اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

4 اکتوبر 2024

11:45:18 AM
1491472

إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنتَقِمُونَ، وعدہ صادق-2؛

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا اقدام، جائز اور قانونی تھا / زخمی اور خون آلود لبنان کا قرض ادا کرنا، ہمارا فریضہ ہے، امام خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہماری مسلح افواج کا شاندار اقدام، مکمل طور پر جائز اور قانونی تھا، لبنانی عوام نے غزہ کا دفاع کیا اور یہ بھی ایک جائز اور قانونی اقدام ہے۔

پہلا خطبہ

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسلامی انقلاب کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے تہران میں نماز جمعہ کے عظیم سیاسی اور عبادی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کی اتحاد و یکجہتی کو اللہ کی رحمت و عزت سے بہرہ ور ہونے اور دشمنوں پر فتح مندی کا باعث قرار دیا اور فرمایا: اسلام کے دفاعی احکام، اسلامی جمہوریہ کے قانونِ اساسی (آئین) اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے، خونخوار صہیونی ریاست کے خلاف ایران کی مسلح افواج کی شاندار کاروائی (وعدہ صادق-2) مکمل طور پر قانونی اور جائز تھی اور اسلامی جمہوریہ ایران، اس حوالے سے، جو بھی ذمہ داری محسوس کرے گا، تاخیر اور عجلت زدگی کے بغیر، پوری طاقت، شجاعت اور عزم کے ساتھ، فیصلہ کن انداز سے، سرانجام دے گا۔

نماز جمعہ کے اس اجتماع میں لوگوں کی آمد  صبح چھ بجے سے شروع ہو چکی تھی، تہران کے مؤمن، انقلابی اور فرض شناس عوام تہران کی مصلیٰ امام خمینی (رح) اور اطراف میں کئی کلومیٹر فاصلے تک جمع ہو چکے تھے۔ اسلامی انقلاب کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے ملینز نمازیوں کے اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مجاہد شہید سید حسن نصراللہ کو عالم اسلام کے لئے باعث فخر اور ہردلعزیز شخصیت ہیں، مقاومت کے اس علمبردار اور مظلوموں کے بہادر حامی و مدافع کی اثرآفرینی میں، ان کی شہادت کے بعد، مزید اضافہ ہوگا اور خطے کی اقوام اور اللہ کے راستے کے مجاہدین ان کے ـ یعنی زیادہ سے زیادہ ایمان و توکل، زیادہ مستحکم اتحاد و یکجہتی اور صہیونی دشمن کی شکست اور نابودی تک جہاد کو زیادہ قوت سے اور شک و تذبذب کے بغیر جاری رکھنے پر مشتمل ـ پیغام کی پیروی کریں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے "مسلمانوں کی یکجہتی" کی الٰہی اور قرآنی پالیسی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: مسلمانوں کی ولایت، جس کے معنی پیوستگی، ہَم گَدازی اور تعاون پروردگار کی عزتمندانہ اور حکیمانہ مدد و نصرت کا سبب ہوگا جس کا نتیجہ رکاوٹوں اور مشکلات پر غلبپ اور دشمنوں پر فتح یابی کی صورت میں برآمد ہوگا۔

آپ نے فرمایا: اس الٰہی پالیسی کے مد مقابل دنیا کے مستکبرین اور جارحین کی تفرقہ انگیز پالیسی ہے۔ امت مسلمہ نے  مستکبرین کی "اختلاف ڈالو اور حکومت کرو" (Divide and Rule) کی پالیسی سے عظیم نقصان اٹھایا ہے لیکن آج کا دن مسلمانوں کی بیداری کا دن ہے اور اس منحوس پالیسی کو دہرائے جانے کی اجازت نہیں دینا چاہئے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے تفرقہ انگیزی کی غرض سے دشمنوں کی مختلف عسکری، اقتصادی، سیاسی، معاشتی اور ثقافتی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملت ایران کا دشمن وہی ہے جو ملت فلسطین، لبنان، مصر، شام، عراق، یمن اور دوسرے اسلامی ممالک کے کا بھی دشمن ہے اور ان سارے ممالک پر یلغار اور تفرقہ انگیزی کے احکامات ایک ہی کمانڈ روم سے جاری ہوتے ہیں اور فرق صرف یہ ہے کہ وہ مختلف اسلامی ملکوں میں مختلف روشوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔

رہبر انقلاب نے فرمایا: جو بھی قوم دشمن کے مفلوج کن محاصرے اور ناکہ بندی سے دوچار نہیں ہونا چاہتی، اسے بیدار اور ہوشیار ہونا چاہئے، اور جب بھی دشمن ایک قوم پر حملہ کرتا ہے، اس قوم کی مدد کرے ورنہ اس کی اپنی باری بھی آئے گی۔

آپ نے فرمایا: ہمیں افغانستان سے یمن تک اور ایران سے لے کر غزہ اور لبنان تک تمام اسلامی ممالک میں دفاع، آزادی و خودمختاری اور عزت و عظمت کے جصول کے لئے مستعد اور کمربستہ ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے وطن، گھر اور مفادات کے تحفظ کے قانونی جواز اور معقولیت کے سلسلے ميں اسلام کے احکامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ کے قانونِ اساسی (آئین)، نیز بین الاقوامی قوانین کے مطابق، فلسطینی قوم سمیت، حملہ آوروں اور جارحین کے مقابلے میں، قوموں کا [ذاتی، ملکی اور قومی] دفاع بالکل جائز اور مستحکم منطق پر استوار ہے اور کسی شخص اور کسی بھی عالمی مرکز یا ادارے کو اس پر تنقید و احتجاج کا حق نہیں ہے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے اسلام، عقل اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے قابض اور غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والی قوم کی امداد کے (شرعی اور قانونی) جواز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے زیر قبضہ اقوام کی حمایت جائز ہے، چنانچہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ حزب اللہ کو صرف اس لئے تنقید کا نشانہ بنا دے کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام اور فلسطینی قوم کے قیام کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے آپریشن طوفان الاقصیٰ [کی سالگرہ کے موقع پر]، جو گذشتہ سال ان ہی دنوں انجام پایا، کو ایک صحیح، منطقی اور بین الاقوامی قوانین اور فلسطینی قوم کے حقوق پر مبنی قرار دیتے ہوئے لبنانیوں کی طرف سے فلسطینی عوام کے ہمہ جہت دفاع کو خراج تحسین پیش کیا۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے اسی اساس پرغاصب صہیونی ریاست کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی حالیہ شاندار کاروائی کو مکمل طور پر جائز اور قانونی قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس خونخوار، بھیڑیے نما اورخطے میں امریکیوں کے پاگل کتے کے حیران کن جرائم کے مقابلے میں، غاصب صہیونی ریاست کے خلاف ہماری مسلح افواج کا یہ اقدام، سب سے کم سزا ہے۔

آپ نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ اس مسئلے میں اپنے کسی بھی فریضے پر طاقت اور دلیری سے فیصلہ کن انداز سے، عمل کرے گا، اور فرمایا: اور اسلامی جمہوریہ ایران، اس حوالے سے، جو بھی ذمہ داری محسوس کرے گا، تاخیر اور عجلت زدگی کے بغیر، پوری طاقت، شجاعت اور عزم کے ساتھ، فیصلہ کن انداز سے، سرانجام دے گا۔ جو عمل معقول، منطقی اور درست ہے، فوجی اور سیاسی فیصلہ سازوں کی رائے کے مطابق، اپنے وقت پر انجام پائے گا جیسا کہ یہی کچھ ہؤا اور مستقبل میں بھی اگر ضروری ہؤا تو انجام پائے گا۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کا دوسرا (عربی) خطبہ:

- ہم سب سید عزیز کی شہادت کی وجہ سے سوگوار ہیں، یہ بہت بڑا نقصان ہے جس نے ہمیں حقیقتاً مصیبت زدہ اور سوگوار کر دیا۔ گوکہ ہماری یہ سوگواری کا مطلب یہ نہیں ہیں کہ ہم اداس، افسردہ اور مایوس ہیں، اس سوگواری کی نوعیت سیدالشہداء حسین بن علی (علیہ السلام) کے لئے سوگواری جیسی ہے، جو زندہ کرتی ہے، سبق سکھاتی ہے، حوصلہ افزا ہے اور امید پیدا کرتی ہے۔

- سید حسن نصر اللہ کا جسم ہم سے جدا ہو گیا ہے لیکن ان کی حقیقی شخصیت، ان کی روح، ان کا راستہ، ان کا مشن اور اور ان کی وقیع اور فصیح آواز بدستور ہمارے درمیان ہے اور وہ ہمارے درمیان موجود رہیں گے۔ وہ ظالم و ستمگر شیطانوں کے سامنے مقاومت و مزاحمت کا لہراتا ہؤا پرچم تھے؛ مظلومین کی بولتی زبان اور بہادر محافظ و مدافع تھے؛ وہ مجاہدین اور حق پرستوں کے لئے حوصلے اور ہمت و جرات کا سرمایہ تھے؛ ان کی مقبولیت اور اثر و رسوخ کا دائرہ لبنان، ایران اور عرب ممالک سے آگے پھیل چکا تھا۔

- دنیاوی زندگی میں، سید حسن نصراللہ کا اہم ترین کلامی اور عملی پیغام آپ وفادار لبنانی قوم کے لئے یہ تھا کہ امام موسیٰ صدر، سید عباس موسوی اور دوسرے بزرگوں جیسی نمایاں شخصیات سے محروم ہونے کے باوجود، مایوس اور پریشان نہ ہوں؛ جدوجہد کے دوران تذبذب کا شکار نہ ہوں؛ اپنی جدوجہد کا دائرہ کو پھیلا دیں اور اپنی طاقت میں اضافہ کریں؛ باہمی تعاون کو فروغ دیں؛ غاصب اور جارح دشمن کے سامنے، اپنے ایمان اور توکل کو تقویت پہنچا کر، استقامت اور ثابت قدمی سے کام لیں اور اس کو ناکام بنا دیں۔

میرے عزیزو! لبنان کی ملت با وفا! حزب اللہ اور امل کے پرجوش نوجوانو! میرے فرزندو! آج بھی ہمارے سیدِ شہید اپنی ملت اور محور مقاومت (محاذ مزاحمت) اور پوری امت مسلمہ سے یہی چاہتے ہیں۔

- چونکہ پلید اور گھٹیا دشمن حزب اللہ یا حماس یا جہاد اسلامی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے ولی دوسری تنظیموں کے مستحکم تنظیمی ڈھانچے کو فیصلہ کن نقصان پہنچانے سے بالکل عاجز ہے، چنانء وہ دہشت گردی، تباہ کاری، بمباری اور عام نہتے شہریوں کے قتل عام اور غیر مسلح افراد کو سوگوار کرنے جیسے غیرانسانی اعمال کو اپنی کامیابی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس درندگی اور خونخواری اور ظلم و ستم کا نتیجہ کیا ہے؟ اس برتاؤ کا نتیجہ لوگوں کے غیظ و غضب کے جماؤ اور تہہ در تہہ (Density) ہونے، اور عوام کے حوصلوں میں اضافہ ہونے، اور زیادہ سے زیادہ عظیم جوانمردوں، کمانڈروں، قائدین اور جان سے گذرنے والی شخصیات کے ابھرنے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، خونخوار بھیڑیئے کا محاصرہ تنگ سے تنگ تر ہوجاتا ہے اور آخرکار اس کا شرمناک وجود میدان سے مٹ کر رہ جاتا ہے۔ ان شاء اللہ

- عزیزو! دکھی دلوں کو اللہ کی یاد اور اسی سے مدد و نصرت مانگ کر ہی، سکون ملتا ہے، اور آپ کا صبر و استقامت عزت و وقار اور سربلندی کا سبب بنتی ہے۔

سید عزیز، 30 سال کے عرصے سے ایک دشوار جدوجہد کی چوٹی پر تھے؛ انھوں نے حزب اللہ کو قدم بقدم اوپر اٹھایا۔۔۔ سید کی تدبیر و انتظام سے، حزب اللہ نے مرحلہ بمرحلہ اور صبر و استقامت اور منطقی اور فطری انداز سے نشوونما پائی اور مختلف النوع مواقع پر اپنے ذاتی اثرات کو ـ غاصب ریاست کو پسپائی پر مجبور کرکے ـ  دشمن سے منوا لیا۔ "تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا؛ جو اپنا میوہ ہر زمانہ میں دیتا ہو اپنے پروردگار کے حکم سے"۔ (سورہ ابراہیم ـ 25) یقینا حزب اللہ "شجرہ طیبہ" ہے۔

- حزب اللہ اور اس کے بہادر اور شہید قائد، لبنان کی تاریخ اور شناخت کا نچوڑ ہیں۔ ہم ایرانی ماضی بعید سے، لبنان اور اس کے اثاثوں سے واقفیت رکھتے ہیں؛ [شہید اول] شہید محمد بن مکی العاملی، علی بن عبدالعال الکَرَکی، [شہید ثانی] شہید زین الدین العاملی، حسین بن عبدالصمد العاملی اور ان کے فرزند محمد بہاء الدین العاملی ـ المعروف بہ شیخ بہائی ـ اور ان کے علاوہ دوسری علمی اور دینی شخصیات نے آٹھویں صدی ہجری میں "سربِداران کی حکومت" اور دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں "صفوی حکومت" کے دور میں ایران کو اپنی بے پناہ علم و دانش کی برکتوں سے مالا مالا کیا۔

- زخمی اور خون آلود لبنان کا قرض ادا کرنا، ہمارا اور تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے۔ حزب اللہ اور سید شہید نے غزہ کا دفاع کیا اور مسجدالاقصیٰ کے لئے جہاد کیا اور غاصب و ظالم ریاست پر ضربیں لگا کر پورے خطے اور عالم اسلام کی بنیادی خدمت کی راہ میں قدم اٹھایا۔

- امریکہ اور اس کے شرکاء نے غاصب ریاست کی سلامتی کے تحفظ کا سہارا لیا ہے جو درحقیقت ایک اوزار ہے اس تباہ کن پالیسی کے لئے کہ اس ریاست کو آلہ کار بنا کر اس علاقے کے تمام وسائل پر قابض ہوجائیں اور ان وسائل کو بڑے عالمی تنازعات میں استعمال کریں۔ ان کی پالیسی یہ ہے کہ غاصب ریاست کو خطے کی توانائی کو مغربی دنیا میں برآمد کرنے اور مغربی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کے خطے میں درآمد کرنے کا دروازہ بنا دیں؛ یہ پالیسی غاصب ریاست کے وجود کے تحفظ اور پورے خطے کو اس ریاست سے وابستہ کرنے کی ضمانت ہے۔ مجاہدین کے خلاف غاصب ریاست کا سفاکانہ اور گستاخانہ برتاؤ بھی اس قسم کی صورت حال کے معرض وجود میں آنے کی مغربی لالچ سے جنم لیتا ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھا دیتی ہے کہ ہر وہ ضرب جو صہیونی ریاست پر ـ خواہ کسی بھی شخص یا کسی بھی مجموعے کی طرف سے بھی ہو ـ پورے خطے اور پوری انسانیت کی خدمت ہے۔ یقینا یہ صہیونی اور امریکہ سپنا، ایک خیال باطل اور ناقابل تعبیر ہے۔ غاصب ریاست روئے زمین سے اکھڑا ہؤا شجرہ خبیثہ ہے جس کو ـ اللہ کے کلام صدق کے مطابق، ـ زمین کوئی چین و سکون نصیب نہیں ہوتا۔

- غاصب ریاست نے محض امریکی امداد سے، بمشکل خود کر پاؤں پر کھڑا رکھا ہے؛ اور یہ سلسلہ بھی طویل عرصے تک نہیں چل سکے گا، بإذن الله. اس مدعا کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے کہ دشمن نے غزہ اور لبنان میں کئی ارب ڈالر خرچ کرنے اور امریکہ اور چند مغربی ممالک کی ہمہ جہت امداد  کے باوجود، صرف چند ہزار ایسے مجاہدین فی سبیل اللہ کے آگے شکست کھائی ہوئی ہے جو ہر طرف سے محصور ہیں اور باہر سے ان کو کچھ بھی ملنے کا امکان نہیں ہے؛ اور اس [غاصب ریاست] کا پورا ہنر گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، نہتے انسانوں کے رہائشی علاقوں پر بمباری ہے!

- یہ خبیث ریاست، بے جڑ، مصنوعی اور غیر مستحکم ہے؛ اور اس نے محض امریکی امداد سے، بمشکل خود کر پاؤں پر کھڑا رکھا ہے؛ اور یہ سلسلہ بھی طویل عرصے تک نہیں چل سکے گا؛ بإذن الله۔۔۔ آج جرائم پیشہ [صہیونی] ٹولہ خود بھی ـ رفتہ رفتہ ـ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ [صہیون مجرم] کبھی بھی حماس اور حزب اللہ پر غلبہ نہیں پاسکیں گے۔

- لبنان اور فلسطین کے ثابت قدم قومو! بہادر مجاہدو اور صابر، با استقامت اور حق شناس قومو! یہ شہادتیں، یہ زمین پر گرا ہؤا خون آپ کی تحریک کو سست نہیں کرتا بلکہ اس کو مزید طاقتور اور مستحکم بنا دیتا ہے۔ اسلامی ایران میں، ایک سال (سنہ 1981ع‍ کے) موسم گرما کے تین مہینوں کے دوران ہمارے دسوں نمایاں اور ممتاز شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا، جن میں سید محمد بہشتی جیسی عظیم انسان بھی شامل تھے، ان میں سے ایک صدر محمد علی رجائی اور ایک وزیر اعظم محمد جواد باہنر جیسے بزرگ تھے، اور ان میں آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی، آیت اللہ قدوسی اور جناب ہاشمی نژاد جیسے علماء اور ان جیسے دوسرے افراد بھی شامل تھے۔ یہ سب ہی لوگ قومی یا پھر مقامی سطح پر انقلاب کے ستون سمجھے جاتے تھے اور ان کا رخصت ہونا ہمارے لئے آسان نہیں تھا؛ لیکن انقلاب رکا نہیں، پسپا نہیں ہؤا، بلکہ اس کی رفتار تیز تر ہو گئی۔

- خطے میں [تحریک] مقاومت ان شہادتوں سے پسپا نہیں ہوگی اور فاتح و کامران ہوگی۔ مقاومت نے غزہ میں دنیا کو مسحور کر لیا اور اسلام کو عزت بخشی۔ غزہ میں، اسلام تمام تر شر اور پلیدی کے تمام مظاہر کے سامنے سینہ سپر ہؤا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی کوئی بھی حریت پسند انسان ایسا نہیں ہے جس نے اس ثابت قدمی اور استقامت پر درود نہ بھیجا ہو اور اس کے سفاک اور خونخوار دشمن لعنت نہ بھیجی ہو۔

بہت اہم نکتہ

- طوفان الاقصیٰ اور غزہ اور لبنان کی ایک سالہ مقاومت و استقامت نے غاصب صہیونی ریاست کو اس نقطے پر پہنچایا کہ آج اس کی تمام تر فکرمندی اس کے وجود کا تحفظ ہے۔ یہ وہی فکرمندی ہے جو اس ریاست کو اس کے منحوس وجود کی پیدائش کے پہلے برسوں میں لاحق تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فلسطین اور لبنان کے مجاہد مَردوں کی مجاہدت و مقاومت نے صہیونی ریاست کو 70 سال پیچھے پلٹا دیا ہے۔ [یعنی یہ ریاست ابھی تک 70 سال قبل کے ابتدائی مرحلے میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے]۔

- خطے میں جنگ، بدامنی اور پسماندگی اصل سبب "صہیونی ریاست کا وجود" اور ان حکومتوں کی موجودگی ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ گویا خطے میں امن و سکون کا ماحول قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں! خطے کا سب سے بڑا مسئلہ "اجنبیوں کی مداخلت" ہے۔ حالانکہ اس خطے کی حکومتیں خود اپنے علاقے میں امن اور سلامتی قائم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس عظیم اور نجات بخش مقصد کے حصول کے لئے تمام "اقوام" اور "حکومتوں" کی کوشش ور جدوجہد کی ضرورت ہے۔

- [امن و سلامتی کے قیام کی] اس راہ میں، خدائے متعال اس راہ پر گامزن لوگوں کے ساتھ ہے؛ "وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصۡرِهِمۡ لَقَدِيرٌ؛ اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے"۔ (سورہ حج-39)

اللہ کا سلام ہو شہید سید حسن نصر اللہ پر

اللہ کا سلام ہے شہید سورما اسماعیل ہنیہ پر

اور اللہ کا سلام ہو قابل فخر کمانڈر، شہید لیفٹیننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی پر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110