12 اپریل 2021 - 16:27
فوکویاما کے مضمون راٹن ٹو دی کور Rotten to the Core پر تبصرہ (2)

امریکہ کے اندر امریکی زوال کی داستانیں عام ہیں، ہم خودباختہ ہونے کے ناطے، ابھی تک یہ باور نہیں کرپائے ہیں کہ امریکہ - جو بہت سوں کے ہاں آقا اور مالک کی حیثیت رکھتا ہے - سیاسی، معاشی، اخلاقی، انتظامی اور ثقافتی زوال کا شکار ہوچکا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ بدقسمتی سے مشرقی دنیا میں کوئی مضبوط اور قابل اعتماد نگرانی کا نظام نہیں ہے چنانچہ کوئی بھی امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکا حتی کہ فلسطین پر قابض یہودی ریاست اور اس کے حلیف عرب ریاستیں نیز جنوبی ایشیا کے بہت سے ناظرین کا خیال تھا کہ ٹرمپ جیت جائیں گے حالانکہ "ٹرمپ نامنظور" کے انجن کو کافی ایندھن فراہم کیا جا چکا تھا اور ایک طاقتور سیاسی عزم معرض وجود میں آچکا تھا کہ ٹرمپ کو بہرصورت وائٹ ہاؤس سے نکال باہر کیا جائے اور انہيں نکال باہر کیا گیا۔ لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ٹرمپ اور ٹرمپ ازم ایک ناقابل انکار مظہر (Phenomenon) کے طور پر امریکی سیاست میں باقی رہیں گے۔ ٹرمپ ریپلکن جماعت کے سماجی سرمایے کا ایک بڑا حصہ چوری کرکے لے گئے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ وطن پرست جماعت (Patriot Party) بناکر اپنی سیاسی شرانگیزی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں. ٹرمپ امریکہ میں ایک ایسے فکری دھارے کی ترجمانی کررہے ہیں جس سے نسل پرستی کی سڑاند اور انتہاپسندانہ قوم پرستی کی بدبو آتی ہے۔ ڈیموکریٹ جماعت بھی ٹرمپ کا تعاقب جاری رکھے ہوئے ہے اور سینٹ میں وضاحت طلبی کے ذریعے ان کی نااہلی ثابت کرکے اس کی سیاسی حیات کا خاتمہ کرنے کے رپے ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت (Socialism) سوشلزم اور فسطائیت (فاشیت = Fascism) کے ظہور سے پہلے بھی اس اس کے بعد بھی، بات چیت اور گفتگو کی چھت تلے اپنے اضلاع و اطراف کے مفادات کے باہم تضادات کا انتظام و انصرام کرتا ہے اور بلا شرکت غیرے، اپنی بالادستی کو عالمگیر بنا دیتا تھا۔ لیکن چھیالیسویں صدارتی انتخابات کے واقعات نے ثابت کیا کہ دو جماعتوں تھنک ٹینکوں اور سوچ بچار کے کمروں نیز حکمرانی کے طریقہ ہائے کار کی چھتری تلے ہونے والی بات چیت اور گفتگو، امریکی کانگریس، سینٹ اور عدالت عالیہ میں نتیجہ خیز نہیں ہے۔ سڑکوں پر لشکر کشی اور سیاسی بدمستی اور کھیل کو درہم برہم کرنا بھی ایک راہ حل ہوسکتا ہے!
یہ جو عالمی سرمایہ داری کے مرکزے کے وسط میں، امریکہ کے اندر، اور بیرونی دنیا میں امریکہ کے شرکاء کے درمیان کیا ہورہا ہے، اس سے ہم کم از کم بےخبر ہیں۔ ہم مشرق والوں، ہمارے خفیہ اداروں اور ہمارے ہاں کے نگران سیاسی مراکز کے پاس میں کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہم میں سے بہت سے تو حیران و پریشان ہیں۔ ہم نے تو امریکی سروے کے ادراوں پر "معمول کے عین مطابق" اعتماد کیا کیونکہ باوجود اس کے کہ امریکہ کے اندر امریکی زوال کی داستانیں عام ہیں، ہم خودباختہ ہونے کے ناطے، ابھی تک یہ باور نہیں کرپائے ہیں کہ امریکہ - جو بہت سوں کے ہاں آقا اور مالک کی حیثیت رکھتا ہے - سیاسی، معاشی، اخلاقی، انتظامی اور ثقافتی زوال کا شکار ہوچکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲