اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ
سوال:
امیرالمؤمنین
(علیہ السلام) کے کلام "فتنوں میں اونٹ کے دو سالہ بچے کی طرح رہو جس پر نہ
تو سواری کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس سے دودھ دوہا جا سکتا ہے" یک مطلب کیا
ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی سماجی اور سیاسی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار
کی جائے اور اصطلاحا "غیر جانبداری" اختیار کی جائے؟
اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا | بے شک حق اور باطل کے درمیان جنگ میں غیر جانبداری ایک مہمل تصور
ہے چنانچہ ابن ابی الحدید نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور رہبر معظم مرجع
تقلید آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ (مدظلہ العالی) نے فرمایا ہے کہ " فتنوں
کے دوران ذمہ داریوں کو ترک کرنا فتنے کو مدد پہنچانے کی ایک شکل ہے"؛ چنانچہ
غیر جانبداری اور اونٹ کے دو سالہ بچے کی طرح رہنا باطل کے دو محاذوں کے درمیان
چپقلش کے دوران ہی ممکن، نیز ضروری، ہے۔
فتنہ کی تعریف
رہبر معظم کے زبانی
"فتنہ یعنی ایسا
غبارآلود اور دھندلا واقعہ کہ جس میں انسان یہ نہ سمجھ سکے کہ دوست کون ہے اور
دشمن کون ہے اور کون بدنیتی کے ساتھ میدان میں آیا ہے اور اسے کہاں سے اکسایا جا
رہا ہے۔ فتنوں [کی آگ] کو حقائق واضح و آشکار کرکے بجھانا چاہئے۔ جہاں بھی حقائق
واضح ہونگے وہاں فتنہ انگیز عناصر اپنے عزائم تک پہنچنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ جہاں
بھی بے بے مقصد بات ہو، اندھادھند سرگرمیاں ہوں، اندھاھند گولیاں چلتی ہوں، بلا
مقصد بہتان تراشی ہو رہی ہو، فتنہ انگیز عنصر خوش ہوجاتا ہے، کیونکہ ماحول پرہجوم [اور
بے چین] ہوجاتا ہے۔۔۔"۔ [1]
سوال کا جواب
مولا امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) نے فرمایا:
"كُنَّ
فِي اَلْفِتَنِهِ كَابْنِ اَللَّبُونِ لاَ ظَهْرٌ فَيُرْكَبَ وَلاَ ضَرْعٌ
فَيُحْلَبَ؛ [2]
فتنے میں اونٹ
کے دوسالہ بچے کی طرح رہو کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ اس
کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے"۔
اس کلام کا لفظی
ترجمہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ "فتنوں میں اونٹ کے اس دو سالہ بچے کی طرح رہنا
جس کی نہ پیٹھ ہے جس پر سواری کی جائے اور نہ ہی تھنے ہیں جن سے دودھ دوہا جا
سکے"۔
کچھ لوگوں نے اس
کلام سے یہ مطلب لیا ہے کہ فتنوں میں خاموش رہنا تا کہ کوئی تم سے ناجائز فائدہ نہ
اٹھا لے۔ [3]
امر مسلّم ہے کہ امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ
فتنوں میں ضرور اس انداز سے رہنا کہ کوئی آپ سے غلط فائدہ نہ اٹھائے؛ لیکن اس
انداز سے رہنے کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان ضرورتا خاموش رہے۔ امیر الکلام و
امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے اس کلام کا مفہوم یہ نہيں ہے کہ غیر جانبدار یا
خاموش رہو، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہوشیار رہو اور ایسا موقف نہ اپناؤ جس سے کوئی غلط
فائدہ اٹھا لے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت امیر (علی السلام) نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ ہر فتنے
میں اور ہر حال میں، خاموش اور غیر جانبدار رہو۔ چنانچہ ابن الحدید، نہج البلاغہ
کی شرح میں لکھتے ہیں:
"حضرت امیرؑ کے
اس کلام کا مصداق وہ فتنہ ہے جو باطل کی دو جماعتوں کے درمیان ہو بپا ہو گیا ہو، لیکن
حق و باطل کر درمیان ہو ـ جیسے جنگ جمل اور جنگ صفین ـ تو حق کا ساتھ دینا واجب ہے
اور انسان پر اس راہ میں اٹھنا لازم ہے"۔ [4]
نیز نہج البلاغہ
کی دوسری شرح میں اس کلام کے ذیل میں مکتوب ہے:
"مولاؑ کے کلام حق و باطل کی دو جماعتوں کے درمیان
فتنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہر فتنے کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ وہ فتنہ جو "خلقِ
قرآن" کے عنوان سے مامون عباسی کے دور میں اٹھا تھا۔ حضرت
امیرؑ کے کلام کا مطلب فتنوں کے دوران ایک طرف بیٹھنا، خاموش رہنا اور انجانا بننا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ فتنے کے سرغنوں کے ساتھ تعاون نہ
کیا جائے، چنانچہ آنحضرتؑ نے خاموشی اور گوشہ نشینی کا فرمان نہیں دیا
ہے بلکہ ایسے واقعات میں حق سے تمسک کرکے اٹھنا چاہئے"۔ [5]
امیرالمؤمنین
(علیہ السلام) کے اس کلام نیز بعض شروح کے بیان کی رو سے، کہا جا سکتا ہے کہ انسان
کو فتنوں میں فتنہ انگیز قوتوں کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہئے، اور کبھی تعاون نہ
کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بعض جھگڑوں اور تنازعات میں مداخلت نہ کی جائے اور کبھی
روش یہ ہے کہ فتنہ گروں کے خلاف قیام کیا جائے، جدوجہد کی جائے اور تنقید اور
احتجاج کا راستہ اپنایا جائے اور مواقع کی شناخت کے لئے حالات کو دیکھا جائے اور
دیکھا جائے کہ کب اٹھنا چاہئے اور کب خاموش رہنا چاہئے؛ اور اسلام اور مسلمانوں کی
مصلحت قیام میں ہے یا خاموشی میں۔
دوسرے لفظوں
میں، اگر ایک شخص حق کو پہچان لے اور سیاست میں زیرکی اور کیاست کے ساتھ مداخلت کی
صلاحیت رکھتا ہو، تو یہ اس کا فرض بناتا ہے کہ میدان میں آئے اور حق کا دفاع کرے،
لیکن اگر وہ حق و باطل کے درمیان حق و باطل کے
درمیان درست تمیز نہ کر سکے اور حق و باطل کو فریقین کے حوالے سے اپنے ذہن میں
مجسم نہ کر سکے اور حق و باطل کے لئے صحیح مصداق نہ پا سکے اور ممکن ہو کہ اہل
باطل اس سے غلط فائدہ اٹھائیں تو اس وقت گوشہ نشینی اختیار کرے جب تک کہ وہ حق اور
باطل کو پہچان نہیں لیتا۔
چنانچہ
امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے کلام کا مطلب، حق و باطل کی جنگ
میں، بے اعتنائی اور غیر جانبداری نہیں ہے۔
حدیث کا منظوم ترجمہ:
در فتنه چنان
باش که بارت ننهند
و ز دست و زبانت
استعانت نبرند
زین آتش تند در
حذر باش و بهوش
تا مدّعیان رند
جانت نخرند
*****
فتنے میں اس طرح
سے رہنا کہ کہ کچھ لاد نہ لیں تجھ پر
تیرے ہاتھ اور
تیری زبان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا لیں
اس بھڑکتی آگے
سے ہوشیا رہنا اور بیدار
تاکہ چالاک مدعی
تیری جان کو خرید نہ لیں کہیں
*****
فتنوں کے دوران کنارہ کشی اختیار کرنا فتنے کی تقویت ہے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (اَدامَ اللہَُ ظِلَّہُ) مذکورہ حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
"یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کچھ لوگ فتنوں کے موقع پر کلام امیرؑ؛ "كُنَّ فِي اَلْفِتَنِهِ كَابْنِ
اَللَّبُونِ لاَ ظَهْرٌ فَيُرْكَبَ وَلاَ ضَرْعٌ فَيُحْلَبَ" کے حوالے سے بدفہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ اس کے معنی یہ
ہیں کہ جب بھی فتنہ بپا ہوجائے اور حالات مشتبہ ہو جائیں، کنارہ کش ہوجاؤ! حالانکہ
اس جملے میں عبارت "کنارہ کش ہوجاؤ" ہے ہی نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ
[اس طرح سے رہو کہ] فتنہ گر کسی صورت میں بھی تجھ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا لے؛ کسی بھی راستے سے۔ "لاَ ظَهْرٌ
فَيُرْكَبَ وَلاَ ضَرْعٌ فَيُحْلَبَ" نہ پیٹھ ہو کہ سواری لے، اور نہ ہی تھن
ہوں کہ جن سے دودھ دوہا جا سکے)، خیال رہے۔
[قاسطین کے ساتھ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی] جنگ صفین میں ہمارے
پاس ایک طرف سے حضرت عمار یاسر (علیہ السلام) ہیں، اور جناب عمار مسلسل تقریروں
میں مصروف ہیں اس طرف کے لشکر میں؛ مخالف لشکر کی طرف سے مختلف ٹولے ہیں، کیونکہ فتنہ
حقیقتا وہی تھا۔ مسلمانوں کی دو جماعتیں ایک دوسرے کے مد مابل آ کھڑے ہوئے؛ ایک
عظیم فتنہ تھا؛ کچھ لوگ شک و تذبذب کا شکار تھے۔ عمار مسلسل حقائق کو عیاں و بیان
کر رہے تھے؛ اس طرح جا کر کچھ گروہوں کے لئے تقریر کرتے تھے ـ اور یہ سب تاریخ میں
ثبت ہے ـ اس طرف سے کچھ
لوگ جو عبداللہ بن مسعود کے ساتھیوں میں سے ہیں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خدمت
میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں: "يَا
أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ" یعنی
انہیں یقین تھا کہ آپؑ امیرالمؤمنین [اور ایمان والوں کے امیر]
ہیں، [اس کے باوجود کہتے ہیں:] "إِنَّا قَدْ شَكَكْنَا فِي هَذَا اَلْقِتَالِ عَلَى مَعْرِفَتِنَا
بِفَضْلِكَ" (اس کے باوجود کہ ہم آپ کی
فضیلت اور برتری کو جانتے ہیں لیکن ہم نے اس جنگ میں شک کیا)۔ [6] آپ
ہمیں سرحدوں پر تعینات کریں تاکہ اس جنگ میں شرکت نہ کریں! یہ کنارہ کشی، وہی ضرع
(اور تھن) ہے جسے دوہا جاتا ہے جنہیں دوہا جاتا ہے، وہی ظَہر (پیٹھ) ہے جن پر سواری کی جاتی ہے! کبھی
خاموش رہنا، کنارہ کشی اختیار کرنا، کچھ نہ کہنا، خود، فتنے کی مدد کرنا ہے۔
[چنانچہ] فتنے ميں ہم سب پر حقائق کو واضح و
آشکار کرنا لازمی ہے؛ سب کو بابصیرت ہونا چاہئے۔
امید ہے کہ ان شاء اللہ، خدائے متعال ہم اور آپ
سب کو اپنے قول اور اپنی نیت پر عمل کرنے توفیق عطا فرمائے، اور کامیاب کرے"۔
[7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ:
فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
حوالہ جات:
[1]۔ رہبر انقلاب کا خطاب بتاریخ 30 جولائی 1999ع۔
[2]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 1۔
[3]. آمدی تمیمی، عبد
الواحد بن محمد، غَرَرُ الحِکَم وَدُرَرُ الکَلِم، شرح: آقا جمال خوانسارى، ج4،
ص607، دفتر تبلیغات قم، 1366ھ ش۔
[4]۔ ابن ابی الحدید،
عبدالحمید بن ہبۃ اللہ الشافعی المعتزلی، شرح نہج البلاغۃ، ج18، ص82، ناشر: کتب
خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، قم، 1404ھ ق.
[5]۔ خوئی میرزا حبیب
اللہ ہاشم، میر حبیب اللہ بن سید محمد المعروف بہ "امین الرعایا"، منہاج
البراعہ، فی شرح نہج البلاغہ، مطبوعہ مکتبۃ الاسلامیہ، تہران، 1400ھ ق، ج21، ص8۔
[6]۔ "أَتَاهُ
آخَرُونَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ مِنْهُمْ الربيعُ بْنُ
خُثَيْمٍ وهم يَوْمَئِذٍ أَرْبَعُمِائَةِ رَجُلٍ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ
اَلْمُؤْمِنِينَ إِنَّا قَدْ شَككْنَا فِي هَذَا الْقِتَالِ عَلَى مَعرِفَتِنا
بِفَضلِكَ وَلَا غِنَاءَ بِنَا وَلَا بِكَ وَلَا بِالمُسلِمينَ عَمَّن يُقاتِلُ
العَدُوَّ فَولِّنَا بَعْضَ هَذِهِ اَلثُّغُورِ نَكْمُنُ ثُمَّ نُقَاتِلُ عَن
أَهْلِهِ فَوَجَّهَ عَلِيٌ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِالرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ عَلَى
ثَغْرِ اَلرَّيِّ فَكَانَ أَوَّلُ لِوَاءٍ عَقَدَهُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
بِالْكُوفَةِ لِوَاء الربيع بن خثيم؛ اور کچھ دوسرے لوگ بھی آپؐ کے پاس آئے جو
عبداللہ بن مسعود کے ساتھیوں میں سے تھے؛ جن میں ربیع بن خثیم بھی شامل تھا، اور
اس دن وہ 400 آدمی تھے، اور انہوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہمیں آپ کے فضل اور
برتری کو جانتے ہیں لیکن اس جنگ کے بارے میں شک میں مبتلا ہوئے ہیں؛ اورپھر ہم، آپ
اور دوسرے مسلمین کسی ایسے شخص کے بغیر نہیں چل سکتے جو دشمن سے لڑے، اس لئے ہمیں
ان میں سے کچھ سرحدوں کی ذمہ داری سونپیں، تاکہ ہم گھات لگا کر لڑ سکیں" (المنقری،
نصر بن مزاحم، وقعۃ الصفین، ص115؛ ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ الشافعی،
شرح نہج البلاغہ، ج3، ص186؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، ج32، ص406۔)
[7]۔ رہبر انقلاب
اسلامی کا خطاب، بتاریخ: 24 ستمبر 2009ع

