اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
امام
حسین (علیہ السلام) والی مدینہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہيں: "یقینا ہم خاندان
نبوت اور معدن رسالت ہیں ہیں اور ہم فرشتوں کی آمد و رفت کے اعلیٰ مقام پر فائز
ہیں۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و گنہگار اور شرابخوار شخص ہے، جو محترم انسانوں کا قاتل
ہے، فسق و گناہ کا اعلانیہ ارتکاب کرنے والا ہے، اور مجھ جیسا اس [یزید] جیسے کے
ساتھ بیعت نہیں کیا کرتا"۔
امام حسین (علیہ السلام) ائمۂ معصومین (علیہم السلام) میں سے ایک اور تیسرے امام معصوم ہیں؛ جب دشمن کے خلاف جدوجہد کے میدان میں آتے ہیں، تو آپؑ کا پیغام استقامت تمام انسانوں کو متحرک کرتا ہے اور چونکہ اسلام کو آپؑ کی جان نثاری کی ضرورت ہے چنانچہ آپؑ کا پیغام صبر و جہاد کا پیغام دنیا کے تمام لوگوں کے لئے نمونۂ عمل اور سرچشمۂ ہدایت قرار پاتا ہے۔
امام حسین بن امیرالمؤمنین (علیہما السلام) کے کلام میں مزاحمت و استقامت کا پیغام دوسرے پیغاموں سے زیادہ نمایاں ہے؛ اور آپؑ کا یہ کلام نثر اور نظم میں منقول ملتا ہے؛ اور فطری امر ہے کہ مولا حسینؑ کا استنصار اور استغاثہ مسلمانوں کی ذمہ داریوں کو دو چند کر دیتا ہے۔
عاشورا کا پیغام مقاومت
مدینہ پر متعین یزیدی گورنر ولید بن عتبہ نے مرگ معاویہ کے بعد امام حسین (علیہ السلام) سے یزید کے لئے بیعت مانگی تو آپؑ نے جوابا، ارشاد فرمایا:
"إِنَّا أَهْلُ بَيتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسالَةِ، وَمُخْتَلِفُ الْمَلائِكَةِ... وَيَزيدُ رَجُلٌ فاسِقٌ شارِبُ الْخَمْرِ، قاتِلُ النَّفْسِ المُحَرَّمَةِ، مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ وَمِثْلِي لا يُبايِعُ لِمِثْلِهِ [أو وَمِثْلِي لا يُبايِعُ مِثْلَهُ]؛ [1]
یقینا ہم خاندان نبوت اور معدن رسالت ہیں ہیں اور ہم فرشتوں کی آمد و رفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و گنہگار اور شرابخوار شخص ہے، جو محترم انسانوں کا قاتل ہے، فسق و گناہ کا اعلانیہ ارتکاب کرنے والا ہے، اور مجھ جیسا اس [یزید] جیسے کے ساتھ بیعت نہیں کیا کرتا"۔
اس جملے میں ایک طرف سے یزید کی برائیاں بیان ہوئی ہیں اور دوسری طرف سے امام حسین (علیہ السلام) کی استقامت کا ثبوت بھی پیش کیا گیا ہے جو برائی، بدعنوانی، فساد اور اسلام دشمنی کے مقابلے میں فرماتے ہیں: "وَمِثْلِي لا يُبايِعُ مِثْلَهُ" یعنی نہ صرف میں یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کروں گا بلکہ آنے والی تاریخ میں ایسے لوگ کم نہیں ہونگے جو یزید جیسوں کے ساتھ بیعت نہیں کریں گے"۔
2- ہم ذلت کا راستہ اختیار نہیں کرتے
امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"وَهَيهَاتَ مِنَّا أَخذَ الدَّنِيَّةِ؛ [2]
پستی اور ذلت کا راستہ اختیار کرنا، ہم سے بعید ہے"۔
موفق بن احمد الخوارزمی لکھتے لکھتے ہیں کہ امام حسین (علیہ السلام) نے یہ جملہ عاشورا کے دن یزیدی اشقیاء سے مخاطب ہوکر فرمایا۔
3. امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: میں کسی صورت میں بھی یزید کے ساتھ بیعت نہیں کووں گا۔
بھائی محمد بن حنفیہ نے امام مشورہ دیا کہ "آپ ایک خاص اور متعین شہر میں قیام نہ کریں، اور اپنے بچوں کے ہمراہ کسی دورافتادہ علاقے میں قیام کریں اور وہاں سے اپنے نمائندوں کو مختلف شہروں کی طرف روانہ کریں؛ اگر لوگوں نے آپ سے بیعت کی تو خدا کا شکر کریں اور لوگوں نے دوسروں کی بیعت کو ترجیح دی تو پھر بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا! تو امام حسین (علیہ السلام) نے ان سے مخاطب ہوکر یزید کے ساتھ بیعت کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فرمایا:
"يَا أَخِي! وَاللهِ لَوْ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا مَلْجَأٌ وَلَا مَأْوَى، لَمَا بايَعْتُ يَزيدَ بْنَ مُعاوِيَةَ؛ [3]
اے میرے بھائی! اللہ کی قسم! اگر مجھے دنیا میں کہیں بھی کوئی پرامن پناہ گاہ اور ملجأ ومأویٰ نہ ملے پھر بھی یزید بن معاویہ کے ساتھ بیعت نہیں کروں گا"۔
4۔ ظالموں کے ساتھ جینے کو ذلت کے سوا کچھ نہيں سمجھتا
"أَلَا تَرَوْنَ أنَّ الْحَقَّ لَا يُعْمَلُ بِهِ وَأنَّ البَاطِلَ لَا يُتَناهَى عَنْهُ لِيَرْغَبَ المُؤْمِنُ فِي لِقَاءِ اللّهِ مُحِقّاً فَإِنِّي لَا أَرَى المَوْتَ إلَّا شَهَادَةً وَلَا الحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إلَّا بَرَماً؛ [4]
کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہوتا، اور باطل سے باز نہیں نہیں رہا جاتا؟ مؤمن انسان یقینا لقاء اللہ کا مشتاق ہے؛ میں موت کو سعادت اور خوش بختی ہی سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ جینے کو ذلت ہی سمجھتا ہو"۔
یہ جملہ امام حسین (علیہ السلام) کے دو محرم سنہ 60ھ کے خطاب سے اقتباس ہے جب آپؑ سرزمین کربلا میں داخل ہوئے تھے۔
5۔ میں ذلیلوں جیسی بیعت نہیں کروں اور غلاموں جیسا فرار نہیں ہونگا
امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"وَاللهَ لَا أُعْطِيهِمْ بِيَدِي إِعْطَاءَ الذَّلِيلِ وَلَا أَفِرُّ فِرَارَ الْعَبِيدِ؛ [5]
خدا کی قسم! میں ذلت کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں نہیں دونگا اور غلاموں کی مانند بھاگوں گا نہیں"۔
یہ امام حسین (علیہ السلام) کے روز عاشورا کے دوران ایک خطبے سے اقتباس ہے۔
6۔ دور ہو ہم سے ذلت
"ألَا إنَّ الدَّعيَّ بْنَ الدَّعيّ قَدْ رَكَزَ بَينَ اثنَتَينِ بَينَ السِّلّةِ وَالذِّلَّةِ وَهَيْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّةُ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ لَنَا وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَحُجُورٌ طَابَتْ وَطَهُرَتْ وَأُنُوفٌ حَمِيَّةٌ وَنُفُوسٌ أَبِيَّةٌ مِنْ أَنْ نُؤْثِرَ طَاعَةُ اَللِّئَامِ عَلَى مَصَارِعِ الْكِرَامِ ألَا إنِّي زَاحِفٌ بِهَذِهِ الأُسْرَةِ مَعَ قِلَّة العَدَدِ وَخَذلَانِ النَّاصِرِ؛ [6]
جان لو کہ یہ بے باپ کا بیٹا، ناپاک ابن ناپاک، [عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ!] نے مجھے دو چیزوں کے درمیان مقید کر رکھا ہے: تلوار اور ذلت [یعنی شہادت پانا یا پھر ذلت قبول کرنا] اور بعید رہے ہم سے ذلت؛ خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مؤمنین، اور پاک و پاکیزہ دامن، جنہوں نے ہمیں پروان چڑھایا ہے، اور غیرت و حمیت والے سر، اور استوار ہونے والی جانیں، جو کبھی بھی ظلم و ذلت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں، ہمارے لئے ذلت و خواری پسند نہیں کرتی ہیں کہ ہم پست فطرتوں اور بد سیرتوں کی اطاعت کو کریموں، بزرگوں کے مقتل پر ترجیح دیں [اور ذلت بھری زندگی کو عزت کی موت پر مقدم رکھیں]؛ اور جان لو کہ میں اسی خاندان کے ہمراہ، ساتھیوں کی قلت اور اصحاب کے تنہا چھوڑنے کے باوجود، تم سے لڑنے کے لئے تیار ہوں"۔
مذکورہ جملے عاشورا کے دن امام حسین (علیہ السلام) کے دوسرے خطبے سے اقتباس ہیں۔
مذکورہ جملے عاشورا کے دن امام حسین (علیہ السلام) کے دوسرے خطبے سے اقتباس
ہیں۔
7۔ خون میں رنگے چہرے کے ساتھ لقاء اللہ منظور، بیعت نامنظور
امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"وَاللَّهِ لَا اُجِيبُهُمْ إِلَى شَيْءٍ مِمَّا يُرِيدُونَهُ أَبَداً حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ وَأَنَا مُخَضَّبٌ بِدَمِي؛ [7]
اللہ کی قسم میں کبھی بھی ان کی مرضی کی کسی چیز کی استجابت نہیں کروں گا [اور اسے قبول نہیں کروں گا] حتیٰ میں اپنے خون میں لت پت ہوکر، اللہ کا دیدار کر دوں"۔
یہ جملہ امام حسین (علیہ السلام) نے اس وقت ادا کیا جب جنگِ مَغلوبہ چھڑ گئی اور آپؑ کے کئی اصحاب نے جام شہادت نوش کیا اور آپؑ بقیہ اصحاب کا حوصلہ بڑھا رہے تھے اور اپنے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے انہیں تسلی دے رہے تھے۔
8۔ یہ مصیبت آسان ہے مجھ پر کیونکہ خدا دیکھ رہا ہے
مورع بن سوید عینی شاہد کے طور پر نقل کرتا ہے:
"كَانَ مَعَهُ اِبْنُهُ الصَّغِيرُ فَجَاءَ سَهْمٌ فَوَقَعَ فِي نَحْرِهِ قالَ فَجَعَلَ الحُسَينُ ياخُذُ الدَّمَ مِن نَحْرِهِ ولَبْتُهُ فَيَرْمِي بِهِ الى السَّماءِ فَمَا يَرْجِعُ مِنهُ شَيْءٌ وَيَقولُ اللَّهُمَّ لا يَكُونُ أهْوَنَ عَلَيْكَ مِن فَصِيلٍ (نَاقَةِ صَالِحٍ)؛ [8]
امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ آپؑ کا چھوٹا فرزند تھا، ایک تیر طفل کے گلے کو لگا تو آپؑ اس کے گلے اور گردن سے خون ہاتھ میں لے کر آسمان کی طرف پھینک رہے تھے اور اس خون میں سے کچھ بھی زمین پر واپس نہیں آ رہا تھا؛ اور اسی حال میں آپؑ بارگاہ پروردگار میں عرض کیا: اے میرے معبود! میرے اس فرزند کا مقام تیری بارگاہ میں صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کے بچے سے کم نہیں ہے"۔
مذکورہ جملہ اعیان الشیعہ، العوالم اور دوسری تاریخی کتب میں بھی منقول ہیں۔
9۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے
امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَوْتٌ في عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ حَيَاةٍ فِي ذُلٍّ؛
عزت کی موت بہتر ہے ذلت کی زندگی سے۔"
اور پھر کچھ اشعار کہے جن میں سے ایک شعر مندرجہ
ذیل ہے:
اَلمَوْتُ أَولَى مِنْ رُكُوبِ الْعَارِ *** وَالعَارُ أَوْلَى مِنْ دُخُولِ النَّارِ [9]
موت بہتر ذلت و عار قبول کرنے سے
اور عار بہتر ہے دوزخ کی آگ میں داخل ہونے سے
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1]۔ الکوفی، أبو محمد أحمد بن أعثم الکندی، الفتوح، ج5، ص15؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص325۔
[2]۔ الخوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، ج2، ص9۔
[3]. الکوفی، أبو محمد أحمد بن أعثم الکندی، الفتوح، ج5، ص31؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص329۔
[4]۔ سید بن طاؤس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص69-70؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ج44، ص381۔
[5]۔ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ج45، ص7۔
[6]۔ سید بن طاؤس، اللہوف علیٰ قتلی الطفوف، ص97؛ ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول، ص171؛ الخوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسين، ج2، ص8-9) الطبرسی، ابومنصور احمد بن علی بن ابی طالب،الاحتجاج، ج2، ص99)۔
[7]. الحسینی الموسوی الکرکی، محمد بن أبی طالب، تسلیۃ المجالس وزینۃ المجالس، ج2، ص279.
[8]۔ الإصفہانی، ابُوالفَرَج علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، ص60؛ سید بن طاؤس، اللہوف، ص50؛ سید بن طاؤس کی روایت کچھ یوں ہے: هون على ما نزل بي أنه بعين الله؛ آسان ہے مجھ پر یہ واقعہ جو اللہ کے سامنے رونما ہؤا ہے؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص46۔
[9]۔ شوشتری، قاضی سید نوراللہ بن شریف الدین مرعشی، احقاق الحق وازہاق الباطل، ج11، ص633؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص192۔
۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110
