اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غزہ میں بڑی جنگ شروع ہوئے 290 دن سے زائد عرصہ گذر چکا ہے اور اس عرصے میں انسانی حقوق کی پامالی کے نئے ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں۔ سنگ دلی کا ریکارڈ، جرائم کا ریکارڈ، طفل کُشی کا ریکارڈ، شرمناک خاموشی کا ریکارڈ، شجاعت کا ریکارڈ، صہیونیوں کی ذلت کا ریکارڈ اور جنگ میں انسانی نقصان کا ریکارڈ۔ اس دوران کوئی بھی ایسا مجرمانہ اقدام باقی نہیں بچا ہے جو صہیونی حکمرانوں نے غزہ میں انجام نہ دیا ہو۔
غزہ کی جنگ بند گلی میں داخل ہو چکی ہے جبکہ صہیونی ریاست کی توجہ اب زیادہ تر شمالی محاذ پر حزب اللہ لبنان اور اسی طرح یمن کی جانب مرکوز ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تمام محاذ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان میں سے کسی ایک محاذ پر رونما ہونے والی تبدیلی دوسرے محاذ کو بھی شدت سے متاثر کرتی ہے۔ ہم تحریر حاضر میں اس جنگ سے متعلق تین بنیادی مسائل یعنی "جنگ بندی کے مذاکرات"، "اس جنگ پر امریکی انتخابات کے اثرات" اور "اسرائیل اور لبنان میں وسیع جنگ کے امکان" کا جائزہ لیں گے۔
[مقبوضه فلسطین میں] یہودی آبادکاروں کا بڑا حصہ جنگ جاری رہنے کے خلاف ہے۔ وہ اپنے اس موقف کے معقول دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔ اس وقت تک انہیں غزہ جنگ سے جو شدید مالی اور جانی شدید نقصان پہنچا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے دسوں یرغمالی غزہ میں حماس کے کنٹرول میں ہیں جو رہا نہیں ہوئے ہیں یا مارے گئے ہیں۔ جبکہ صہیونی معاشرے کو شدید اقتصادی، نفسیاتی اور سکیورٹی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس صورت حال نے صہیونی آبادکاروں کو اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ جنگ کو ختم ہونا چاہئے اور جنگ بندی کا اعلان ہونا چاہئے۔ یہ سوچ صرف آبادکاروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ دو روز قبل الجزیرہ چینل کے عسکری تجزیہ کار جنرل فائز الدویری نے کہا:
"صہیونی فوج ایک بڑا حصہ بھی، جنگ جاری رکھنے کا خواہاں نہیں ہے اور غزہ سے نکلنے کے درپے ہے، لیکن نیتن یاہو رکاوٹ بن رہا ہے: "اسرائیلی فوج غزہ سے نکلنا چاہتی ہے کیونکہ فوج ہی کو جانی نقصانات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ چنانچہ فوج نے ایک تخمینہ پیش کیا جس کا عنوان ہے کہ "اگر سیاسی حلقوں کا فیصلہ فوج کے غزہ میں رہنے پر ہے، تو اس کے لئے کتنے اخراجات اٹھانا چاہئے؟ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ 50 ہزار فوجیوں کو غزہ میں رہنا چاہئے جو دو ڈویژنوں کے برابر ہیں۔ انھوں نے اقتصادی اخراجات کا تخمینہ بھی پیش کیا جو چھ ارب ڈالر ہے۔ چنانچہ فوج کے غزہ میں رہنے کے اقتصادی اخراجات بہت بھاری ہیں چنانچہ اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ غزہ سے انخلاء کی طرف زیادہ مائل ہے۔ کچھ سروے رپورٹوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 62٪ اسرائیلی غزہ سے فوج کے انخلاء اور مستقل جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔ ادھر اسرائیلی معاشرے میں نفسیاتی امراض میں چھ گنا اضافہ ہو گیا ہے"۔
دوسری طرف امریکی حکام بھی جنگ بندی کا رجحان ظاہر کرتے آئے ہیں۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ امریکی حکام کم از کم نئے انتخابات تک جنگ بندی چاہتے ہیں تب بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دشمن کے میں جنگ بندی کیلئے پختہ ارادے پائے جاتے ہیں۔
اور گویا صرف بنیامین نیتن یاہو اور اس کے چند انتہاپسند وزیر اور فوجی جرنیل ہیں جو جنگ بندی کی راہ میں حائل ہیں۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اگر نیتن یاہو اور اس کی یہ انتہاپسند کچن کیبنٹ آئندہ امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا امکان نہ دیکھ رہی ہوتی تو اب تک جنگ بندی پر راضی ہو چکی ہوتی۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ غزہ جنگ، چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی، جاری رہے گی اور کم از کم آئندہ امریکی صدر واضح ہو جانے تک جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ صہیونی حکام ہر گز مستقل جنگ بندی نہیں چاہتے چونکہ ایسی صورت میں انہیں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسرائیل اور لبنان کے درمیان وسیع جنگ شروع ہو جانے کا امکان بھی بہت اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ مقبوضہ فلسطین سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق، صہیونی وزیر جنگ سمیت بعض صہیونی حکام، طوفان الاقصی آپریشن کے بعد غزہ سے پہلے حزب اللہ لبنان پر حملے کے خواہاں تھے کیونکہ انہیں اس بات کا پورا یقین تھا کہ وہ محاذ ایک تو زیادہ طاقتور ہے اور دوسرا غزہ کے خلاف جنگ شروع ہو جانے کی صورت میں حزب اللہ لبنان بھی سو فیصد میدان جنگ میں کود پڑے گی۔ لیکن اخراجات، ممکنہ فائدوں اور امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے موصول ہونے والی مسلسل وارننگز کے باعث اسرائیل اب تک حزب اللہ لبنان کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے سے باز رہا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں نے بارہا صہیونی حکام کو خبردار کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان سے وسیع جنگ کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوں گے اور انہیں آخرکار انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری طرف سے اندرونی سلامتی کے انتہاپسند صہیونی وزیر ایتامار بن گویر، وزیر خزانہ اسموترچ اور وزیر جنگ بینی گانٹس کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں حماس کے خاتمے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے اور جلد از جلد حزب اللہ لبنان اور حتی لبنان آرمی کے خلاف وسیع جنگ شروع کر نا چاہئے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ جنگ میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا کیا ہے اور جنگ بندی کا مطلب دوبارہ صفر تک پہنچ جانا ہو گا جو حماس کی یقینی فتح ہو گی۔ دوسرے الفاظ میں وہ کہتے ہیں “ہم یہاں تک تو آ چکے ہیں باقی فاصلہ بھی طے کر لیتے ہیں”۔ ان کا موقف سمجھنے کیلئے یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ اسرائیلی فوج اب تک 10 ہزار فوجی مروا چکی ہے۔ وزیر جنگ نے اپنے سرکاری بیان میں ایک بریگیڈ فوج (4 سے 6 ہزار فوجی) ختم ہو جانے کا اعتراف کیا ہے۔
جہاں تک غزہ جنگ پر امریکی انتخابات کے نتائج کا تعلق ہے تو منظرعام پر آنے والی معلومات کی روشنی میں موجودہ امریکی حکومت کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود بنیامین نیتن یاہو کی پہلی ترجیح ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ نیتن یاہو کی نظر میں اگرچہ بائیڈن نے اس جنگ میں کسی مدد سے دریغ نہیں کیا لیکن پھر بھی اس کے کچھ تحفظات ہیں اور ٹرمپ ایسے تحفظات نہیں رکھتا۔ لہذا غزہ جنگ کے دس ماہ تک جاری رہنے کی ایک وجہ یہ سوچ بھی ہے۔
صہیونی حکمران امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ یوں اس انتخابات کا نتیجہ غزہ میں جنگ بندی، جنگ جاری رہنے اور حتی پورے خطے میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے پر اثرانداز ہوگا؛ لیکن مشکل نظر آتا ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کے جال میں پھنس جائے۔ وہ آخرکار تاجر ہے اور ایسی حماقت کے نتائج کا بہتر ادراک کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم جعفر بلور
......
110