق،
محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ القمی، علل الشرائع، ج1، ص23؛ علامہ مجلسی،
بحار الانوار، ج75، ص311۔
[34]۔
كمال الدين، ج1،
ص317؛ (بحار الانوار، ج 51، ص 133۔
[35]۔
النوری الطبرسی،
مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج9، ص24۔
[36].
ابوالفتح الاربلی،
کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ، ج2، ص239؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص121۔
[37]۔
ابن شعبہ الحرانی،
تحف العقول، ج1، ص245؛ الفیض الکاشانی، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الأحیاء، ج4،
ص228؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ج75، ص116۔
[38]۔
علامہ مجلسی،
بحار الأنوار، ج2، ص130، و ج 75، ص 127؛
الفیض الکاشانی، المحجۃ البیضاء في تہذیب الأحیاء، ج3، ص134۔
[39]۔
ابو الفَرَج
الجوزی، جمال الدین عبد الرحمن بن علي بن محمد القرشی البغدادی، بستان الواعظین وریاض
السامعین، ص194؛ شوشتری، اِحْقاقُ الحَقّ واِزْہاقُ الباطِل، ج11، ص628۔
[40].
الكراجكي
الطرابلسي، ابو الفتح الشيخ محمد بن علي
بن عثمان، كنز الفوائد، ص195؛ الدیلمی، اعلام الدین فی صفات المؤمنین، ص145؛ علامہ
مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص127.
[41].
شیخ الصدوق،
محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ القمی، الأمالى، ص118؛، بحارالأنوار: ج 44،
ص 284.
