اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امتِ واحدہ پاکستان کےسربراہ علامہ محمدامین شہیدی نےجامعةالعروةالوثقی کےبارہویں یوم تاسیس کےموقع پر"نہج البلاغہ ونہج الولایة "کےعنوان پرخطاب کیاجس میں انہوں نے تمام مسالک کےعلماء،اہل قلم اوراہل تحقیق کو ایکدوسرےکےمنابع ومآخذسےاستفادہ کرنےاور مدارس کادورہ کرنےکی تاکیدکی۔انہوں نےکہاکہ ہمارےمعاشرے کاالمیہ یہ ہےکہ ہم جہالت کےدبیزپردوں کےپیچھےاتناچھپ چکےہیں کہ ایکدوسرےسےآشنائی کےلئےبھی ہمیں بڑی محنت کرناپڑتی ہے۔مختلف مسالک کےحامل افرادسےمسلسل ملاقاتوں کےبعدمیں اس نتیجہ پرپہنچاہوں کہ وہ لوگ یہ تصورکرتےہیں کہ "نہج البلاغہ" مکتب اہل بیت علیہم السلام کی حدیث کی کتاب ہے،اس کی وجہ نہج البلاغہ کی شہرت ہے۔جب کہ ہمارےعلماءنےاس حوالہ سےایک مثبت کام کیاہےکہ جہاں کوئی علمی وفکری بحث ہوئی،وہاں عالمِ اسلام میں موجودتمام منابع ومآخذسےکمالِ استفادہ کامظاہرہ کیا۔ہماری لائبریریاں ہوں یامدارس ،حوضہ ہائےعلمیہ ہوں یاپھرعلماءکی شخصی لائبریریاں ،ان سب میں تمام مسالک کی کتب اوراحادیث کےمعتبراورتاریخی مجموعے،کلام کےموضوعات پرلکھی گئی کتب موجودہوتی ہیں۔اس کام سےایک مثبت پیغام پہنچتاہےکہ ہم ایکدوسرےکےعلمی ذخائرسےاستفادہ کرتےہوئےایک ملت اورایک امت بننےکی طرف قدم اٹھاسکتےہیں۔
ایک امت بننےکی طرف قدم اٹھانےکےحوالہ سےہماری سب سےبڑی مشکل ہمارےمعاشرےکی جہالت ہےجوتعصب کوجنم دیتی ہے،حقیقت سےچشم پوشی کرنےپرمجبورکرتی ہےاورنفاق کابیج بوکر بغض کی فصل تیارکرتی ہے۔جس کےنتیجہ میں دوبھائی ایکدوسرےکوسمجھنےکی بجائےایکدوسرےسےدورہوجاتےہیں۔آج کی دنیامیں مغربی استعمارکےمقابلہ میں اگرکوئی سب سےبڑاچیلنج ہےتووہ مکتبِ توحیدہے۔جوبات نہ سادہ لوح افرادسمجھتےہیں اورنہ سماجی رابطہ کےذرائع اس پرتوجہ دیتے ہیں،وہ یہ ہےکہ آج کےدورمیں جنگ دوقوتوں کےدرمیان ہے؛اسلام وکفراورتوحیدوشرک۔کفروشرک کی سب سےبڑی کوشش یہی ہےکہ توحیدی نظریہ کی حامل قوتوں کودیمک کی طرح چاٹ چاٹ کرکمزورکردیاجائے۔اس مقصدکےحصول کےلئےیہ قوتیں کئی طریقوں پرعمل کرتی ہیں اوراس کےنتیجہ میں جہالت کی فصل اگتی ہے۔لہذاعلماء،اہل قلم اوراہل تحقیق کی ذمہ داری ہےکہ وہ کتابیں چھانیں ،ایکدوسرےکےعقائدسےمعرفت حاصل کریں اورایکدوسرےکوسمجھنےکی کوشش کریں۔پھراپنےاپنےدائروں میں رہتےہوئےاُن مشترکات پر اکٹھاہوں جوسب کےہاں یکساں ہیں۔
امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام تاریخِ اسلام کی وہ ہستی ہیں جوتمام مسالک کےدرمیان یکساں طورپرقابلِ قبول ہیں؛یعنی مکتبِ تسنن اورتشیع میں اس بات پرذرہ بھربھی اختلاف نہیں ہےکہ حبِ علیؑ ایمان اوربغضِ علیؑ کفراورنفاق ہے۔جب ہم اس نقطہ پرمتحدہیں توہمیں ایکدوسرےکوسمجھنےاورمطالعہ کرنےکی ضرورت ہے۔
آخریہ غلط فہمی کیوں عام ہےکہ"نہج البلاغہ"کوحدیث کی کتاب قراردیاجائے!اگرکوئی ادنی سےادنی طالبعلم بھی مکتب اہل بیتؑ کےفقہی وکلامی منابع پرغورکرےتوفقہی احکام کےاستنباط کےحوالہ سے نہج البلاغہ میں کہیں بھی ایساکوئی جملہ یاقول نظرنہیں آتا۔جب کہ نہج البلاغہ معروف ہےاوراس معروفیت کےپیشِ نظرآج ایک بہت بڑی سازش یہ بھی کی جارہی ہےکہ نہج البلاغہ کےخطبات میں تبدیلیاں کرکےنئےترجمہ کےساتھ مارکیٹ میں عام کیاجارہاہے۔نہج البلاغہ کلامی کتاب ہے اورنہ ہی فقہی احادیث کامآخذومنبع ؛بلکہ یہ معرفت ،کائنات وخدا شناسی کی کتاب ہے؛اُس شخصیت کی نگاہ سےجوبعدازرسولؐ کائنات کاوارث ہے،جوعلمِ شہرِ نبیؐ کادروازہ اورنفسِ رسولؐ ہے۔ جس کی محبت کواللہ کےحکم سےنبیؐ نےایمان اوردوری کونفاق قراردیا؛اُس شخصیت کی نگاہ سے جس کاساتھ دیناحق ہےکیونکہ وہ سراپاحق ہے،جوعرفاء،صوفیاء،متکلمین،سیاستدانوں اوربہادروں کاامام ہے۔الغرض دنیامیں تکامل اوررشدِانسانی کےاعتبارسےجتنی بھی شخصیات اپنی معراج تک پہنچی ہیں،وہ سب کی سب بعدازانبیاءعلیہم السلام،علیؑ کےمقابلہ میں بہت چھوٹی دکھائی دیتی ہیں۔نہج البلاغہ امام علی علیہ السلام کی بلندوبالا روح کی عکاس کتاب کانام ہے۔اس کےکلام کوسمجھنےکےلئےمتکلم کی طرف دیکھناضروری ہے؛متکلم جتنابڑاہوگااس کےکلام کی گہرائی اوروسعت بھی اتنی زیادہ ہوگی۔ قرآن پڑھنےکےبعدہمیں سمجھ میں آتاہےکہ اللہ کاکلام ہونےکی وجہ سےقرآن میں اللہ متجلی ہے،اسی طرح نہج البلاغہ میں امیرالمومنین علی علیہ السلام نظرآتےہیں۔لہذاان کتب کوسمجھنے،جہالت کےدبیزپردوں کوہٹانےاورایکدوسرےکےمنابع اورمآخذسےاستفادہ کرنےکی ضرورت ہے۔اگرہم تاریخ کےبڑےبڑےبزرگوں کی نگاہ سےدیکھیں تونہج البلاغہ کو"اخ القرآن"کہاگیاہے۔جس طرح قرآن مجیدہدایت کی کتاب ہے،اسی طرح نہج البلاغہ حکمت کی کتاب ہے۔یہ کتاب ذہنِ انسانی کوکھولنےاورانسان ومعاشرہ کوسمجھنےمیں مدددیتی ہے۔اس کتاب کامطالعہ ولایت کی طرف اٹھنےاور"نہج الولایة"پرچلنےوالاپہلاقدم ہے۔ایساممکن نہیں ہےکہ انسان ولایت کےمنہج کونہج البلاغہ پڑھےبغیراختیارکرےاورعلیؑ کےکلام سےناآشنارہ کرعلیؑ کےراستےکوسمجھنےکی کوشش کرے۔
حبِ خدااورحبِ علیؑ دونوں ایک ہی حقیقت کےدورُخ ہیں۔ولایتِ خداورسولؐ اورولایتِ علیؑ میں تفاوت نہیں۔تینوں ہستیوں میں پہلاخالق اور باقی دواس کی مخلوق ہیں ،ایک نبی ہےتودوسراولی لیکن تینوں میں ولایت کاعنوان مشترک ہے۔اگرکسی کےدل میں علی علیہ السلام کی ولایت ہےتوگویاوہ اللہ کی ولایت میں داخل ہوجاتاہے۔یہ مسلک کامسئلہ نہیں بلکہ توحیدکامسئلہ ہےجسےقرآن نےبیان کیاہے:"ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسولؐ اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوةدیتے ہیں۔"(المائدہ:55) اس آیت کی سب سےبارزاوراعلی مصداق وہی ہستی ہےجس کومباہلہ کےمیدان میں نفسِ رسولؐ بناکرخوداللہ نےبیان کیاکہ اگررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کےبعدان مقامات ومراتب کاکوئی حامل ہےتووہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔لہذاعشقِ علیؑ،عشقِ رسولؐ ہے۔یہ مذہب ومسلک کامسئلہ نہیں بلکہ ضمیرکی پاکیزگی کامسئلہ ہے۔علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جن کی مدح وتعریف کرتے ہوئےلسانِ رسولؐ کبھی نہیں تھکی؛ رسولؐ نےعلیؑ کےفضائل وہاں وہاں بیان کیےجہاں کسی کوتوقع بھی نہیں تھی کہ رسولؐ ایساکریں گے۔اسی لئےانفرادی زندگی ہویااجتماعی،جنگ کامیدان ہویاکوئی اورمقام،ان تمام جگہوں پرفضائل کاایک ہی یکجامجموعہ نظرآتاہےاوروہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذاتِ اقدس ہے۔میں یہ بات بھی واضح کرتاچلوں کہ علیؑ کےفضائل بیان کرنےسےمرادکسی اورکی تنقیص یاتوہین نہیں ہے۔اگرہم علیؑ اوراہل بیت علیہم السلام کےدیگرافرادکےفضائل کاآپس میں مقائسہ نہیں کرتےتوپھر آپ علیؑ کےفضائل اورصحابہ کےدرمیان تمیزکرنےپرکیوں مجبورہوتےہیں؟اس کامطلب یہی ہےکہ کہیں نہ کہیں کوئی مشکل ضرورہےاوراسی مشکل کانام جہالت ہے۔اس جہالت کوتحقیق ومطالعہ کےذریعہ دورکرنےکی اشدضرورت ہے۔
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنا مسلک کا نہیں، توحید کا مسئلہ ہے: علامہ امین شہیدی
14 فروری 2022 - 12:55
News ID: 1229531

امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام تاریخِ اسلام کی وہ ہستی ہیں جوتمام مسالک کےدرمیان یکساں طورپرقابلِ قبول ہیں؛یعنی مکتبِ تسنن اورتشیع میں اس بات پرذرہ بھربھی اختلاف نہیں ہےکہ حبِ علیؑ ایمان اوربغضِ علیؑ کفراورنفاق ہے۔جب ہم اس نقطہ پرمتحدہیں توہمیں ایکدوسرےکوسمجھنےاورمطالعہ کرنےکی ضرورت ہے۔