11 جولائی 2023 - 15:47
عید مباہلہ 24 ذوالحجۃ الحرام / مباہلہ کیا ہے؟

مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی تحقیق کے مطابق، مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔ چنانچہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے نجران کے نصارٰی کو آیت مباہلہ کی تجویز دی اور انہوں نے یہ تجویز قبول کرلی لیکن مقررہ وقت پر انہوں نے مباہلے سے اجتناب کیا کیونکہ دیکھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا)، اپنے داماد امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام)، اپنے نواسوں اور فرزندوں امام حسن مجتبی اور امام حسین (علیہما السلام)، کو ساتھ لے کر آئے ہیں چنانچہ انہیں آپ کی صداقت کا یقین ہؤا۔ اور یوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس مباہلے کے فاتح ٹہرے۔

نجران کے نصارٰی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے درمیان پیش آنے والا واقعۂ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اصل دعوے [یعنی دعوت اسلام] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ آپ نے تمام اصحاب اور اعزہ و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد کو مباہلے کے لئے منتخب کرکے دنیا والوں کو ان کا اس انوکھے انداز سے تعارف کرایا ہے۔

وقت اور مقام

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور عیسائیوں کے درمیان واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجۃ الحرام کو رونما ہؤا جبکہ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 25 ذوالحجہ کو رونما ہؤا ہے۔

مباہلہ کا مقام مدینہ سے باہر تھا اور یہ مقام اس وقت شہر کا حصہ ہے۔ اس مقام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی جس کو مسجد الاجابہ اور مسجد مباہلہ کیا جاتا ہے۔ مسجد النبی سے مسجد الاجابہ کا فاصلہ دو کلومیٹر ہے۔ (1)

مباہلہ کے لغوی معنی

"مباہلہ" کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں (2)

"بہلہ اللہ" یعنی خدا اس پر لعنت کرے اور اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ (3)

لفظ "مباہلہ" مفہوم کے حوالے سے آیت مباہلہ سے ماخوذ ہے۔ (4)     

اصطلاحی معنی

ابتہال کے معنی میں دو رائیں ہیں: 1۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو؛ 2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔ (5)

مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔

آیت مباہلہ

آیت مباہلہ سورہ آل عمران کی اکسٹھویں آیت ہے جو واقعۂ مباہلہ کی طرف اشارہ کرتی ہے:

"فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ؛

چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی [اس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں] آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجئے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں (جانوں) کو اور تمہارے نفسوں کو، بلالیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر"۔

شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تین اقانیم میں سے ایک اقنوم  (6) ہے؛ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن کریم کی وحیاتی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔ (7)

اہل سنت کے مفسرین زمخشری، (8) فخر رازی، (9) بیضاوی (10) اور دیگر نے کہا ہے کہ "ابناءنا" [ہمارے بیٹوں] سے مراد امام حسن مجتبیٰ اور امام حسین (علیہما السلام) ہیں اور "نسا‏‏ءنا" سے مراد حضرت فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا) اور "انفسنا" [ہمارے انفس اور ہماری جانوں] سے مراد امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا "اصحاب کساء" کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق "آیت تطہیر" اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لئے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:

"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً؛

اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے"۔ (11)

نصارائے نجران نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپ کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا تو خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہوکر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہيں ہوئے؛ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ صلح کرلی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے؛ تو حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی۔ (12) بالفاظ دیگر عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے چنانچہ وہ خوفزدہ ہوکر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔

روز مباہلہ  

نصارٰی کے ساتھ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور عیسائیوں کے درمیان واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجۃ الحرام (سنہ 631عیسوی) کو رونما ہؤا۔ (13)  صاحب ''کشف الاسرار'' کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذوالحجۃ الحرام کو واقع ہؤا ہے۔ (14) شیخ مرتضیٰ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ کو رونما ہؤا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔ (15) شیخ عباس قمی، اپنی مشہور و معروف کتاب "مفاتیح الجنان'' میں 24 ذوالحجہ کے لئے بعض اعمال ذکر کئے ہیں جن میں غسل اور روزہ شامل ہیں۔ (16)

جو کچھ شیعہ اور سنی مؤرخین و محدثین کے ہاں مسلّم ہے، یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان رونما ہؤا ہے۔

مباہلے میں شامل افراد  

یہ بھی تفاسیر اور تواریخ و حدیث کے علماء کے ہاں امر مسلّم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)  جن لوگوں کو مباہلہ کے لئے ساتھ لائے تھے وہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلا)، حضرت فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا)، امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) تھے؛ تاہم یہ کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا تھیں، عیسائیوں میں سے کون لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حضور آئے تھے اور عیسائیوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے درمیان کن کن باتوں کا تبادلہ ہؤا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف روایات اور کتب میں اختلاف کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔

واقعۂ مباہلہ

روز مباہلہ کی صبح کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے گھر تشریف فرما ہوئے؛ امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) امام حسن (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین (علیہ السلام) کو گود میں اٹھایا اور حضرب امیر (علیہ السلام) اور حضرت فاطمہ (سلام‌ اللہ علیہا) کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔

جب نصارٰی نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ اور آج کے عیسائی انتظامات کے مطابق کارڈینل ابوحارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ:

وہ جو ان کے آگے آگے آرہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں؛ وہ دو بچے ان کے فرزند ہیں ان کی بیٹی سے؛ اور وہ خاتون ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا) ہیں جو خلق خدا میں ان کے لئے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ 

آنحضرت مباہلے کے لئے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے، اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لئے روانہ ہوئے۔

ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کچھ اس انداز سے زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاء (علیہم السلام) مباہلے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔

سید نے کہا: کہاں جارہے ہو؟

ابو حارثہ نے کہا: اگر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) بر حق نہ ہوتے تو اس انداز سے مباہلے کی جرئت نہ کرتے؛ اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ایک سال گذرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔ 

ایک روایت میں بیان ہؤا ہے کہ ابو حارثہ نے کہا:  میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بے شک وہ زمین سے اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور حتیٰ ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔

اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہؤا اور کہا:

اے ابا القاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کیحئے اور ہمارے ساتھ مصالحت کیجئے، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو ہم ادا کرسکیں۔ چنانچہ آنحضرت نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینا پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونا چاہئے؛ نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتاً دینا پڑیں گے اور آپ خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرت نے صلح نامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔

حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بعدازاں فرمایا: "اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی؛ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بےشک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہوجاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لئے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتیٰ کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہوجاتے۔ (17)

نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ تحائف لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے۔ (18)

واقعۂ مباہلہ سے تاریخی استنادات 

تاریخ میں متعدد بار اہل بیت (علیہم السلام) کی حقانیت کے اثبات کے لئے واقعۂ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور اس واقعے سے استدلال امیرالمؤمنین علی، امام حسن مجتبیٰ، امام حسین اور باقی ائمۂ معصومین (علیہم السلام) اور علماء اور صلحاء کے کلام میں ملتا ہے۔ یہاں چند نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں:

سعد بن ابی وقاص کا استدلال

عامر بن سعد بن ابی وقاص [جو صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے] نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص]] سے نقل کیا ہے کہ معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے کہا: تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟

سعد نے کہا:

"جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہونگی کبھی بھی ان پر دشنام طرازی نہیں کروں گا؛ اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والوں اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا"۔

بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرکے کہتا ہے: اور تیسری بات یہ تھی کہ جب آیت مباہلہ "فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ..." نازل ہوئی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے علی، فاطمہ اور امام حسن و امام حسین (علیہم السلام) کو بلایا اور فرمایا: "اللهم هؤلاء اهل بيتي یعنی بار خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں"۔ (19)

19۔ الطباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه 61 آل عمران۔ علامہ طباطبائی کے  مطابق یہ روایت صحیح مسلم، سنن ترمذی، أبو المؤید الموفق بن أحمد کی "فضائل علی"، ابو نعیم اصفہانی کی "حلیۃ الاولیاء" میں اور حموینی کی "فرائد السمطین" میں بھی نقل ہوئی ہے۔

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کا استدلال

ہارون عباسی نے امام موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا: آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ "ہم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نسل سے ہیں حالانکہ آنحضرت کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ آنحضرت کی بیٹی کی اولاد ہیں؟

امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھنا۔

ہارون نے کہا: اے فرزند علی! آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا پڑے گی، اور آپ اے  موسیٰ! ان کے سربراہ اور ان کے زمانے کے امام ہیں ـ مجھے یہی بتایا گیا ہے ـ اور میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں آپ کو اس کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا جب تک کہ آپ ان سوالات کی دلیل قرآن سے پیش نہیں کریں گے؛ اور آپ فرزندان علی دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ "مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ" (ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی)۔ (20) اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجتمند نہیں سمجھتے ہیں۔

امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: مجھے جواب کی اجازت ہے؟

ہارون نے کہا: جی ہاں کہہ دیجئے۔

امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ٭ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ؛

اور ہم نے عطا کیے انہیں "اسحٰق اور یعقوب (علیہما السلام)، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوح (علیہ السلام) کو اس سے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان اور ایوب یوسف یوسف، اور موسٰی اور ہارون (علیہم السلام) کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال رکھنے والوں کو ٭ اور زکریا اور یحیٰی اور عیسی اور الیاس (علیہم السلام) کو، سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔ (21)

بتایئے عیسی (علیہ السلام) کا باپ کون ہیں؟

ہارون نے کہا: ان کا کوئی باپ نہیں ہے۔  

امام (علیہ السلام) نے فرمایا: پس خداوند متعال نے سیدہ مریم (سلام اللہ علیہا) کے ذریعے انہیں انبیاء کی نسل سے ملحق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا) کے ذریعے حضرت رسول اللہ محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نسل سے ملحق فرمایا ہے؛ کیا پھر بھی بتاؤں؟

ہارون نے کہا: کہہ دیجئے۔

چنانچہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:

کسی نے بھی یہ نہیں کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نجران کے نصارٰی کے ساتھ مباہلے کے لئے امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) حضرت فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا) اور امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کے سوا کسی اور کو کساء کے کے نیچے جگہ دی ہے! پس آیت میں ہمارے بیٹوں ("ابنائنا") سے مراد امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام)، ہماری خواتین "نسائنا" سے مراد سیدہ فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا) اور ہماری جانوں ("انفسنا") سے مراد امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب (علیہما السلام) ہیں۔ (22) پس خداوند متعال نے آیت مباہلہ امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کا کہ امام حسن مجتبیٰ اور امام حسین (علیہما السلام) اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نسل اور ذریت ہیں۔

امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کا استدلال

"مامون عباسی نے امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) سے کہا: امام علی (علیہ السلام) کی عظیم ترین فضیلت ـ جس کی دلیل قرآن میں موجود ہو ـ کیا ہے؟

امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی عظیم ترین فضیلت آیت مباہلہ میں؛ بیان ہوئی ہے؛ اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) ـ جو آنحضرت کے بیٹے اور آیت میں "ابناءنا" کا مصداق ہیں ـ کو بلوایا اور سیدہ فاطمہ زہرا (سلام‌ اللہ علیہا) کو بلوایا جو آیت میں "نسائنا" کا مصداق ہیں اور امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق "انفسنا" کا مصداق اور آنحضرت کا نفس اور جان ہیں؛ اور ثابت ہؤا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذات با برکات سے زیادہ جلیل القدر اور افضل نہیں ہے؛ تو کسی کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہئے۔

بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند متعال نے "ابناء" کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، "نساء" بھی جمع ہے جبکہ آنحضرت صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہا جائے کہ "انفس" کو بلوانے سے مراد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اپنی ذات ہے! اور اس صورت میں جو فضیلت آپ نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے لئے بیان کی ہے وہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے!؟

امام رضا (علیہ السلام) نے جواب دیا:

نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر (اور حکم دینے والے) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) مباہلہ کے وقت علی بن ابیطالب (علیہما السلام) کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی بن ابی طالب (علیہما السلام) وہی نفس و جان ہیں جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔

پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے"۔ (23)

................

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

................

حوالہ جات

1۔ محسن قرائتی، تفسیر نور، ج2، ص77۔

2۔ الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بہل۔

3۔ الزمخشری، محمود، تفسیر الکشاف، ج1، ص368۔

4۔ شیرازی، مکارم، تفسیر نمونہ، ج‌2، ص580۔

5۔ طبرسی، مجمع البیان، انتشارات ناصرخسرو، ج2، ص 762 تا 761۔

6۔ اقنوم یا Hypostasis ایک بنیادی اور علمی اصطلاح ہے اور عیسائی اس کو تثلیث (سہ گانہ پرستی) اور مسیح شناسی کے موضوع میں بروئے کار لاتے ہیں۔ Hypostasis ایک یونانی لفظ ہے اور اس کے دقیق اور درست معنی جوہر کے مفہوم میں ہیں اور اس سے مختلف معانی اخذ کئے جاسکتے ہیں۔

7۔ قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376.ذیل آیه مباهله، ص 57۔

8۔ الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیه 61 آل عمران۔

9۔ الرازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیه 61 آل عمران۔

10۔ البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیه 61 آل عمران۔

11۔ سورہ احزاب، آیت 33۔

12۔ قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376، ذیل آیه مباهله، ص 57۔

13۔ ابن شهرآشوب، 1376ق، ج 3، ص: 144۔

14۔ میبدی، کشف الاسرار وعدة الابرار، ج2، ص147۔

15۔ انصاری، مرتضی، کتاب الطهارة، ج3، قم، کنگره جهانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، صص48-49۔

16۔ مفاتیح الجنان، ماہ ذو الحجہ کے واقعات و اعمال۔

17۔ قمی، شیخ عباس، 1374، ج1، صص: 182-184۔

18۔ الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310۔

20۔ سورہ انعام، آیت 38۔

21۔ سورہ انعام آیات 83 و 84۔

22۔ الطباطبائی، سید محمد حسین، وہی ماخذ، صص: 230-229۔

23۔ المفید، الفصول المختاره، التحقیق: السید میرعلی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414، ص 38۔

................
مآخذ

*قرآن کریم، ترجمہ، توضیحات و واژہ نامہ از بہاءالدین خرمشاہی، تہران: جامی، نیلوفر، چاپ سوم، موسم گرما 1376ھ ش

*ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج3، نجف: مطبعة الحیدریة، 1376ھ

*الانصاری، مرتضی، کتاب الطہارة، ج3، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری۔

*الجوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح (تاج اللغة و صحاح العربیة)، تحقیق احمد عبدالغفور عطار، بیروت، دار العلم للملایین، الطبعة الرابعة، 1407ھ

*الزمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج1، قم، نشر البلاغہ، الطبعة الثانیة، 1415ھ

*طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج3، قم: اسماعیلیان، 1391، الطبعۃ الثالثۃ.

*الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج2، بیروت: موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، الطبعۃ الاولی، 1415ھ

*قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، قم: ہجرت، 1374ھ ش

*المفید، الفصول المختارہ، التحقیق: السید میرعلی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبۃ الثانیۃ، 1414ھ

*میبدی، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، ج2.

*قرائتی،محسن، تفسیر نور، مرکز فرہنگی درسہائی از قرآن۔

*شریعتمداری، محمدتقی، آیہ مباہلہ، تہران: واحد تحقیقات اسلامی، 1365ہجری شمسی۔

*علوی، سیدمحمد، مباہلہ صادقین، قم: نغمات، 1383ہجری شمسی۔

* لوئی ماسینیون، (Louis Massignon) ، مباہلہ در مدینہ، (La Mubahala de Médine.) ترجمہ و مقدمہ: محمود افتخارزادہ، تہران: رسالت قلم، 1378ھ ش
.............
110