اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

22 دسمبر 2024

10:24:38 AM
1515724

اہل بیت(ع) کے مداحوں اور ذاکروں کی رہبر انقلاب سے ملاقات؛

آج شک وشبہے کا بیج بونا دشمن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے / حالات حاضرہ کی تشریح بہت اہم فریضہ ہے / جو بھی امریکہ کی گماشتگی اختیار کرے گا، پاؤں تلے رونا جائے گا، / ہم پراکسی فورس کے محتاج نہیں ہیں، امام خامنہ ای

ملک بھر سے ہزاروں مداحوں اور ذاکروں نیز اور ملک کے ہر طبقے کے عوام نے دو جہانوں کی سیدۃ النساء حضرت صدیقۂ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) کے میلاد مبارک، نیز حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی ولادت با سعادت کی سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) سے ملاقات کی، اس موقع پر کئی ذاکروں اور مداحوں نے اسی مناسبت سے اہل بیت عصمت و طہارت کے فضائل و مناقب بیان کئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ملک بھر سے ہزاروں مداحوں اور ذاکروں نے میلاد سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) نیز حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی ولادت با سعادت کی سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) سے ملاقات کی، اس موقع پر کئی ذاکروں اور مداحوں نے اسی مناسبت سے اہل بیت عصمت و طہارت کے فضائل و مناقب بیان کئے۔ جس کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کے اقتباسات

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کا اہم ترین کام، حقائق کی تشریح سے عبارت تھا، اہل بیت (علیہم السلام) کی مداحی در حقیقت، تشریح حقائق کے سلسلے میں سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی پیروی ہے۔ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اپنی حیات میں حالات حاضرہ کے حقائق بھی بیان کئے، یہ وہ مسائل تھے جو ان ہی دنوں میں پیش آئے تھے۔ حالات حاضرہ کے مسائل کی تشریح ایک بہت اہم فریضہ ہے۔

اہل بیت (علیہم السلام) کی مداحی حقائق کی تشریح کا ہمہ جہت ذریعۂ ابلاغ اور بہت اہم وسیلہ ہے

اہل بیت (علیہم السلام) کی مداحی حقائق کی تشریح کا خالص اور ہمہ جہت ذریعۂ ابلاغ اور بہت مہم وسیلہ ہے؛ آج شک وشبہے کا بیج بونا دشمن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے اور آج ہمیں حقائق کی تبیین و تشریح کی ضرورت ہے اور آپ مداحان اہل بیت (علیہم السلام) ان افراد میں سے ہیں جو اس کارِ نمایاں کو سرانجام دے سکتے ہیں۔

ملت ایران امریکہ کے گماشتوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈالے گی

ممالک پر تسلط جمانے کے لئے امریکہ کا پروگرام ان دو میں سے ایک ہے: یا استبدادیت و آمریت اور افراتفری اور لاقانونیت اور بلوے پھیلانا؛ جیسا کہ انھوں نے شام میں لاقانونیت اور انارکی پھیلا دی اور اب بزعمِ خود "کامیابی" محسوس کر رہے ہيں! ایک امریکی عنصر ضمنی طور پر کہتا ہے کہ جو بھی ایران میں بلوے شروع کر دے ہم [امریکی] اس کی مدد کریں گے؛ احمقوں کو کباب کی بو محسوس ہوئی ہے! ملت ایران ہر اس شخص کو ـ جس اس سلسلے میں امریکی گماشتگی اختیار کرے گا ـ اپنے قدموں تلے روند ڈالے گی۔

اسلامی جمہوریہ پراکسی فورس کی محتاج نہیں ہیں

تسلسل کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے خطے میں اپنی پراکسی [نیابتی] فورسز کو کھو دیا ہے! یہ بھی دوسرا :بڑا غلط" (اور سفید جھوٹ) ہے! اسلامی جمہوریہ کی کوئی نیابتی فورس نہيں ہے۔ "یمن لڑتا ہے اس لئے کہ با ایمان ہے"، "حزب اللہ لڑتی ہے کیونکہ ایمانی قوت اسے میدان میں لا کھڑا کرتی ہے"؛ "حماس اور جہاد کی فلسطینی تحریکیں لڑتی ہیں اس لئے کہ ان کا عقیدہ انہیں جہاد پر آمادہ کرتا ہے"، یہ ہمارے نائب [اور پراکسی] نہیں ہیں۔ [کیونکہ] ہم اگر کسی دن اقدام کرنا چاہیں تو "ہم پراکسی فورس کے محتاج نہیں ہیں"۔

اللہ کے فضل سے خطے کا کل آج سے بہت بہتر ہوگا

میری پیش گوئی یہ ہے کہ شام میں بھی ایک مضبوط، طاقتور اور قابل احترام مجموعہ ابھرے گا، [اور یہ ہوکر رہے گا]؛ شامی نوجوان کے پاس آج کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ شامی نوجوان کی یونیورسٹی غیر محفوظ ہے، اس کا اسکول غیر محفوظ ہے، اس کا گھر غیر محفوظ ہے، اس کی سڑکیں غیر محفوظ ہیں، اس کی زندگی غیر محفوظ ہے، تو ایسے میں اسے کیا کرنا چاہئے؟ یقینا اس کو پوری طاقت اور عزم و ارادے کے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہونا چاہئے، جنہوں نے اس بدامنی کی منصوبہ بندی کی ہے، اور ان کے مقابلے کے لئے اٹھنا چاہئے جنہوں نے اس منصوبے کو نافذ کیا ہے، اور یقینا شامی نوجوان ان پر غلبہ پائیں گے، ان شاء اللہ۔ اللہ کے لطف و فضل سے خطے کا کل (یعنی مستقبل) آج سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے خطاب کی رپورٹ

ملک بھر سے ہزاروں مداحوں اور ذاکروں نیز اور ملک کے ہر طبقے کے عوام نے دو جہانوں کی سیدۃ النساء حضرت صدیقۂ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) کے میلاد مبارک نیز حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی ولادت با سعادت کی سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) سے ملاقات کی، اور رہبر انقلاب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

خطاب کا پہلا حصہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میں سیدۃ النساء العالمین اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی برگزیدہ ہستی حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے میلاد با سعادت کے سلسلے میں [سب کو] مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

خدائے متعال نے دو خواتین کو بنی نوع انسان کے تمام افراد کے لئے نمونہ قرار دیا ہے ارشادفرماتا ہے: "وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ؛ اور اللہ نے اہل ایمان کے لئے مثال پیش کی ہے زوجہ فرعون کی"۔ [1] اور اس کے بعد فرمایا: "وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ؛ اور اور عمران کی بیٹی مریم کی"۔ [2]

دو عورتیں ہیں جنہیں اللہ نے پوری نوع انسان کے لئے نمونہ اور مثال قرار دیا ہے۔ نہ صرف عورتوں کے لئے بلکہ عورتوں کے لئے اور مردوں کے لئے۔  شیعہ اور سنی مصادر سے منقولہ ایک حدیث میں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے کہ "میری بیٹی زہرا (سلام اللہ علیہا) ان دو خواتین سے برتر و بالاتر ہیں"۔ [3] یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ نمونہ ہیں [اور مثالی حیثیت رکھتی ہیں] ـ خیال رکھیں، صرف فضیلت کی مالک نہیں ہیں، نمونہ بھی ہیں، چوٹی ہیں؛ عین ممکن ہے کہ میں اور آپ اس چوٹی تک نہ پہنچ پائیں، اور یقینا نہیں پہنچ پائیں گے؛ لیکن اس چوٹی کی طرف گامزن ہونا چاہئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے بعد فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مختصر زندگی کے اس [تھوڑے سے] عرصے میں، جو کچھ آپ سے ظاہر ہؤا، سب نے دیکھا، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لئے، بلکہ بنی نوع انسان کے لئے نمونۂ عمل ہو سکتا ہے۔

یہ کہ ایک خاتون، ایک نوجوان خاتون، ایک بڑے اجتماع کے سامنے، ایک طاقت کے سامنے، ایک حکومت کے سامنے، اٹھ کھڑی ہو اور حق کا دفاع کرے، شجاعت اور بہادری کا ثبوت دے، اس کی منطق تمام صاحبان منطق کو قائل کر دے، کام کو ادھورا نہ چھوڑے اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک ـ جب مدینہ کی خواتین آنجناب کی عیادت کی لئے آتی تھیں ـ ان ہی حقائق کو، دین کے ان ہی محکم اصولوں کو بیان کرے، یہ وہ مہم ہے جس سے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی طرح کی نمایاں اور منفرد ہستی ہی عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔ ان خصوصیات میں سے ہر ایک، ایک مثالی نمونہ ہے: حق کے لئے قیام، شجاعت، صراحت [بغیر تحفظات کے اظہار حق]، قوت استدلال، استقامت اور ثابت قدمی۔ یہ وہی چیز ہے کہ خدائے متعال نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ "[قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ] أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَىٰ؛ [4] [کہئے کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں]، وہ یہ کہ تم اللہ کے لئے دو دو مل کر اور اکیلے اٹھو"۔ یعنی اگر تمہاری تعداد دو تک پہنچے تو اللہ کے لئے، ان چیزوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوجاؤ اور اللہ کے امر کے خلاف ہے؛ یعنی اگر تمہاری تعداد دو بھی نہ ہوئی، اور تم تنہا تھے، پھر بھی اٹھو۔ اس آیت شریفہ کا حقیقی مصداق سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں۔

ایک روایت ـ خوارزمی نے ـ جو کہ اہل سنت کے علماء میں سے ہیں ـ نقل کرتے ہیں کہ "قالَ رَسولُ اللهِ صَلّی اللهُ عَلیهِ وَآلِهِ: یا سَلمان"۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ نے یہ بات سلمان سے کہی۔ سلمان وہی اولین شخص ہیں، پہلے درجے پر ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہ بات اپنے قریب ترین صحابی کے لئے بیان کی [اور فرمایا]: "حُبُّ‌ فاطِمَةَ يَنْفَعُ فِي مِائَةٍ مِنَ الْمَوَاطِنِ؛ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی محبت 100 جگہوں پر نفع [اور فائدہ] پہنچاتی ہے؛ اس دنیاوی زندگی کے بعد،100 مقامات پر، کہ "وَأَيْسَرُ تِلْكَ الْمَوَاطِنِ الْمَوتُ وَالقَبْرُ؛ [5] ان سو مقامات میں ـ جہاں حب سیدہ(س) نقع پہنچاتی ہے، ان میں سے آسان ترین مقامات موت [کی گھڑی] اور قبر [کا مرحلہ] ہے"۔۔۔ بادی النظر میں، اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اگر آپ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے محبت و مودت رکھتے ہیں، تو یہ فضیلت آپ کی ہے؛ یہ درست بھی ہے، یعنی اس معنی میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے آپ کی حب داری، یہ خصوصیت رکھتی ہے، جو 100 مقامات پر آپ کے کام آتی ہے؛ لیکن جب تھوڑا سا غور و تدبر کرتے ہیں تو اس معنی کے ساتھ ایک دوسرا معنیٰ بھی ہے، اور وہ یہ کہ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی آپ سے محبت، ان فوائد کی حامل ہے۔ ہماری فارسی میں بھی اس طرح کی تعبیرات رائج ہیں؛ کہتے ہیں "فلان شخص کی دوستی، تمہارے کام آئے گی"، کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ اس کی دوستی تمہارے ساتھ، [تمہارے کام آئے گی] اچھا تو یہ اہم ہے، یہ مشکل ہے۔ وہ اول الذکر معنیٰ آسان ہے؛ جو بھی اس سورج کو دیکھے، اس چمکتے ہوئے چاند کو دیکھے، ان چمکتے دمکتے تاروں کو دیکھے، ان فضیلتوں کو دیکھ لے، اس کے دل میں محبت ابھر آتی ہے؛ لیکن مؤخر الذکر معنیٰ، کہ وہ آپ کو دوست رکھے اور آپ سے محبت کرے، تو یہ [اس قصے کا] مشکل حصہ ہے۔

جو کچھ مداحوں اور ذاکرین کی مجلس کے لئے مناسب ہے، اسی بات کا کچھ حصہ ہے: فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اس شخص کو دوست رکھیں گی جو آپ کی ان خصوصیات کو اپنی زندگی میں نمونۂ عمل قرار دے۔ اور ان خصوصیات میں سے ایک "تبیین" (اور تشریحِ حقائق) ہے۔ سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے جس لمحے سے تبیین کا آغاز کیا، تو حقائق کو - تمام سامعین پر، اور ان تمام لوگوں پر جو نہیں جانتے تھے یا نہیں جانتے تھے اور تغافل کرتے تھے، یا جانتے تھے لیکن بھول گئے تھے، - جتا دیا، [اور انہیں یاد دلایا، سمجھایا اور بوجھایا] "تبیین" (و تشریح اور یاد دلانا اور سمجھانا) سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا اہم ترین کام ہے۔

"مداحی" (اور ذاکری) در حقیقت تبیین (اور تشریحِ حقائق کے سلسلے] میں سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی پیروی ہے۔ میں اس موقع پر کہتا چلوں کہ آج کی تقریب میں جو پروگرام ان حضرات نے پیش کئے، ان میں تبیین، تھی؛ یعنی انہوں نے جذبات کے اظہار اور اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حقائق [بھی] بیان کئے۔ حالات حاضرہ کے حقائق کی تبیین و تشریح کی۔

فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اپنی حیات میں حالات حاضرہ کے حقائق بیان کئے، یہ وہ مسائل تھے جو ان ہی دنوں میں پیش آئے تھے۔ حالات حاضرہ کے مسائل کی تشریح ایک بہت اہم فریضہ ہے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "اِنَّ المُؤْمِنَ یُجَاهِدُ بِنَفْسِهِ وَسَیفِهِ وَلِسَانِهِ؛ [6] مؤمن جہاد کرتا ہے، کبھی اپنی جان کی قربانی دے کر، یعنی محاذ جنگ جاکر؛ کبھی اپنی تلوار سے، یعنی اسلحہ استعمال کرتا ہے اور کبھی اپنی زبان سے؛ یعنی جِہاد بِالِلّسان، جو کہ جہاد کی ایک اہم قسم ہے اور بعض اوقات اس کا اثر جان سے جہاد (جہاد بالنفس) سے زیادہ ہوتا ہے، اور اس کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس کلام کا رخ اس اجتماع میں حآضر آپ مداح [و ذاکرین] برادران سے اور ملک بھر کے تمام مداح حضرات سے ہے: زبان سے جہاد (جِہاد بِالِلّسان)۔

اچھا تو اس جہاد کے وسائل آپ کے لئے دستیاب ہیں؛ آپ کے پاس ایک امتزاجی اور ترکیبی فن ہے۔ مداحی ایک امتزاجی فن ہے، اس میں قالب (اور سانچہ) بھی ہے اور محتویات (اور مضامین مافیہ) بھی۔ یہ دونوں فن کے زمرے میں آتے ہیں؛ لفظ بھی فن ہے معنی بھی فن ہے۔ یعنی یہاں متعدد فنون اکٹھے ہوئے ہیں اور انہوں نے مل کر مداحی کو جنم دیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ ہم مداحی کی قدر و قیمت جان لیں، ہم بھی مداحی کی قدر جانتے ہیں، خود [مداح و ذاکرین] بھی جان لیں۔ مداحی کئی فنون کا امتزاج ہے؛ آواز کا فن، سُرُوں کا فن، شاعری کا فن، اجتماع کے انتظام و انصرام کا فن، ـ جو بجائے خود بہت بڑا فن ہے ـ [اور] لوگوں سے روبرو ہونے کا فن۔ آپ ورچوئل اسپیس [اور سوشل میڈیا] پر لوگوں سے روبرو نہیں ہوتے؛ لیکن ایک حقیقی مجلس میں، حقیقی دنیا میں آپ لوگوں سے روبرو ہوکر بات کرتے ہیں، روبرو ہوجاتے ہیں؛ یہ بذات خود ایک اہم فن ہے۔ چنانچہ مداحی [اور ذاکری] ایک خالص اور ہمہ جہت ذریعۂ ابلاغ ہے؛ اور چونکہ یہ ایک ذریعۂ ابلاغ ہے چنانچہ یہ تبیین اور تشریح کا وسیلہ اور اوزار ہو سکتا ہے؛ تبیین کا بہت اہم اوزار۔

آج ہم تبیین کے محتاج ہیں۔ آج شک وشبہے کا بیج بونا دشمن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں، کچھ خبریں اعلانیہ ہیں جو آپ بھی دیکھتے ہیں اور کچھ خبریں اعلانیہ نہیں ہیں، جن سے ہم مطلع ہیں۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، پیسہ خرچ کرتے ہیں، اس لئے کہ ذہنوں کو [ورغلا کر] منحرف [اور گمراہ] کریں حقیقت سے۔ ان کا جواب کس کو دینا چاہئے؟ کون ہے جسے اس ٹیڑی لکیر کو سیدھا کرنا چاہئے؟ کون ہے جسے تبیین کا کام کرنا چاہئے؟ آپ ہی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس کار نمایاں کو سرانجام دے سکتے ہیں۔

اگر آپ کی مداحی (اور ذاکری) کا کام آگاہ کر دینے والا ہے ـ پہلے آگہی ـ اور پھر امید پیدا کرنے والا ہو، یعنی مایوس کن نہ ہو، اور یہ محرک (اور متحرک کرنے والا) بھی ہو، تو آپ نے ایک بنیادی اور بڑا کام سرانجام دیا ہے [اور بڑا مقصود حاصل کر لیا ہے] جبکہ یہ مقصود خطابت اور تبلیغ کے بہت سارے [دوسرے] اوزاروں [اور روشوں سے حاصل نہیں ہؤا کرتا۔

آپ جدوجہد کر سکتے ہیں [اور لڑ سکتے ہیں] دشمن کی طرف کی تخویف (خوف و ہراس پھیلانے اور Intimidation) کے خلاف [جبکہ] دشمن کا ایک اہم کام خوف و ہراس پھیلانا اور ڈرانا دھمکانا ہے ـ آپ دشمن کی طرف کی تفرقہ اندازی کا مقابلہ کر سکتے ہیں، دشمن کی طرف سے مایوسی پھیلانے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دیکھئے؛ یہ جو میں عرض کر رہا ہوں، ان میں سے ہر ایک، ایک بنیادی عنصر ہے؛ معاشرے کا احیاء، اور یہی کچھ جو آپ [مداحوں اور ذاکرین] نے یہاں بیان کیا: "ہم رکیں گے نہیں"، "ہم اسلام کے پرچم کو جولان پر لہرا کر رہیں گے"۔ "ہم شام کے حرم مطہر کا دفاع کرتے ہیں"، اور اس طرح کے دوسرے عناوین، ان ہی ان عناصر پر منحصر ہیں۔ یعنی دشمن کی طرف کی تخویف کا مقابلہ کرنا چاہئے، دشمن کی طرف سے ہونے والی تفرقہ اندازی سے نمٹنا چاہئے، دشمن کی طرف سے مایوسی اور ناامیدی پھیلانے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ دشمن کا بنیادی ہتھیار ڈرانا اور خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ آپ طاقتور ہیں، دشمن آپ کی کمزوریوں کی تشہیر کرتے ہیں تاکہ آپ کو ڈرا دیں۔ آپ کے ہاتھ بھرے [وسائل سے لیس ہیں، اور مضبوط] ہیں لیکن وہ تشہیر کرتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ خالی (اور آپ کمزور) ہیں کیونکہ وہ آپ کو ناامیدی اور مایوسی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ ان نکات پر توجہ رکھیں۔

غزوہ احد میں مسلمانوں کا نقصان ہؤا؛ سیدالشہداء حمزہ بن عبدالمطلب (علیہما السلام) جیسی ہستی کی شہادت ہوئی؛ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) جیسی شخصیت کا پورا جسم زخمی ہؤا؛ خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) زخمی ہوئے؛ بڑی تعداد میں لوگ شہید ہو گئے۔ مدینہ لوٹ کر آئے تو منافقین نے دیکھا کہ ماحول مناسب ہے تو انہوں نے وسوسے ڈالنا شروع کئے۔ [کہنے لگے:] "إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ؛ [7] (لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لئے بڑا لشکر جمع کیا ہے، ان سے ڈرو"۔) سب تمہارے خلاف متحد ہوگئے ہیں، ڈرو"۔ منافقین نے اس طرح کی باتیں کہنا شروع کر دیں۔ خدائے متعال نے اسی لئے وحی نازل فرمائی؛ قرآنی آیت میں ارشاد ہؤا: "إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ؛ [8] بے شک یہ تو شیطان ہے جو اپنے حوالی موالی (اور اپنے دوستوں) کو ڈراتا ہے"؛ ان سے نہ ڈرو۔ خدا کا مضبوط گھونسا منافقین کے منہ پر اترا۔ آج آپ کو یہی کہنا چاہئے: "إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ"؛ اصحاب ادب، اصحاب شعر سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچ لیں، اپنے دیکھنے اور سننے والوں کے لئے قابل قبول اور دل نشیں (دلکش) منطق تخلیق کریں شعر کے سانچے میں، مداحی کے انداز میں، اور اس کو اہل بیت (علیہم السلام) کی تعریف و تمجید اور مداحی [، نوحہ خوانی اور ذاکری] کے معتبر مقام پر، لوگوں کو منتقل کریں: "إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ"۔

رہبر انقلاب امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے خطاب کے دوسرے حصے کے اہم نکات:

- آج ہمارے دشمن معاشروں میں خوف و ہراس، اختلاف و انتشار اور ناامیدی پھیلانے میں مصروف ہيں۔

- شیطان کے پیروکاروں کی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ کامیابی محسوس کرتے ہیں، تو اپنا اختیار کھو ڈالتے ہیں وہ بھڑکیں مارنے اور جھوٹ بولنے اور پھیلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں ہیں اور ان سے نمٹنے کا راستہ "جہاد تبیین" (تشریح و توضیح کا جہاد)، حقائق کی تشریح اور قابل قبول منطق لوگوں کے سامنے رکھنا ہے۔

- حماس اور حزب اللہ کو نیست و نابود کرنے کے سلسلے میں غاصب صہیونی ریاست کا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے اور خطے کی اور آبرومند قومیں، اللہ کے فضل سے، منحوس ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گی اور خطے کے لئے بہتر اور زیادہ روشن مستقبل رقم کریں گی۔

- ایک بلوائی ٹولے نے نغیرملکی حکومتوں کی مدد، منصوبہ بندی اور نقشے کے مطابق، شام کی اندرونی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس ملک کو انارکی اور افراتفری سے دوچار کیا۔

- میں نے کچھ عرصہ قبل [9] کہا تھا کہ امریکہ یا تو "تسلط پسند طاقتوں سے سازو باز کرنے والی شخصی اور استبدادی حکومت" قائم کرکے اس پر تسلط جماتا ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس "ملک کو بلوؤں اور افراتفری" سے دوچار کرتا ہے اور آج امریکہ، صہیونی ریاست اور ان کے ساتھی ملک کامیابی کے احساس کے ساتھ، اصحاب شیطان کی طرح ڈینگیں مارنے اور شیخی بگھارنے میں مصرف ہو گئے ہیں۔

- ایک امریکی اہل کار نے ضمنی طور پر بیان کیا ہے کہ "جو بھی ایران میں بلوے شروع کر دے ہم [امریکی] اس کی مدد کریں گے"، جو کہ دشمنوں کی بھڑکوں کا ایک نمونہ ہے۔ گویا احمقوں کو کباب کی بو محسوس ہوئی ہے؛ یقینا ملت ایران ہر اس شخص کو ـ جس اس سلسلے میں امریکی گماشتگی اختیار کرے گا ـ اپنے قدموں تلے روند ڈالے گی۔

- آج صہیونی عنصر ـ خطے کے حالات کے پیش نظر ـ کامیابی کی اداکاری کرتے ہیں اور رجز خوانی اور مبالغہ آرائیوں میں مصروف ہیں۔ اے بدبختو! تم کہاں کامیاب ہوئے ہو؟! کیا یہ کامیابی ہے کہ تم نے چالیس ہزار سے زیادہ خواتین اور بچوں کو بم پھینک کر قتل کیا لیکن ابتدائے جنگ میں اپنے ہی اعلان کردہ ایک بھی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے؟ کیا تم نے حماس کو ختم کیا اور اپنے قیدیوں کو غزہ سے رہا کرایا؟ کیا سید حسن نصر اللہ جیسی عظیم شخصیت کو شہید کرکے تم حزب اللہ کے خاتمے میں کامیاب ہوئے ہو؟

- آج مقاومت ـ بشمول حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی ـ خطے میں زندہ اور پایندہ ہے اور مسلسل نمو پا رہی ہے۔  چنانچہ تم صہیونی کامیاب نہیں ہو بلکہ [بری طرح] شکست سے دوچار ہوچکے ہو۔

- تم صہیونی آج شام کی سرزمین میں پیشقدمی کر رہے ہو جس کا سبب یہ ہے کہ وہاں کوئی رکاوٹ، کوئی مزاحمت ـ حتی ایک سپاہی اور ایک بندوق بھی ـ تمہارے مد مقابل موجود نہیں ہے، چنانچہ تم صرف چند کلومیٹر تک شام میں پیشقدمی کر سکے ہو؛ یہ بلا روک ٹوک پیشقدمی، کامیابی نہیں ہے بلکہ یقینا شام کے غیور اور بہادر نوجوان تمہیں اپنی سرزمین سے مار بھگائیں گے۔

- خطے کے مسائل کے سلسلے میں ایک نکتہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف نفسیاتی اور تشہیری جنگ ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایران اس خطے میں اپنی نیابتی (پراکسی) فورس کھو چکا ہے۔

- بلا شبہہ اسلامی جمہوریہ کی کوئی نیابتی فورس نہيں ہے۔ ملک یمن اور حزب اللہ، حماس اور جہاد اسلامی جیسی فلسطینی تحریکیں لڑرہی ہیں اس لئے کہ وہ با ایمان ہیں اور عقیدہ اور ایمان کی طاقت انہیں میدان مقاومت میں لائی ہے۔ نہ یہ کہ وہ ہماری طرف سے نیابت رکھتی ہیں۔

- یہ مقاومتی قوتیں ہماری پراکسی نہیں ہیں۔ [کیونکہ] اسلامی جمہوریہ اگر کسی دن اقدام کرنا چاہے تو وہ "ہم پراکسی فورس کی محتاج نہیں ہے"؛ یمن، عراق، لبنان، فلسطین اور - ان شاء اللہ مستقبل قریب میں ـ شام کے غیور، مؤمن اور باعزت مرد ظلم و جرم اور منحوس اور مسلط کردہ صہیونی ریاست کے خلاف نبردآزما ہیں؛ اسلامی جمہوریہ بھی جدوجہد کر رہی ہے اور ہم [مل کر] اللہ کی مشیت سے، اس ریاست کو اس علاقے سے مٹا کر رکھیں گے۔

- جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، یہ ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ٹھوس اور تجربہ شدہ حقائق ہیں؛ سنہ 1980ع‍ کے عشرے کے بلوؤں اور خانہ جنگیوں سے حزب اللہ کا فولادی اور شرافت مند مجموعے نے جنم لیا۔ یعنی خطروں اور بدامنیوں کے قلب سے حزب اللہ جیسی عظیم فرصت (Opportunity) ابھر آئی اور اس کے سید عباس موسوی جیسے بزرگوں کی شہادت نے بھی ـ نہ صرف اسے کمزور نہیں کیا بلکہ ـ اسے زیادہ قوی اور طاقتور بنایا اور مقاومت کا آج اور کل بھی ایسا ہی ہوگا۔

- خطروں سے فرصتیں استخراج کرنا، ہوشیاری، احساس ذمہ داری اور فرائض پر عملدرآمد، پر منحصر ہے۔ اور یقینا خطے کا کل آج سے بہتر ہوگا۔ ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ ایک قوی اور شرافتمند مجموعہ شام میں بھی ابھر آئے گا کیونکہ آج شامی نوجوانوں کے پاس آج کھونے کے لئے کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ شامی نوجوانوں کی یونیورسٹی، اسکول، گھر اور ان کی سڑکیں غیر محفوظ ہیں؛ چنانچہ یقینا اس کو پوری طاقت اور عزم و ارادے کے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور اس بدامنی کے منصوبہ سازوں اور نافذ کرنے والوں کے مقابلے کے لئے اٹھنا چاہئے اور ان شاء اللہ ان پر غلبہ پائیں گے۔ اور اللہ کے فضل سے،  خطے کا کل آج سے بہتر ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔

110

حوالہ جات:

[1]۔ سورہ تحریم، آیت 11

[2]۔ سورہ تحریم، آیت 12۔

[3]۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)، ج3، ص323؛ السیوطی، جلال الدین، عبدالرحمن بن ابی بکر الشافعی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، ج2، ص23۔

[4]۔ سورہ سباء، آیت 46۔

[5]۔ الخوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین (علیه السّلام)، ج1، ص100۔)

[6]۔ المتقی الہندی، علی بن عبدالملک حسام الدین، کنز العمّال في سنن الأقوال والأفعال، ج4، ص357، ح10885؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج15، ص383۔

[7]۔ سورہ آل عمران، آیت 173۔

[8]۔ سورہ آل عمران، آیت 175۔

[9]۔ ملک بھر کے بسیجیوں سے خطاب، مورخہ 25 نومبر 2024ع‍