22 ستمبر 2024 - 09:32
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ پوری دنیا والوں کے لئے رحمت کیوں ہیں؟

مورخہ 17 ربیع الاول یوم میلاد ہے ایسی ہستی کا جن کو خدائے متعال نے رحمت قرار دیا نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری تاریخ میں رحمت قرار دیا ہے پوری کائنات کے لئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ |

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) 17 ربیع الاول سال عام الفیل، کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے؛ جن کی ولادت اسی لمحے سے ہی آپؐ کے اہل خانہ، افراد قبیلہ اور اہلیان حجاز کے لئے خیر و برکت ہے؛ نہیں، بلکہ خدائے متعال نے سورہ انبیاء کی آیت 107 میں آپ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا:

"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ؛

 اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر رحمت بنا کر تمام جہانوں کے لئے"۔

سورہ آل عمران کی آیت 159 میں فرمایا: "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ؛ تو یہ اللہ کی طرف سے بہت رحمت ہے جس سے آپ ان کے لئے اتنے نرم دل ہیں"۔ اور سورہ توبہ کی آیت 128 میں فرمایا: "لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ؛  تمہارے پاس آیا ہے تم ہی میں سے ایسا پیغمبر جس پر تمہاری زحمت و تکلیف شاق ہے، جسے تمہاری ہر وقت فکر ہے، جو ایمان قبول کرنے والوں پر بہت شفیق ہے، بڑا مہربان"۔

"نبی الرحمہ" یعنی "پیغمبر رحمت" آپؐ کے دیگر القاب میں سے ہے جو قرآنی آیت سے ہی ماخوذ ہے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کی واحد رحمت و عطا ہیں جو رحمت ہی رحمت ہیں

دنیا میں بہت سی مخلوقات ہیں جو بندوں کے لئے رحمت ہیں لیکن یہی رحمتیں کبھی بلا اور تباہی میں بدل جاتی ہیں، جس کی ایک مثال ہے جو رحمت تو ہے لیکن اگر سیلاب کا سبب بن جائے، یا اولاد نعمت اور رحمت ہے، لیکن اگر ناخلف اور نافرمان ہو تو والدین کے لئے کڑی آزمائش بن جاتی ہے، لیکن صرف ایک رحمت ہے اور وہ اللہ کے نبی اعظم و اکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذات بابرکات ہے۔ یہاں تک کہ رسول اکرم کے قہری احکام بھی انسانوں کے لئے رحمت ہیں، کیونکہ ان کا مقصد حالات کی اصلاح اور بہتری کے لئے ہیں، جس طرح کہ استاد کی طرف سے شاگرد کو سزا، جس کا ثمرہ اصلاح اور ہدایت ہے۔

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ  و آلہ) کی ہدایت، رحمت ہے پوری کائنات کے لئے

اللہ کی اعلیٰ ترین نعمت 'ہدایت' ہے، ہدایت یافتہ انسان کی خطائیں کم ہوجاتی ہیں اور یہ مسئلہ انسانوں کے لئے آسائش اور آرام و سکون کا سبب ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) بنی نوع انسان کے ہادی اور راہبر ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام کی دعوت پوری دنیا تک پہنچے گی، دین اسلام پوری دنیا پر چھا جائے گا اور تمام تر انسان ہمارے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ و الہ) کے پیغام سے ہدایت پائیں گے؛ اور یہی سعادت ہے یہی ہے انجام بخیر ہونا دنیا کے تمام انسانوں کے لئے۔

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی زندگی میں بھی ہر وقت انسان کی ہدایت کے لئے کوشاں تھے اور چاہتے تھے کہ انسان انجام بخیر ہوں اور آپؐ کی کوششوں کا مقصد کفار اور مشرکین کو بھی صلاح و فلاح کی طرف لانا تھا، گوکہ ان میں کچھ لوگ اسلام و ایمان کا انکار کرکے آپؐ کی خیرخواہی سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے تھے۔

جبرائیل نے آسمان سے گواہی دی کہ آپؐ پیغمبر رحمت ہیں

جب سورہ انبیاء کی آیت 107 یعنی " وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا رَحۡمَةࣰ لِّلۡعَٰلَمِينَ" نازل ہوئی تو سوال اٹھا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) صرف اہل زمین کے لئے رحمت ہیں یا اہل آسمان کے لئے بھی رحمت ہیں؟ یا یوں کہئے کہ جب کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) رحمۃ للعالمین ہیں، تو کیا اس میں زمین اور آسمانوں والے سب شامل ہیں؟ چنانچہ مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے جبرائیل سے یہی سوال پوچھا اور فرمایا: اے جبرائیل اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے تو کیا اس رحمت کا کچھ حصہ آپ تک بھی پہنچا ہے؟

جبرائیل امین نے جواب دیا: جی ہاں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے پوچھا: وہ کیسے؟

جبرائیل نے عرض کیا: وہ یوں کہ میں نے جو جو بھی کام سرانجام دیئے، اور اللہ تعالیٰ کے جن جن بھی احکامات کی تعمیل کی، اس کے باوجود مجھے اندیشہ رہتا ہے کہ میرے کام کا انجام کیسا ہوگا؟ اپنے انجام کار سے خائف رہتا ہوں، لیکن خداوند متعال نے ـ اس لئے کہ میں خدا اور آپ کے درمیان واسطہ بنا ہوں ـ مجھے "ذِي الْعَرْشِ مَكِين" (تکویر-20)، کا عنوان عطا فرمایا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے 'رحمت' ہونے پر شیعہ اور سنی مفسرین کی تین تعبیرات

شیعہ اور سنی مفسرین نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے رحمت ہونے کے تین معانی پیش کئے ہیں جو کچھ یوں ہیں:

1۔ آنحضرتؐ کی رسالت کی عالمگیریت، آفاقیت اور ابدیت

2۔ آپؐ کا سب کے لئے باعث سعادت اور انجام بخیر ہونے کا سبب ہونا

3۔ آپؐ کا امت کے لئے عذاب الٰہی سے مانع ہونا

لوگوں کو عذاب سے بچانا

مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں عذاب سے مراد استیصال اور بے بسی اور بے چارگی کا عذاب ہے جو ایک قوم کی بیخ کنی کا سبب بن سکتی ہے۔ ملا فتح اللہ شریف کاشانی (متوفیٰ 988ھ) اپنی تفسیر "منہج الصادقین" میں یہ مطلب سورہ انفال کی آیت 33 سے اخذ کیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛

اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان [امتیوں] پر عذاب فرمائے حالانکہ (اے حبیب مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اپنے گناہوں کی) مغفرت طلب کر رہے ہوں"۔

اس آیت میں واضح طور پر پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے فرمایا جاتا ہے کہ جب تک کہ آپ، لوگوں کے درمیان موجود ہیں، اللہ ان پر عذاب نہیں فرمائے گا۔

محمد بن مرتضیٰ (المعروف بہ ملا محسن فیض کاشانی) (متوفیٰ 1090ھ) نے لکھا ہے کہ خسف (یعنی زمین ميں دھنس جانا)، مسخ ہونا اور بے بسی اور بے چارگی سے دوچار ہونا، اس عذاب کے مصادیق ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110