9 دسمبر 2024 - 10:58
ہم اپنے کئے پر نادم نہیں ہیں / بشار حکومت پر منصفانہ تنقید

ہم مدافعین حرم ہیں، ہم بشار الاسد اور شام کے لئے شام نہيں گئے، ہمارے وہاں اپنی موجودگی سے کئی اعلی اہداف و مقاصد تھے، اور ہم ان اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوگئے۔

‌اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |

بشار الاسد کی حکمرانی میں کمزوریاں ضرور تھیں مگر کسی بھی عرب اور غیر عرب ملک کی حکمرانیوں میں کمزوریاں اس سے بھی بڑھ کر تھیں اور ہیں۔ عرب حکومتوں کی نسبت تو اسد حکومت سے زمین و آسمان کی نسبت ہے۔

ناانصافی ہوگی اگر مقاومت کے لئے بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کی خدمات کو نظر انداز کیا جائے گوکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ شام کو سعودی سرپرستی میں عرب لیگ سے نکالا گیا تھا اور سعودیوں نے ہی اسے واپس بلایا میں شمولیت اور کچھ عرب ریاستوں کے سفارتخانے دمشق میں کھل گئے تو بشار اسد نے پینترے بدل دیئے، بداخلاقیاں کیں، احسان فراموشیاں کیں، اسرائیلی دشمن کے موافق کئے بڑے چھوٹے کام سر انجام دیئے، اور صہیونی یہودیوں اور صہیونی عربوں پر اعتماد کیا، مگر ان کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔

چنانچہ ایران اور مقاومت 2011 کے مغربی ـ صہیونی ـ عربی فتنے کے مقابلے میں بشار الاسد کی مدد کرنے پر نادم نہیں ہیں۔ ان کے والد حافظ الاسد نے آٹھ سالہ جنگ میں ایران کی مدد کی اور مقاومت کے معرکے کا بھرپور ساتھ دیا اور بشار الاسد نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور لبنان اور فلسطین میں مقاومت کی ہر طرح کی مدد کی۔

سنہ 2000ع‍ میں حافظ الاسد دل کی حرکت بند ہونے سے دنیا سے رخصت ہوئے اور تو 35 سالہ ڈاکٹر بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا اور والد کے مشن پر کاربند ہوئے۔ انھوں نے ملک کے اندر بھی وسیع اصلاحات کا اہتمام کیا اور سفارتکاری میں بھی کافی بہتر کارکردگی دکھائی اور والد کے زمان کے بند ماحول کو کافی حد تک کھول دیا، اور صہیونی ریاست کے مقابلے میں ہر لحاظ سے مزاحمت کی جس کی وجہ سے یہود پرست اور مغرب پرست عرب ممالک ـ جو امریکہ اور صہیونیوں کے ہاتھوں عربوں کے قتل عام پر کبھی بھی غضبناک نہیں ہوا کرتے ـ کے حکمرانوں کا غصہ ابل پڑ اور شام کو عرب لیگ سے نکال باہر کیا۔

بشار الاسد کی حکمرانی میں کمزوریاں ضرور تھیں مگر کسی بھی عرب اور غیر عرب ملک کی حکمرانیوں میں کمزوریاں اس سے بھی بڑھ کر تھیں اور ہیں۔ عرب حکومتوں کی نسبت تو اسد حکومت سے زمین و آسمان کی نسبت ہے۔ شام کی حکمرانی میں نقائص اتنے نہیں تھے کہ جو جمہوریت دشمن امریکہ، انسان دشمن یہودی ریاست اور جمہوریت اور آزادی کے دشمن عرب حکمرانوں نیز نسل پرست اور یہود پرست اردوگان، کے لئے اس ملک کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کریں اور مطلق العنان خاندانی حکومتیں شام کے لئے جمہوریت کا نسخہ تجویز کر دیں! اور پھر اسی بہانے سے دنیا بھر کے دہشت گردوں کو اکٹھا کرکے، تربیت دیں اور مختلف ہتھیاروں سے لیس کرکے اس ملک کے اندر بھیج دیں اور اس ملک کی قانونی اور جائز حکومت کا تختہ پلٹ دیں۔ دنیا کا کوئی قانون، یا کنونشن اور معاہدہ اردوگان جیسوں کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ باقاعدہ طور پر انٹرویو دے اور کہہ دے کہ "ہم نے بشار الاسد سے اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ ہم مل کر شام کے مستقبل کا تعین کریں"،  اور اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ان کا یہ کہنا تھا کہ "چونکہ الاسد نے ہماری اپیل کا جواب نہیں دیا چنانچہ میں نے ترک فوجوں کو ہتھیاروں سے لیس کیا ہے اور انہیں شام کے اندر روانہ کر رہا ہوں تا کہ شام کے ہر شہر اور ہر صوبے پر قبضہ کریں"۔

بہر صورت بشار الاسد نے سوا صدی تک اسرائیل کا ڈٹ کا مقابلہ کیا اور مقاومت کو ہتھیار پہنچانے کا راستہ کھلا رکھا، چنانچہ ان کی یہ خدمات ناقابل فراموش ہیں، گوکہ انہیں عبرانی ـ عربی محاذ نے فریب دیا، اور وہ ان کے وعدوں کے دھوکے میں آگئے، اور ساتھ چھوڑ گئے شام کا بھی اور محاذ مقاومت کا بھی، کیونکہ جن عربوں نے انہیں شام کی معیشت کو سنبھالا دینے کا وعدہ کیا تھا انھوں نے صرف شام کے اندر بشار الاسد کے مخالفین تک اپنے رابطے محدود کئے، انھوں نے شر کے ان کے وسوسوں کی وجہ سے گذشتہ 5 مہینوں کے دوران رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای اور شہید سیدالمقاومہ سید حسن نصر اللہ کی نصیحتوں کو لائق توجہ نہیں سمجھا چنانچہ ان ہی ممالک ان کی بقاء کا تحفظ کرنے کے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے بجائے، دہشت گرد مارچ کی سہولت کاری کا کام سرانجام دیا۔ بہرصورت اگر وہ مزید استقامت دکھاتے اور عزیزتر بھی ہوجاتے اور فیڈل کاسترو اور چگوارا یا  شاید حتی شہید یحیی سنوار کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے۔

سوال یہ ہے کہ اعلی ایرانی جرنیل اور افسران، زینبیون، فاطمیون، حیدریون، حسینیون وغیرہ وغیرہ کے مجاہدین، جنہوں نے دفاع حرم کے دوران اپنی جانیں قربان کر دیں، تو ان کا کیا ہوگا"

ایک مدافع حرم اگر اس سوال کا جواب دینا چاہے تو وہ کچھ یوں ہوگا: ہم مدافعین حرم ہیں، ہم بشار الاسد اور شام کے لئے شام نہيں گئے، ہمارے وہاں اپنی موجودگی سے کئی اعلی اہداف و مقاصد تھے، اور ہم ان اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوگئے۔

ہم نے کسی بھی یزیدی سفیانی دشمن کو حرم زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کو نقصان نہيں پہنچانے دیا۔

ہم حزب اللہ، شام اور فلسطین کے حلیف تھے اور ہم نے صہیونی دشمن کو عالم اسلام پر ہلہ بولنے کی اجازت نہیں دی اور انہیں محدود سرزمینوں تک محدود کرکے رکھا اور ہم نے ہی مقاومت کے وسیع تر محاذ کے ساتھ مل کر غاصب یہودی دشمن کو بہت ساری اسلامی سرزمینوں سے خوار و ذلیل کرکے نکال باہر کیا۔

ہم نے مقاومت کو پہلے سے زیادہ جلا دی اور مستقبل کے عظیم معرکوں کے لئے تیار کیا۔

ہم نے صہیونی فوج کو ایران اور عراق کی سرحدوں کے قریب نہیں آنے دیا؛ اور انہیں اپنی اراضی سے بہت دور رکھا جیسا کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ہدایت بھی ہے۔ ہم اس عرصے میں یہودی دشمن کے ساتھ دوبدو لڑائی کا عظیم تجربہ حاصل کیا جبکہ اس سے قبل جن عرب ممالک نے ان کا سامنا کیا تھا انہیں بری طرح شکست ہوئی تھی۔

علاوہ ازیں امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کا یہ عظیم کلام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقاومت کے سپاہیوں اور حضرت مہدی (علیہ السلام) کے تمام جانبازوں کا منشور اور اساس نامہ ہے کہ:

"ہم جنگ میں ایک لمحے کے لئے نادم و پیشیمان نہیں ہیں۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہم اپنے دینی اور اسلامی فرض نبھانے کے لئے لڑے ہیں اور یہ کہ [جنگ کا] نتیجہ [جو بھی ہو] فرعی اور [جزوی] حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری قوم نے آج تک محسوس کیا کہ اس کا فریضہ جنگ ہے، اور اس فریضے پر عمل بھی کیا؛ اور خوش بحال ہے ان کے جو آخری لمحے تک تزلزل اور تذبذب سے دوچار نہیں ہوئے، اور جب بقائے انقلاب کی مصلحت اس میں دیکھ لی کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کو قبول کیا جائے، تو قبول کرکے پھر بھی اس نے اپنا فرض نبھایا۔۔۔ اگر اہداف تک پہنچنے میں تاخیر ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے اصولوں سے پلٹ جائیں۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے فرائض نبھا دیں، [اپنی محنت کرتے ہیں لیکن] نتائج کا حصول اس دینی فرض میں شامل نہیں ہے۔ اگر تمام انبیاء اور معصومین (علیہم السلام) پر مطلوبہ نتائج کا حصول واجب ہوتا تو ان پر لاز ہوتا کہ اپنی دستیاب صلاحیتوں سے بڑھ کر بات نہ کریں اور اپنی توانائیوں سے بڑھ محنت نہ کریں اور ایسے اہداف اور طویل مدتی منصوبوں کا تذکرہ کریں جو ان کی ظاہری حیات میں تکمیل کو نہیں پہنچے"۔

جی ہاں! ہم دفاع حرم، دفاع فلسطین، مقاومت کے دفاع اور دنیا کے مظلوموں کے دفاع کے ان برسوں میں گذرے ہوئے ہر لمحے پر فخر و مباہات کرتے ہیں اور پھر بھی فخر و مباہات کے قابلے نئے کارنامے رقم کر نے کے لئے ہر دم تیار ہیں۔ مقاومت بشار الاسد کے بغیر بھی جاری رہے گی اور جو لوگ شام سے ناہنجار چیخیں مار مار کر صہیونیت کی رضامندی کے لئے مقاومت کی خبر دے رہے ہیں وہ بھی فنا ہونگے لیکن جب تک کہ ظلم و جور اور جارحیت کا موجودہ سلسلہ جاری رہے گا مقاومت فنا نہیں ہوگی، جاری رہے گی اور اگر یہ لوگ بھی صہیونی ـ مغربی ظلم کا حصہ بنیں گے تو مقاومت کے سامنے بھسم ہوکر راکھ ہو جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: تقی دژاکام

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110