15 اکتوبر 2024 - 07:46
جعلی ریاست کے اخراجات کون برداشت کرتا ہے؟ + تصاویر

اسرائیلی اقتصادی کونسل کے سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ "اسرائیل، ایک خودمختار یہودی ریاست کے طور پر، ختم ہو چکی ہے"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، مغربی ایشیا میں نکبہ کے بعد معرض وجود میں لائی جانے والی جعلی "اسرائیلی" ریاست کی اس 75 سال منحوس تاریخ میں، امریکہ نے اس کو 310 ارب ڈالر کی اعلانیہ اور کھربوں ڈالر کی غیر اعلانیہ امداد فراہم کی ہے اس لئے کہ اس کو بہرقیمت قائم رکھا جائے۔ معرکہ طوفان الاقصی میں فلسطینیوں نے اس ریاست کے حوالے سے مغربیوں کے خواب چکنا چور کر دیئے تو سینکڑوں ارب کی مالی اور عسکری امداد مغربی ممالک ـ اور امکانی طور پر عرب ممالک کی طرف ـ سے صہیونیوں کو فراہم کی گئی اسے بچانے کے لئے، مگر اس کے باوجود اب اسرائیلی اقتصادی کونسل کے سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ "اسرائیل، ایک خودمختار یہودی ریاست کے طور پر، ختم ہو چکی ہے"۔

امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (United States Agency for International Development [USAID]) نے رپورٹ دی ہے کہ "امریکہ نے اب تک [اس ایجنسی کے توسط سے] تل ابیب ریاست کو 320 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔

امریکی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر یہ رقم امریکہ میں خط غربت (Poverty threshold) کے نیچے رہنے پر مجبور تین کروڑ شہریوں میں تقسیم ہوتی تو ہر ایک شہری کو 10 ہزار ڈالر مل سکتے تھے۔

سی بی ایس کے سروے کے مطابق، امریکہ کے دو تہائی عوام اسرائیل کو امداد دینے کے خلاف ہیں لیکن اس کے باوجود گذشتہ ایک سال میں نیتن یاہو کو ملنے والی سب سے بڑی عسکری اور مالی امداد واشنگٹن سے ملی ہے۔

امریکہ کے مفکرین، سیاستدان اور اس کے ہر دور کے حکام کا نعرہ یہ ہے کہ "امریکہ جمہوریت کا گہوارہ ہے" اور ان کا نعرہ ہے کہ "امریکہ میں عوام کی رائے پہلی ترجیحات کا تعین کرتی ہے!"؛ لیکن جو کچھ عالمی اور امریکی رائے عامہ کو نظر آ رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ امریکی ترجیحات کا تعین صہیونیت نواز حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے، البتہ امریکی حکمرانوں نے روس کے خلاف یوکرین کی امداد کے حوالے سے بھی عوامی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔

تقریبا آٹھ عشروں سے جعلی ریاست کے ملنے والی امریکیوں کی بھاری مالی امداد کے باوجود، اسرائیل کی قومی اقتصادی کونسل کے سابق سربراہ یوجین کینڈل (Eugene Kandel) نے گذشتہ مہینے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ "اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ اسرائیل اگلی دہائی میں ایک آزاد یہودی ریاست کے طور پر موجود نہ رہ سکے"۔

مذکورہ 310 ارب ڈالر کی اعلانیہ امداد میں سے 230 ارب ڈالر صہیونیوں کی فوج اور جارحانہ اور غاصبانہ پالیسیوں پر خرچ ہوئے ہیں اور باقی 80 ارب ڈالر دوسرے اخراجات کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

امریکہ کی سرکاری پالیسی سازی طاقت کی مختلف لابیوں ـ بالخصوص نیشنل رائفل ایسوسی ایشن (National Rifle Association) کی لابی اور ایوان تجارت کی لابی کے زیر اثر ہے لیکن اس ملک میں ایک بہت طاقتور لابی صہیونی یہودیوں کی ہے جس کا نام اے آئی پی اے سی (American Israel Public Affairs Committee [AIPAC]) ہے۔ یہ لابی اتنی طاقتور ہے کہ اگر کسی کو صدر بننے، یا کانگریس کا رکن بننے کا شوق ہے تو اس کو سب سے پہلے اس لابی کی حمایت حاصل کرنا پڑتی ہے۔

سابق فوجی افسر اور سابق اٹارنی، جونیئر سینیٹر ٹام کاٹن (Thomas Cotton) امریکہ میں AIPAC کی غیر سرکاری سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس لابی کی سرگرمیاں اسرائیل کی تقویت اور "مشرق وسطی میں امریکہ کے مثبت اثرات اور مثبت پالیسیوں!!" کو آگے بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

لیکن شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر اور ماہر سیاسیات جان میئر شیمر (John Joseph Mearsheimer) اپنی کتاب "اسرائیل لابی اور امریکی خارجہ پالیسی" (The Israel Lobby and U.S. Foreign Policy) میں لکھتے ہیں  کہ امریکی انتظام کو ایک دوسری ریاست سے متعلقہ لابی کے ذریعے چلانا، واشنگٹن کے لئے کوئی تزویراتی فائدہ نہیں رکھتا بلکہ یہ عمل امریکی پوزیشن کو کمزور کرتا ہے۔

سن لائٹ فاؤنڈیشن نامی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ امریکہ میں لابیوں کی جولانیاں اس ملک میں شفافیت اور حکمرانی کی ہلاکت کا سبب ہیں اور مالی شفافیت اور جنرل ٹیکس سسٹم کا نفاذ ان لابیوں کو قابو میں لانے کا ذریعہ ہوگا۔

۔۔۔۔۔

بقلم: محمد علی عنایتی نجف آبادی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔

110