اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

15 جولائی 2024

3:25:03 PM
1472221

کلام معصومین علیہم السلام؛

دنیا کے بارے میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کی چالیس حدیثیں

حضرت امیر (علیہ السلام) نے فرمایا: "دنیا سے اتنا ہی لے لو جتنا کہ وہ تمہیں دیتی ہے اور جو تم سے روگردانی کرے اسے نظرانداز کرو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے ہو تو کم از کم اپنی خواہشوں کو کم کردو"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

قال أمیر المؤمنین الإمام علي بن أبي طالب (علیهما السلام)؛

امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے فرمایا


1۔ اسی پر اکتفا کرو جو تمہارے پاس ہے

"خُذْ مِنَ الدُّنْيَا مَا أَتَاكَ، وَتَوَلَّ عَمَّا تَوَلَّى عَنْكَ؛ فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَفْعَلْ، فَأَجْمِلْ فِي الطَّلَبِ؛ [1]

دنیا سے اتنا ہی لے لو جتنا کہ وہ تمہیں دیتی ہے اور جو تم سے روگردانی کرے اسے نظرانداز کرو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے ہو تو کم از کم اپنی خواہشوں کو کم کردو"۔

2۔ دنیا پرستی کا ثمرہ

"إذَا أقْبلَتِ الدُّنيَا عَلَىَ أَحَدٍ أَعَارتْهُ مَحَاسِنَ غَيرِهِ وَإِذَاْ أدْبرَتْ عَنْهُ سَلَبَتْهُ مَحَاسِنَ نَفْسِهِ؛ [2]

اگر دنیا کسی کی طرف رخ کرے تو وہ دوسروں کی خوبیاں وقتی طور پر اس کو دے دیتی ہیں اور جب کسی سے منہ موڑتی ہے تو اس سے اپنی خوبیاں اور مراعات واپس لے لیتی ہیں"۔

3۔ دنیا کا طالب موت کو مطلوب

"الرِّزْقُ رِزْقَانِ طَالِبٌ وَمَطْلُوبٌ فَمَنْ طَلَبَ الدُّنْيَا طَلَبَهُ الْمَوْتُ حَتَّى يُخْرِجَهُ عَنْهَا وَمَنْ طَلَبَ الْآخِرَةَ طَلَبَتْهُ الدُّنْيَا حَتَّى يَسْتَوْفِيَ رِزْقَهُ مِنْهَا؛ [3]

رزق کی دو قسمیں ہیں؛ ایک طالب ہے اور ایک مطلوب؛ تو جو دنیا کے تعاقب میں نکلے گا موت اس کا تعاقب کرے گی اور جو شخص آخرت کی طلب میں نکلے گا دنیا اس کو طلب کرے گی یہاں تک کہ اس کا رزق اس کو پہنچا دے"۔

4۔ دنیا کی طلب میں آخرت ترک کرنے کا نقصان

"لَا يَتْرُكُ النَّاسُ شَيْئاً مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ لِاسْتِصْلَاحِ دُنْيَاهُمْ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَا هُوَ أَضَرُّ مِنْهُ؛ [4]

لوگ اپنے دین کی کسی چیز کو اپنی دنیا کی خاطر ترک نہیں کرتے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ شیئے سے دوچار کرے گا"۔

5۔ دنیا کے لئے پریشانی نقصان دہ ہے

"مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللَّهِ سَاخِطاً وَمَنْ أَصْبَحَ يَشْكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِهِ فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّهُ وَمَنْ أَتَى غَنِيّاً فَتَوَاضَعَ لَهُ لِغِنَاهُ ذَهَبَ ثُلُثَا دِينِهِ وَمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ فَهُوَ مِمَّنْ كَانَ يَتَّخِذُ آيَاتِ اللَّهِ هُزُواً وَمَنْ لَهِجَ قَلْبُهُ بِحُبِّ الدُّنْيَا الْتَاطَ قَلْبُهُ مِنْهَا بِثَلَاثٍ هَمٍّ لَا يُغِبُّهُ وَحِرْصٍ لَا يَتْرُكُهُ وَأَمَلٍ لَا يُدْرِكُهُ؛ [5]

جو شخص دنیا کے دنیا کے لئے غمگین ہو، وہ اللہ کی قضا و قدر سے ناراض ہے، اور اس مصیبت سے شکوہ کرے جس میں وہ مبتلا ہے، تو اس نے اپنے پروردگار سے شکایت کی ہے، اور جو کسی امیر آدمی کے پاس جاکر، اس کی دولت کی خاطر، اس کے سامنے سے تواضع کرے اور سر خم کرے، تو اس کا دو تہائی دین ضائع ہو جاتا ہے، اور جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اور پھر دوزخ میں داخل ہو، تو ان لوگوں میں سے ہوگا جنہوں نے اللہ آیات الہیہ کا مذاق اڑایا ہے، اور جس شخص کا قلب (دل) دنیا کی محبت کے رشتے میں منسلک ہو جاتا ہے، تو اس کے دل کی جان تین مشکلوں سے دوچار ہے: ایسا غم و اندوہ جو اس کو کبھی تنہا نہ چھوڑے، ایسی حرص و لالچ جو اس سے کبھی جدا نہ ہو، اور ایسی امید و آرزو جو کبھی پوری نہیں ہوگی"۔

6۔ دنیا سانپ کی طرح ہے

"مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا وَالسَّمُّ النَّاقِعُ فِى جَوْفِهَا يَهْوِى إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ وَيَحْذَرُهَا ذُو اللُّبِّ الْعَاقِلُ؛ [6]

دنیا سانپ کی مانند ہے، جو چھونے میں نرم و ملائم ہے مگر اس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے؛ چنانچہ جاہل فریب خوردہ جاہل اس کی طرف مائل و راغب ہوتا ہے اور عاقل و ہوشیار شخص اس سے بچ کر رہتا ہے"۔

7. دنیا غدار ہے دھوکے باز ہے

"فَاحْذَرُوا الدُّنْيَا فَإِنَّهَا غَدَّارَةٌ غَرَّارَةٌ خَدُوعٌ مُعْطِيَةٌ مَنُوعٌ مُلْبِسَةٌ نَزُوعٌ لَا يَدُومُ رَخَاؤُهَا وَلَا يَنْقَضِي عَنَاؤُهَا وَلَا يَرْكُدُ بَلَاؤُهَا؛ [7]

دنیا کی چمک دمک سے ہوشیار رہو کیونکہ دنیا دھوکے باز، فریب کار اور غدار و مکار ہے، بخشتی ہے جبکہ محروم کرنے اور چھیننے والی ہے؛ پہناوا دیتی ہے جبکہ برہنہ کردینے والی ہے؛ اس کا سکون عارضی اور اس کی مصیبتیں مسلسل ہیں جن کا سلسلہ دائمی ہے"۔

8۔ دنیا کے لئے اہتمام آخرت کا غم

"مَن كَانَتِ الدُّنیا هَمَّهُ كَثُرَ فى القيامةِ غَمُّهُ؛ [8]

جس شخص کی ہمت دنیا اور دنیا پسندی ہو روز قیامت اس کی پاداش غمِّ کثیر ہے"۔

9۔ دنیا کے لئے اہتمام حسرت کا پیش خیمہ

" مَن كَانَتِ الدُّنیا هَمَّهُ اشتدّت حَسرَتُهُ عِندَ فِراقِها؛ [9]

جس شخص کی ہمت دنیا کے لئے ہو دنیا سے جدا ہوتے وقت اس کی حسرت شدید ہوگی"۔

10۔ دنیا کا شہد زہر ہے

"الدُّنْیَا سَمٌّ یَأْكُلُهُ مَنْ لَا یَعْرِفُهُ؛ [10]

دنیا زہر ہلاہل ہے جو اسے نہیں پہچانتا اسے کھا لیتا ہے"۔

11۔ دنیا پر مشغولیت خسارہ ہے

"المَغْبُونُ مَنْ شُغِل بالدُّنْيَا، وَفاتَهُ حَظَّهُ مِنَ الْآخِرَةِ؛ [11]

نقصان اس شخص کا مقدر ہے جو دنیا پر مشغول ہو جائے اور آخرت سے اس کو جو فائدہ ملنا تھا وہ ضائع ہوجائے"۔

12۔ حب دنیا کا انجام

"إیّاك وَالْوَلَهَ بِالدُّنْیَا فَإِنَّهَا تُورِثُكَ الشَّقَاءَ وَالْبَلَاءَ وَتَحْدُوكَ عَلَى بَيْعِ الْبَقَاءِ بالْفَنَاءِ؛ [12]

دنیا کے شیدائی بننے سے بچ کر رہو، کیونکہ وہ تمہارے لئے بدبختیوں اور مصائب اور آزمائشوں کا سبب بنتی ہے؛ اور تمہیں بقاء کو فناء کے عوض بیچنے پر مجبور کرتی ہے"۔

13۔ زہد اور انتظارِ موت کے فوائد

"وَمَنْ زَهِدَ فِى الدُّنْيَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِيبَاتِ وَمَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ إِلَى الْخَيْرَاتِ؛ [13]

وہ شخص جو دنیا میں زہد اختیار کرتا ہے [اور دنیا کو ترک کر دیتا ہے] مصائب بلاؤں کو آسان سمجھتا ہے اور جو شخص موت کا منتظر ہے تیزرفتاری سے نیکیوں کی طرف لپکتا ہے"۔

14۔ دنیا بعض لوگوں کے لئے اچھی ہے!

"وَلَا خَيْرَ فِى الدُّنْيَا إِلَّا لِرَجُلَيْنِ رَجُلٍ أَذْنَبَ ذُنُوباً فَهُوَ يَتَدَارَكُهَا بِالتَّوْبَةِ وَرَجُلٍ يُسَارِعُ فِى الْخَيْرَاتِ؛ [14]

دنیا میں دو آدمیوں کے سوا کسی کے لئے کوئی خیر و نیکی نہیں ہے: ایک وہ گنہگار جو توبہ کرکے گناہ کی تلافی کرتا ہے اور ایک وہ نیک عمل انسان جو نیکیوں میں عجلت سے کام لیتا ہے"۔

15۔ دنیا آخرت کی دشمن

"إِنَّ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ وَسَبِيلَانِ مُخْتَلِفَانِ فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وَتَوَلَّاهَا أَبْغَضَ الْآخِرَةَ وَعَادَاهَا وَهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَاشٍ بَيْنَهُمَا كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِدٍ بَعُدَ مِنَ الْآخَرِ وَهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ؛ [15]

دنیا اور آخرت دو ناسازگار دشمن اور دو الگ الگ راستے ہیں؛ تو جو دنیا کے عشق و محبت میں مبتلا ہؤا اور اس کے پیچھے گیا، اس نے آخرت سے نفرت کی اور اس سے دشمنی کا مرتکب ہؤا؛ جبکہ یہ دو (دنیا اور آخرت) مشرق و مغرب کی مانند ہیں اور جو ان کے درمیان چل رہا ہے جب ایک سے قریب تر ہوگا دوسرے سے دورتر ہوجائے گا اور ان  دونوں کا باہمی رشتہ دو سوتوں [یا سوکنوں] کا رشتہ ہے"۔

16۔ ترک دنیا اور آخرت کی طرف راغب ہونے کے ثمرات

"يَا نَوْفُ طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِى الدُّنْيَا الرَّاغِبِينَ فِى الْآخِرَةِ أُولَئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الْأَرْضَ بِسَاطاً وَتُرَابَهَا فِرَاشاً وَمَاءَهَا طِيباً وَالْقُرْآنَ شِعَاراً وَالدُّعَاءَ دِثَاراً ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ؛ [16]

اے نوف ! خوشبخت ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا پرستی سے آنکھیں پھیرلیں اور آخرت کی جانب راغب ہوئے! وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو بستر، پانی کو خوشبو، قرآن کو اپنا شعار (نچلا لباس)، دعا کو اپنا اوپر والا لباس قرار دیا اور دنیا کے ساتھ عیسی مسیح علیہ السلام کا سا رویہ اپنایا"۔

17۔ آخرت کے فرزند بنو دنیا کے نہیں

"فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الْآخِرَةِ وَلَا تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا فَإِنَّ كُلَّ وَلَدٍ سَيُلْحَقُ بِأَبِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ [17]

آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹے مت بنو کیونکہ بتحقیق ہر فرزند قیامت کے روز اپنی ماں سے جا ملے گا"۔

18۔ دنیا بقاء سے محروم

"الدُّنْيَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ وَالنَّاسُ فِيهَا رَجُلَانِ رَجُلٌ بَاعَ فِيهَا نَفْسَهُ فَأَوْبَقَهَا وَرَجُلٌ ابْتَاعَ نَفْسَهُ فَأَعْتَقَهَا؛ [18]

دنیا گذرنے کا گھر (راستہ یا گذرگاہ) ہے باقی رہنے کی جگہ نہیں ہے اور اس میں لوگوں کے دو گروہ ہیں: ایک گروہ نے اپنے نفس [اور اپنے آپ] کو بیچ ڈآلا اور اسے تباہ کر ڈالا اور وہ ہے جس نے اپنے نفس آپ کو خرید کر آزاد کردیا"۔

19۔ ظہور مہدی آخرالزمان علیہ السلام کی خوشخبری:

دنیا آخر کار اہل بیت (ع) کی طرف رجوع کرے گی

"لَتَعْطِفَنَّ الدُّنْيَا عَلَيْنَا بَعْدَ شِمَاسِهَا عَطْفَ الضَّرُوسِ عَلَى وَلَدِهَا وَتَلَا عَقِيبَ ذَلِكَ 'وَنُريدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُم أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثينَ' [19]؛ [20]

دنیا (ہمارے خلاف طویل) سرکشی کے بعد ہماری طرف رجوع کرے گی اس بدخو اونٹنی کی طرح جو اپنے بچے پر مہربان ہوجاتی ہے۔ (اس کے بعد امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی): 'ہم نے ارادہ کیا کہ روئے زمین پر مستضعف بنائے جانے والوں پر احسان کریں اور انہیں ائمہ اور وارث قرار دیں'۔"

20۔ ہوشیار رہو دنیا پرستی سے

"وَقَدْ أَصْبَحْتُمْ فِي زَمَنٍ لَا يَزْدَادُ الْخَيْرُ فِيهِ إِلَّا إِدْبَاراً وَلَا الشَّرُّ فِيهِ إِلَّا إِقْبَالًا وَلَا الشَّيْطَانُ فِي هَلَاكِ النَّاسِ إِلَّا طَمَعاً فَهَذَا أَوَانٌ قَوِيَتْ عُدَّتُهُ وَعَمَّتْ مَكِيدَتُهُ وَأَمْكَنَتْ فَرِيسَتُهُ اضْرِبْ بِطَرْفِكَ حَيْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ فَهَلْ تُبْصِرُ إِلَّا فَقِيراً يُكَابِدُ فَقْراً أَوْ غَنِيّاً بَدَّلَ نِعْمَةَ اللَّهِ كُفْراً أَوْ بَخِيلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللَّهِ وَفْراً أَوْ مُتَمَرِّداً كَأَنَّ بِأُذُنِهِ عَنْ سَمْعِ الْمَوَاعِظِ وَقْراً أَيْنَ أَخْيَارُكُمْ وَصُلَحَاؤُكُمْ وَأَيْنَ أَحْرَارُكُمْ وَسُمَحَاؤُكُمْ وَأَيْنَ الْمُتَوَرِّعُونَ فِي مَكَاسِبِهِمْ وَالْمُتَنَزِّهُونَ فِي مَذَاهِبِهِمْ؛ [21]

'بے شک تم ایسے زمانے سے گذر رہے ہو کہ جس میں بھلائی اور خیر و نیکی کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور بدی آگے بڑھ کر آرہی ہے اور لوگوں کو تباہی سے دوچار کرنے پر شیطان کی حرص ہر لمحہ بڑھ رہی ہے. چنانچہ یہی وہ وقت ہے کہ اس کے (ہتھکنڈوں) کا سروسامان مضبوط ہوچکا ہے اور اس کی سازشیں پھیل رہی ہیں اور اس کے شکار آسانی سے [اس کے جال میں] پھنس رہے ہیں۔ جدھر چاہو لوگوں پر نگاہ دوڑاؤ؛ کیا تمہیں اس فقیر کے سوا کوئی نظر آرہا ہے جو فقر و فاقہ جھیل رہا ہے؟ یا وہ دولت مند شخص جو اللہ کی نعمت کو کفران نعمت [اورناشکری] میں بدل رہا ہے یا وہ بخیل جو اللہ کا حق دبا کر مال بڑھا رہا ہے؛ یا وہ سرکش جو پند و نصیحت سے کان بند کئے بیٹھا ہے؟ کہاں ہیں تمہارے نیک اور صالح افراد اور کہاں ہیں تمہارے بلند حوصلہ اور کریم النفس لوگ؟ کہاں ہیں کاروبار میں (دغا و فریب سے) بچنے والے اور اپنے طور طریقوں میں پاک و پاکیزہ رہنے والے؟"۔

21۔ دنیا کی تلخی آخرت کی شیرینی اور...

"مَرَارَةُ الدُّنْيَا حَلَاوَةُ الْآخِرَةِ وَحَلَاوَةُ الدُّنْيَا مَرَارَةُ الْآخِرَةِ؛ [22]

دنیا کی تلخی آخرت کی شیرینی اور دنیا کی شیرینی آخرت کی تلخی ہے"۔

22۔ دنیا کے ساتھ کیسا رویہ اپنائیں؟

"النَّاسُ فِى الدُّنْيَا عَامِلَانِ عَامِلٌ عَمِلَ فِى الدُّنْيَا لِلدُّنْيَا قَدْ شَغَلَتْهُ دُنْيَاهُ عَنْ آخِرَتِهِ يَخْشَى عَلَى مَنْ يَخْلُفُهُ الْفَقْرَ وَيَأْمَنُهُ عَلَى نَفْسِهِ فَيُفْنِى عُمُرَهُ فِى مَنْفَعَةِ غَيْرِهِ وَعَامِلٌ عَمِلَ فِى الدُّنْيَا لِمَا بَعْدَهَا فَجَاءَهُ الَّذِى لَهُ مِنَ الدُّنْيَا بِغَيْرِ عَمَلٍ فَأَحْرَزَ الْحَظَّيْنِ مَعاً وَمَلَكَ الدَّارَيْنِ جَمِيعاً فَأَصْبَحَ وَجِيهاً عِنْدَ اللَّهِ لَا يَسْأَلُ اللَّهَ حَاجَةً فَيَمْنَعُهُ؛ [23]

لوگ دنیا میں دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں: ایک گروہ وہ ہے جس نے دنیا کے لئے کوشش و محنت کی اور دنیا نے اس کو آخرت سے باز رکھا؛ وہ اپنے پسماندگان کی غربت سے خائف ہے اور خود غربت سے محفوظ ہے؛ یہ گروہ اپنی زندگانی کو دوسروں کے مفاد میں ضائع کردیتا ہے۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو دنیا میں آخرت کے لئے محنت و کوشش کرتا ہے اور دنیا کی نعمتیں بھی محنت کے بغیر اس کی طرف دوڑ کر آتی ہیں؛ چنانچہ اس نے دونوں دنیاؤں سے نفع حاصل کی ہے اور دونوں جہانوں کا مالک بن گیا ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں آبرومند ہوکر صبح کرلیتا ہے اور اللہ سے جو بھی درخواست کرتا اللہ اسے برآوردہ کرتا ہے"۔

23۔ دنیا کا دوست اس کا بیٹا

"النَّاسُ أَبْنَاءُ الدُّنْيَا وَلَا يُلَامُ الرَّجُلُ عَلَى حُبِّ أُمِّهِ؛ [24]

لوگ دنیا کے فرزند ہیں اور کسی فرزند پر بھی ماں سے محبت کرنے کے واسطے سرزنش نہیں کی جاتی"۔

24۔ انسان کامل کا عملی نمونہ

"مَنْ أَكْثَرَ مِنْ ذِكْرِ الْمَوْتِ رَضِيَ مِنَ الدُّنْيَا بِالْيَسِيرِ وَمَنْ عَلِمَ أَنَّ كَلَامَهُ مِنْ عَمَلِهِ قَلَّ كَلَامُهُ إِلَّا فِيمَا يَعْنِيهِ؛ [25]

جو شخص موت کو زیادہ یاد کرتا ہے دنیا میں قلیل ترین [یعنی کم از کم رزق و مال و دولت] پر راضی رہتا ہے اور جو شخص جان لے کہ اس کا کلام اس کے اعمال کا حصہ ہے وہ ضرورت سے زیادہ نہ بولے گا"۔

25۔ خودسازی کا راستہ

25۔ يَا أَسْرَى الرَّغْبَةِ أَقْصِرُوا فَإِنَّ الْمُعَرِّجَ عَلَى الدُّنْيَا لَا يَرُوعُهُ مِنْهَا إِلَّا صَرِيفُ أَنْيَابِ الْحِدْثَانِ أَيُّهَا النَّاسُ تَوَلَّوْا مِنْ أَنْفُسِكُمْ تَأْدِيبَهَا وَاعْدِلُوا بِهَا عَنْ ضَرَاوَةِ عَادَاتِهَا؛ [26]

اے آرزوؤں کے اسیرو! بس کرو! کیونکہ دنیا کے مقامات و مراتب کے مالک لوگوں کو صرف زمانے کے حوادث کے [بھینچے ہوئے] دانت خوفزدہ کردیتے ہیں؛ اے لوگو! اپنی تربیت (خودسازی) کی ذمہ داری خود سنبھالو اور اپنے نفس کو ان عادتوں سے چھڑا دو جن پر وہ (نفس) حریص ہے"۔

26۔ دنیا کی فصل اور آخرت کی فصل

إنَّ الْمَالَ وَالْبَنِينَ حَرْثُ الدُّنْيَا وَالْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الْآخِرَةِ؛ [27]

مال و دولت اور فرزند و اولاد دنیا کی فصل ہیں اور عمل صالح آخرت کی فصل ہے"۔

27۔ دنیا کی قدر و قیمت اور اسلاف سے عبرت لینے کی ضرورت

"فَلْتَكُنِ الدُّنْيَا أَصْغَرَ فِي أَعْيُنِكُمْ أَصْغَرَ مِنْ حُثَالَةِ الْقَرَظِ، وَقُرَاضَةِ الْجَلَمِ، وَاتَّعِظُوا بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، قَبْلَ أَن يَتَّعِظَ بِكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ، وَارْفُضُوها ذَمِيمَةً فَإنَّهَا قَدْ رَفَضَتْ مَنْ كانَ أَشْغَفَ بِها مِنْكُمْ؛ [28]

دنیا کی قدر و قیمت کو تمہاری آنکھوں میں قرظ (یعنی قینچی سے گرنے والے کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں) سے بھی زیادہ چھوٹا ہونا چاہئے؛ گذرے ہوئے لوگوں سے سبق حاصل کرو اس سے پہلے کہ تم خود آئندہ نسلوں کے لئے عبرت بنو۔ دنیا کو ملوم و مذموم قرار دے کر ترک کردو کیونکہ دنیا نے ان لوگوں کو بھی اپنے سے دور کر دیا ہے جو تم سے بھی زیادہ اس کے عاشق و شیدائی تھے"۔

28۔ ترک گناہ توبہ سے آسان تر

"تَرْكُ الْخَطِيئَةِ أَيْسَرُ مِنْ طَلَبِ التَّوْبَةِ وَكَمْ مِنْ شَهْوَةِ سَاعَةٍ أَوْرَثَتْ حُزْناً طَوِيلًا وَالْمَوْتُ فَضَحَ الدُّنْيَا فَلَمْ يَتْرُكْ لِذِي لُبٍّ فَرَحاً؛ [29]

خطائیں ترک کرنا توبہ مانگنے سے آسان ہے اور بسا اوقات لمحہ بھر شہوت پرستی طویل غم و حزن کا سبب بنتی ہے اور موت نے دنیا کو رسوا کردیا ہے اور اس نے کسی بھی عقلمند شخص کے لئے شادمانی نہیں چھوڑی ہے"۔

29۔ دنیا کی فنا اور ناپائیداری

"وَالدُّنْيَا دَارٌ مُنِيَ لَها الْفَناءُ، وَلِأَهْلِهَا مِنْهَا الْجَلاَءُ، وَهِيَ حُلْوَةٌ خَضْرَهٌ، وَقَدْ عَجِلَتْ لِلطَّالِبِ، وَالْتَبَسَتْ بِقَلْبِ النَّاظِرِ، فَارْتَحِلُوا مِنْهَا بِأَحْسَنِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ مِنَ الزَّادِ وَلَا تَسْأَلُوا فِيها فَوْقَ الْكَفَافِ وَلَا تَطْلُبُوا مِنْهَا أَكْثَرَ مِنَ الْبَلاَغِ؛ [30]

اور دنیا ایک سرائے ہے جس کا مقدر فنا اور نا پائیداری ہے؛ اس میں رہنے والے اس سے رخت سفر باندھ لیں گے۔ شیریں و گوارا بھی ہے سبز و خرم بھی ہے اپنے خواہشمندوں کو جلد پا لیتی ہے اور اپنے اوپر نظر رکھنے والوں کا دل جلدی موہ لیتی ہے۔ تو تم جس حد تک میسر ہو سفر کے لئے خرچ اٹھاؤ اور سفر کی راہ پر گامزن ہوجاؤ؛ دنیا میں اس سے زیادہ کی خواہش نہ کرو جتنا کہ تمہارے لئے کافی ہے اور جتنا کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس سے زیادہ مت مانگو"۔

30۔ دنیا نے تم سے منہ موڑ لیا ہے

"أَلاَ وَإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ تَصَرَّمَتْ وَآذَنَتْ بِانْقِضَاءٍ وَتَنَكَّرَ مَعْرُوفُهَا وَأَدْبَرَتْ حَذَّأَ فَهِىَ تَحْفِزُ بِالْفَنَاءِ سُكَّانَهَا وَتَحْدُو بِالْمَوْتِ جِيرَانَهَا وَقَدْ أَمَرَّ فِيهَا مَا كَانَ حُلْوا وَكَدِرَ مِنْهَا مَا كَانَ صَفْوا فَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلا سَمَلَةٌ كَسَمَلَةِ الْإِدَاوَةِ أَوْ جُرْعَةٌ كَجُرْعَةِ الْمَقْلَةِ لَوْ تَمَزَّزَهَا الصَّدْيَانُ لَمْ يَنْقَعْ فَأَزْمِعُوا عِبَادَ اللَّهِ الرَّحِيلَ عَنْ هَذِهِ الدَّارِ الْمَقْدُورِ عَلَى أَهْلِهَا الزَّوَالُ وَلاَ يَغْلِبَنَّكُمْ فِيهَا الْأَمَلُ وَلاَ يَطُولَنَّ عَلَيْكُمْ فِيهَا الْأَمَدُ؛ [31]

جان لو کہ دنیا نے ناطے منقطع کر دیئے ہیں اور رخصت ہونے پر بضد ہے اور وداع کی صدا اٹھائے ہوئی ہے اور اس کی خوشیوں نے لباس بدل ڈالا ہے۔ ہاں! دنیا نے منہ موڑ لیا ہے اور تیزی کے ساتھ جارہی ہے اور اپنے رہائشیوں کو فنا کی طرف ہانک رہی ہے اور اپنے پڑوسیوں کو موت کی وادی میں دھکیل رہی ہے۔ اس کا شہد زہر میں تبدیل ہوگیا ہے اور اس کی شفافیت تیرگی میں تبدیل ہوئی ہے؛ اس میں سے پس خوردے کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے، جو اس قطرے کے برابر ہے جو مشکیزے کی تہہ میں باقی بچا ہے، جس کو اگر پیالے میں ڈال دیا جائے تو پیالے میں پڑے ہوئے ریت کے ایک ذرے کو بھگو دیتا ہے اور اگر پیاسا شخص اس کو چوس لے تو اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ اے بندگان خدا! عزم سفر کرو اس سرائے سے جس کے باشندوں کا مقدر، زوال ہے۔ خبردار کہیں اس سرائے فانی میں نفسانی خواہشات سے دوچار نہ ہوجانا اور کبھی بھی مت سمجھنا کہ تمہاری زندگی اس میں زیادہ عرصے تک طول کھینچے گی"۔

31۔ دنیا اتفاقیہ آخرت استحقاقیہ

"أَحْوَالُ الدُّنْيَا تَتْبَعُ الإِتِّفاقَ وَأَحْوَالُ الْآخِرَةِ تَتْبَعُ الإِسْتِحْقاقَ؛ [32]

دنیا کے حالات اتفاق (واقعات و حوادث) کے تابع ہیں جبکہ آخرت کے حالات استحقاق (اور حقداری) کے تابع ہیں"۔

32۔ حرص دنیا اور حرص آخرت کا انجام

"مَنْ حَرَصَ عَلَى الْآخِرَةِ مَلَكَ وَمَنْ حَرَصَ عَلَى الدُّنْيَا هَلَكَ؛ [33]

 

جو آخرت پر حریص ہوگا اسے حاصل کرلے گا اور جو دنیا کے حرص میں مبتلا ہوگا ہلاک [اور نیست و نابود] ہوجائے گا"۔

33. دنیا بدبختوں کی آرزو

"اَلدُّنْيَا مُنْيَةُ اَلْأَشْقِيَاءِ [34] اَلْآخِرَةِ فَوْزُ السُّعَدَاءِ؛ [35]

دنیا اشقیاء اور بدبختوں کی آرزو ہے اور آخرت سعادتمندوں اور خوشبخت انسانوں کی کامیابی ہے"۔

34۔ دنیا تمہارے قدم چھومے

"عَلَيْكَ بِالْآخِرَةِ تَأْتِكَ الدُّنْيا صَاغِرَةً؛ [36]

آخرت کا دامن تھام لو، دنیا خوار و ذلیل ہوکر تمہارے قدم چھومے گی"۔

35۔ آخرت کے لئے آمادگی کی ضرورت

"اِسْتَعِدُّوا لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ وَتَتَدَلَّهُ لِهَوْلِهِ الْعُقُولُ وَتَتَبَلَّدُ الْبَصَائِرُ؛ [37]

اس دن کے لئے تیاری کرو جب انسانوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہیں گی اور عقلیں دہشت و خوف سے ناکارہ ہونگی اور ذہانت و ذکاوت کندذہنی میں بدل جائے گی"۔

36۔ دنیا منقطع اور آخرت قریب ہے

"إِنَّ الدُّنْيَا مُنْقَطِعَةٌ عَنْكَ وَالْآخِرَةَ قَرِيبَةٌ مِنْكَ؛ [38]

بے شک دنیا تم سے جدا ہونے والی ہے اور آخرت تمہارے قریب ہے"۔

37۔ فرصت نہیں ہے، سفرخرچ اٹھا کر چلو

"اِجْعَلُوا اجْتِهَادَكُمْ فِيهَا التَّزَوُّدَ مِنْ يَوْمِهَا الْقَصِيرِ لِيَوْمِ الْآخِرَةِ الطَّوِيلِ فَإنَّها دارُ عَمَلٍ وَالْاخِرَةُ دارُ القَرَارِ وَالجَزاءِ؛ [39]

اس (دنیا) میں ـ جس کا دورانیہ قلیل ہے ـ اپنی کوششوں کو آخرت کے لئے ـ جس کی مدت بہت طویل ہے ـ خرچہ کمانے کے لئے وقف کرو؛ بتحقیق دنیا محنت اور کوشش کا مقام ہے اور آخرت باقی رہنے، استقرار اور جزا و پاداش پانے کا مقام"۔

38۔ ذکر آخرت شفاء اور ذکر دنیا ...

"ذِكْرُ الْآخِرَةِ دَوَاءً وَشِفَاءُ؛ ذِكْرُ اَلدُّنْيَا أَدْوَءُ اَلْأَدْوَاءِ؛ [40]

آخرت کی یاد دوا ہے اور علاج؛ جبکہ دنیا کی یاد بدترین درد و مرض ہے"۔

39۔ میں دنیا کو دور پھینکنے والا ہوں

أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا وَقَادِرُهَا بِقَدْرِهَا وَنَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا؛ [41]

میں ہوں جس نے دنیا کو دور پھینک دیا ہے اور جس نے اس کی اہلیت کے مطابق اس کی توقیر کی ہے اور اس کو اس کی اپنی آنکھ (تحقیر کی نظر) سے دیکھا ہے"۔

40۔ دنیا کی اچھائیاں اور خوبصورتیاں

"إِنَّ الدُّنْيَا دَارُ صِدْقٍ لِمَنْ صَدَقَهَا وَدَارُ عَافِيَةٍ لِمَنْ فَهِمَ عَنْهَا وَدَارُ غِنًى لِمَنْ تَزَوَّدَ مِنْهَا وَدَارُ مَوْعِظَةٍ لِمَنِ اتَّعَظَ بِهَا مَسْجِدُ أَحِبَّاءِ اللَّهِ وَمُصَلَّى مَلَائِكَةِ اللَّهِ وَمَهْبِطُ وَحْيِ اللَّهِ وَمَتْجَرُ أَوْلِيَاءِ اللَّهِ اكْتَسَبُوا فِيهَا الرَّحْمَةَ وَرَبِحُوا فِيهَا الْجَنَّةَ فَمَنْ ذَا يَذُمُّهَا وَقَدْ آذَنَتْ بِبَيْنِهَا وَنَادَتْ بِفِرَاقِهَا وَنَعَتْ نَفْسَهَا وَأَهْلَهَا فَمَثَّلَتْ لَهُمْ بِبَلَائِهَا الْبَلَاءَ وَشَوَّقَتْهُمْ بِسُرُورِهَا إِلَى السُّرُورِ رَاحَتْ بِعَافِيَةٍ وَابْتَكَرَتْ بِفَجِيعَةٍ تَرْغِيباً وَتَرْهِيباً وَتَخْوِيفاً وَتَحْذِيراً فَذَمَّهَا رِجَالٌ غَدَاةَ النَّدَامَةِ وَحَمِدَهَا آخَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ذَكَّرَتْهُمُ الدُّنْيَا فَتَذَكَّرُوا وَحَدَّثَتْهُمْ فَصَدَّقُوا وَوَعَظَتْهُمْ فَاتَّعَظُوا؛ [42]

بے شک دنیا سچوں کے لئے سچائی کا گھر ہے، اور اس کی باتوں کو سمجھے ان کے لئے امن و تندرستی کی منزل ہے، آخرت کا زاد راہ (اور سفرخرچ) حاصل کرنے والوں کے لئے بے نیازی اور دولمتندی کی سرائے اور اس سے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے نصیحت کا مقام ہے۔ دنیا اللہ کے دوستوں کی سجدہ گاہ، کروبیوں کے لئے نماز خانہ، اللہ کی وحی نزول کا مقام اور خدا کے دوستوں کا تجارت خانہ ہے جنہوں نے خدا کی رحمت کمائی اور جنت کو منافع کے طور پر حاصل کیا۔ کون ہے جو دنیا پر ملامت کرے حالانکہ دنیا نے اپنی جدائی کا اعلان کر دیا ہے اور چِلّا چِلّا کر بتایا ہے کہ "وہ باقی اور جاویدانی نہیں ہے"، اور اس نے اپنی اور اپنے پوجا کرنے والوں کی نابودی کا اعلان کیا۔ اپنی آزمائشوں کے ذریعے آخرت کی آزمائشوں کا پتہ دیا ہے اور اپنی خوشیوں سے انہیں آخرت کی خوشیوں کی ترغیب دلائی۔ [یہ دنیا] رات کو عافیت سے گذری، مگر صبح کو المیوں کے ساتھ لوٹ آئی تا کہ لوگوں کو مشتاق کردے، دھمکی دے، ڈرا دے اور خبردار کر دے۔ تو جن لوگوں نے نادم و شرمسار ہوکر صبح کی وہ اس [دنیا] کی برائی اور مذمت کرنے لگے اور دوسرے لوگ قیامت کے روز اس کی تعریف و تمجید کریں گے کہ دنیا نے ان کو آخرت کے حقائق کی یاددہانی کرائی تو انہوں نے یاد رکھا اور وہ ہوشیار ہو گئے؛ دنیا نے ان کو حقائق و حوادث کی خبر دی تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور دنیا نے انہیں نصیحت کی اور انہوں نے نصیحت قبول کرلی"۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1]۔ نہج البلاغہ، حکمت 393۔

[2]۔ نہج البلاغہ، حکمت 9۔

[3]۔ نہج البلاغہ، حکمت 431؛ ابن عبد ربِہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، ج3، ص157۔

[4]۔ نہج البلاغہ، حکمت 106۔

[5]۔ نہج البلاغہ، حکمت 228؛ سبط ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الأمۃ فی ذکر خصائص الأئمۃ، ص144۔

[6]۔ نہج البلاغہ، حکمت 119۔

[7]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 220۔

[8]۔ ابن الحدید المعتزلی، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغہ، ج20، ص211۔

[9]۔ آل کاشف‌الغطاء، ہادی بن عباس بن علی بن جعفر، ص165۔

[10]۔ تمیمی الآمدمی، عبداالواحد بن محمد، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص69۔

[11]۔ تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص106۔

[12]. تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص171.

[13]۔ نہج البلاغہ، حکمت 31۔

[14]۔ نہج البلاغہ، حکمت 94۔

[15]۔ نہج البلاغہ، حکمت 103۔

[16]۔ نہج البلاغہ، حکمت 104۔

[17]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 42؛ تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص42۔

[18]۔ نہج البلاغہ، حکمت 133۔

[19]. سورہ قصص، آیت 5۔

[20]۔ نہج البلاغہ، حكمت 209۔

[21]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 127۔

[22]۔ نہج البلاغہ، حکمت 251۔

[23]۔ نہج البلاغہ، حکمت 269۔

[24]۔ نہج البلاغہ، حكمت 303۔

[25]۔ نہج البلاغہ، حكمت 349۔

[26]۔ نہج البلاغہ، حكمت 359۔

[27]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 23۔

[28]. نہج البلاغہ، خطبه 32.

[29]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، ج4، ص188۔

[30]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 45۔

[31]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 52۔

[32]۔ تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص191۔

[33]. تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص319-318.

[34]. تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص143.

[35]. تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص7.

[36]۔ تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص199.

[37]۔ تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص31۔

[38]. نہج البلاغہ، مکتوب 32۔

[39]۔ المحمودی، محمد باقر بن میرزا محمد، نہج السعادہ فی مستدرک نہج البلاغہ، ج3، ص150۔

[40]۔ تمیمی الآمدی، غُرَرُالحِکَم و دُرَرُ الکَلِم، ج1، ص144

[41]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 128۔

[42]۔ نہج البلاغہ، حکمت 131۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110