اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

20 مئی 2024

12:31:32 AM
1459594

إِذَا مَاتَ الْعَالِمُ مَاتَ الْعَالَمُ؛

مشہور محقق اور مصنف علامہ شیخ علی الکورانی العاملی دنیائے فانی سے کوچ کر گئے

لبنان کے مشہور و معروف محقق اور مصنف، "مرکز المعجم الفقہی" کے سربراہ اور امام زمانہ (علیہ السلام) کے بارے میں کئی کتب کے مؤلف علامہ شیخ علی الکورانی، دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، استاد علامہ شیخ علی الکورانی العاملی، آیت اللہ سید محسن حکیم آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی، شہید آیت اللہ سید محمد باقر الصدر، ایت اللہ ہاشمی گلپایگانی اور آیت اللہ سید محمد سعید الحکیم (رحمہم اللہ) کے شاگر تھے۔

شیخ الکورانی نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران ہجرت کی اور مختلف مراکز کی بنیاد رکھی اور تاریخی اور اعتقادی کتب کی تالیف و تصنیف میں مصروف عمل رہے اور طویل عرصے تک علمی جہاد کے بعد 80 سال کی عمر میں، [مورخہ 29 مئی 2024ع‍ کو] حرکت قلب بننے کی وجہ سے، دنیائے فانی سے رحلت کر گئے۔

شیخ الکورانی العاملی سنہ 1944ع‍ کو جنوبی لبنان کے شہر نبطیہ کی نواحی بستی یاطَر میں پیدا ہوئے اور المراجعات نامی مشہور عالم کتاب کے مؤلف علامہ آیت اللہ سید عبدالحسین شرف الدین (رحمہ اللہ) کی ترغیب پر دینی مدرسے میں داخل ہوئے؛ 14 سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے نجف اشرف چلے گئے اور آیت اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی نیز شہید آیت اللہ سید محمد باقر الصدر (رحمہم اللہ) کے درس خارج میں شریک ہوئے۔

شیخ علی الکورانی العاملی شہید آیت اللہ سید محمد باقر الصدر کے قریبی ساتھیوں اور حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے فعال رکن تھے اسی بنا پر بعض بزرگوں اور کمانڈروں کو آپ ہی حزب اللہ میں لے آئے اور آپ نے حزب اللہ لبنان کی تاسیس میں مؤثر کردار ادا کیا۔

شیخ الکورانی کی موجودگی اور جہادی سرگرمیاں عراق کی بعث پارٹی کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی چنانچہ آپ بعثیوں کی دہشت گردانہ کاروائی کا نشانہ بنے اور صدام کے ایک گماشتے نے آپ کے سر میں گولی ماری تھی اور وہ گولی کھوپڑی میں پھنس کر رہ گئی اور اللہ تعالی نے انہیں زندہ رکھا۔ بعثیوں کی گولی آخر عمر تک آپ کے سر میں باقی تھی اور صدام کے مظالم کی دستاویز تھی۔

آیت اللہ محسن حکیم نے انہیں اپنے نمائندے کے طور پر کویت روانہ کیا اور ان کے انتقال کے بعد آیت اللہ خوئی نے انہیں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔

شیخ الکورانی سیاسی اور سماجی شعبوں میں بہت سرگرم تھے اور بیروت میں مسجد رسول اکرم(ص) اور رسول اکرم(ص) ہسپتال کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔

علامہ الکورانی نے "تحقیقات معجم الفقہی" کی بنیاد رکھ کر عالم اسلام کا سب سے پہلا کمپیوٹر پروگرام تیار کیا جو 3000 اسلامی کتب پر مشتمل تھا اور ان کتب کی تعداد بعد 4700 تک بھی پہنچی۔

مہدویت کے سلسلے میں عالم مجاہد شیخ علی الکورانی العاملی کی تصنیفات و تالیفات عالمی شہرت رکھتی ہیں۔ وہ تاریخ ائمہ(ع) کے اہم محققین کے زمرے میں شمار ہوتے تھے۔ مہدویت کے بارے میں آپ کی کاوشوں میں "عصر الظہور"، "طریقۃ حزب اللہ"، "الممہدون للمہدی"، "مصر و اہل البیت (علیہم السلام)"، "دجال البصرہ"، (جو عراق میں مہدویت کے جھوٹے دعویدار احمد الحسن کے بارے میں ہے) اور "المعجم الموضوعی لأحادیث الإمام المہدی علیہ السلام" خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ (آپ کی کاوشوں کی فہرست اس تحریر کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)۔

استاد شیخ علی الکورانی العاملی کی علمی اور سماجی زندگی

شیخ الکورانی العاملی سنہ 1944ع‍ کو جنوبی لبنان کے شہر نبطیہ کی نواحی بستی یاطَر میں پیدا ہوئے۔ سید عبدالحسین شرف الدین (رحمہ اللہ) کی ترغیب پر دینی مدرسے میں داخل ہوئے اور ابتدائی دروس کو شیخ ابراہیم سلیمان کے زیر نگرانی مکمل کیا۔ سنہ 1958ع‍ میں، 14 سال کی عمر میں نجف مشرف ہوئے اور محمد تقی فقیہ، سید علاء بحرالعلوم، شیخ باقر ایروانی اور شہید آیت اللہ سید محمدباقر حکیم (رحمہم اللہ) کے حضور سطح کے دروس کی تکمیل کی اور بعدازاں آیت اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی نیز شہید آیت اللہ سید محمد باقر الصدر (رحمہم اللہ) کے درس خارج میں شریک ہوئے۔

سنہ 1960ع‍ کے عشرے کے وسط میں عراق اور کویت میں آیت اللہ خوئی اور کئی دوسرے مراجع تقلید کے نمائندے کے طور پر عراق اور کویت میں سرگرم عمل رہے۔ اس زمانے میں آپ کی علمی سرگرمیاں بعث پارٹی کے اشتراکی نظریات اور مجموعی طور پر اشتراکیت اور کمیونزم کے خلاف جدوجہد پر مرکوز تھیں۔ آپ سنہ 1974ع‍ میں لبنان واپس چلے گئے۔

شیخ الکورانی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران آئے اور اپنی تر توجہ امام مہدی (علیہ السلام) کے سلسلے میں منقولہ احادیث، تدوین قرآن کی تاریخ، قرآنی اصطلاحات کے معانی (حسین بن محمد معروف بہ "راغب اصفہانی" کی کتاب مفردات الفاظ القرآن کا تنقیدی جائزہ)، سیرت نبویہ(ص)، شیعہ ائمہ(ع) کی تاریخ نیز "وہابی افکار پر تنقید"، جیسے موضوعات پر مرکوز رہی۔

شیخ الکورانی "عصر ظہور" کو اپنی ہجرت ایران کا سبب گردانتے ہوئے کہتے ہیں:

"ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، میرے حالات میں تبدیلی آئی۔ کیونکہ اہل سنت اور اہل تشیّع کے درمیان اس سلسلے میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے امام زمانہ (علیہ السلام) کے ظہور کے لئے ماحول سازی کرنے والے لوگوں کا تعلق مشرق سے ہے اور وہ  قوم سلمان فارسی (علیہ السلام)، قم، خراسان اور طالقان (یعنی البُرز کے پہاڑی سلسلے میں واقع خطے) سے ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) سے منقولہ 9 عناوین کے تحت منقولہ احادیث میں ایران کے عوام کی توصیف ہوئی ہے۔ شیعہ اور سنی کے درمیان اتفاق ہے کہ ماحول سازی کا آغاز خراسان اور ایران کے لوگوں کی طرف سے ہوگا۔ مجھے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی خبر ملی تو مجھے یہ احادیث یاد آگئیں اور اسی وقت ایران آنے کا ارادہ کیا۔ البتہ ایسی احادیث بھی منقول ہیں جو ہمارے اس نظریئے کی تصدیق کرتی ہیں، جیسا کہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے منقولہ حدیث جس میں "رجل من اہل قم" (ایک مرد اہلیان قم سے)، کا تذکرہ ہے جس کا ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر [امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)] پر اطلاق ہوتا ہے جن کے اصحاب "کزبر الحدید" (لوہے کے ٹکڑوں کی طرح) ہیں جو دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور فتح یاب ہو جاتے ہیں اور ظہور کے لئے ماحول سازی کرتے ہیں۔ گوکہ یہ حدیث مرسل ہے، (1) لیکن علمائے حدیث کا کہنا ہے کہ اگر مرسل حدیث کی تائید میں دوسری حدیثیں موجود ہیں، تو وہ حجت ہے۔ چنانچہ مجھے ابتدائے انقلاب سے ہی کوئی شک و شبہہ نہیں تھا کہ یہ انقلاب در حقیقت ظہور امام زمانہ (علیہ السلام) کے لئے ماحول سازی کرے گا۔ لیکن یہ سوال کہ "ظہور تک کتنا عرصہ باقی ہے"، تو میں عرض کرتا ہوں کہ "میں نہیں جانتا"، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ انقلاب ظہور کے لئے ماحول تیار کر رہا ہے۔ میں ایران آیا اور دو سال تک جنگ میں شرکت کی، جہاں عماد مغنیہ اور ذوالفقار (حزب اللہ کے دو کمانڈر) بھی تھے اور میں نے دفاعی شعبے میں امام زمانہ (علیہ السلام) ظہور کی ماحول سازی میں شریک ہؤا"۔

انھوں نے مرجع تقلید آیت اللہ سید محمد رضا گلپایگانی (رحمہ اللہ) کی سرپرستی میں "مرکز المعجم الفقہی" کے نام سے ادارہ قائم کیا اور آیت اللہ سید علی سیستانی کی حمایت سے اسلامی افکار میں تحقیقات کے لئے "مرکز المصطفی للدراسات الدینیہ" کی بنیاد رکھی۔ مرکز المعجم الفقہی پہلا مرکز تھا جو اسلامی سافٹ ویئر کی تیاری کا اہتمام کرتا تھا اور اس نے اپنا کام سنہ 1990 میں شروع کیا تھا۔ یہ ایران میں پہلا کمپیوٹر مرکز تھا اور اس کا ایک مقصد عرب ممالک سے واقفیت اور ان سے رابطہ کرنا تھا۔

شیخ الکورانی نے قم میں آیت اللہ سیستانی کے نمائندے کی مدد سے "کتابخانۂ اہل البیت(ع)" کی بنیاد رکھی اور اس ویب گاہ پر اہل تشیّع اور اہل سنت کی 7000 کتابیں صارفین کی خدمت پر اپلوڈ کروا دیں۔ صارفین ان کتابوں سے بغیر معاوضے کے بغیر، استفادہ کر سکتے ہیں۔  

شیخ الکورانی العاملی نے سنہ 1998ع‍ سے ـ انٹرنیٹ پر ـ وہابیت سمیت دوسرے مذاہب کے علماء کے ساتھ مباحثوں اور مناظروں کا آغاز کیا اور پھر عربی زبان کے ٹیلی ویژن چینلوں میں سوال ـ جواب کا سلسلہ شروع کیا جو عرب دنیا میں ان کی شہرت کا سبب بنا۔

انہوں نے اپنی کتاب عصر ظہور کے دیباچے میں فلم نوسٹرا ڈیمس (Nostradamus) کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور اس کو ظہور امام مہدی (علیہ السلام) کے حوالے سے شیعیان اہل بیت(ع) کے عقائد پر دشمنوں کی سب سے بڑا تشہیری اقدام سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہودیوں نے اس فلم میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس فلم کا مقصد امریکہ اور یورپ کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنا تھا۔

شیخ الکورانی کہا کرتے تھے کہ فلم سازوں نے اس فلم میں نوسٹرا ڈیمس کی پیش گوئیوں میں ایک نکتے کا اضافہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ امام مہدی (علیہ السلام) کی طرف سے داغے گئے دیو ہیکل میزائلوں سے یورپ اور امریکہ کے تمام شہر اور تہذیبی علامتوں کی تباہی کے بعد، امریکہ امام زمانہ (علیہ السلام) کے خلاف لڑنے کے لئے روس کا سہارا لے گا اور آخر کار وہ سب مل کر امام کو شکست دیں گے! ان کا کہنا تھا کہ نوسٹرا ڈیمس نامی کتاب اسلامی انقلاب کے بعد کئی ملین نسخوں میں چھپ گئی اور بعد میں اس کو فلم میں تبدیل کیا گیا اور کروڑوں انسانوں نے اسے فلم کی صورت میں دیکھا؛ چنانچہ نہ صرف شیعوں بلکہ تمام مسلمانوں کو خبردار رہنا چاہئے اور جاننا چاہئے کہ اس فلم کے پس منظر سے آگہی حاصل کریں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دشمنان اسلام اسلامی ممالک میں عوامی تحریکوں اور انقلابات سے خائف ہیں چنانچہ وہ ہر تنکے کا سہارا لے کر اپنی قوموں کو مسلمانوں کے مقابلے میں متنبہ کرنا چاہتے ہیں۔

کتاب عصر ظہور شیخ علی الکورای کی تقاریر کا مجموعہ ہے اور کتاب معجم أحادیث الإمام المہدی علیہ السلام درحقیقت اسی کتاب کی تکمیل اور تفصیل ہے۔

شیخ الکورانی یہودی اور صہیونی خطرے سے فکرمند تھے اور صہیونیت کے خلاف گہری فکری جدوجہد کے درپے تھے۔ وہ اسی وجہ سے عرب دنیا میں مختلف تحریکوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔  لبنان کی انقلابی تحریکیں "حزب اللہ"، "منظمۃ الأمل" سے لے کر فلسطینی تنظیموں تک، سب ان کو اپنا اہم اور سنجیدہ حامی سمجھتی تھیں۔

شیخ الکورانی اسرائیل کے خلاف سرگرم تحریکوں کو فکری غذا پہنچانے کے لئے کوشاں رہتے تھے اور ان کے راہنماؤں کے ساتھ علمی موضوعات پر بات چیت کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اسلامی جہاد تحریک کے لئے نام کا انتخاب شیخ علی الکورانی نے کیا تھا اور یہ تحریک جدوجہد کے مختلف مراحل میں شیخ علی الکورانی کے ساتھ رابطے میں رہتی تھی۔

وہ اسلامی انقلاب کو ظہور سے قبل کے اہم واقعات میں شمار کرتے تھے اور کہتے تھے:

"میں نے ظہور کے لئے ماحول سازی کی غرض سے لبنان سے ہجری کی اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اور رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) پر فخر کرتا ہو کیونکہ یہ ظہور کے لئے ماحول فراہم کرنے والے مجاہدین کے راہنما اور کمانڈر ہیں۔ میں خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی معلومات کی بنیاد پر، سمجھتا ہوں کہ محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) تشکیل پا رہا ہے اور اس محور میں سرگرم عمل تمام لوگ امام زمانہ (علیہ السلام) کے اعوان اور انصار ہیں"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ شیخ علی الکورانی کی بعض کاوشیں حسب ذیل ہیں:

- طریقۃ حزب الله

- الممہدون للمہدی

- عصر الظہور

- ملائکۃ الغیب قادمون

- تدوین القرآن

- قرآنُ علي علیہ السلام

- مصر واہل البیت علیہم السلام

- العقائد الإسلامی, (5 مجلدات)

- الانتصار (9 مجلدات)

- الوہابیۃ والتوحید

- الوحدۃ الإسلامیۃ من وجہۃ نظر أہل البیت علیہم السلام

- مشکلۃ تعویم الإجتہاد فی الفقہ والعقائد

- ألف سؤال واشکال علی المخالفین لأہل البیت الطاہرین (3 مجلدات)

- السیرۃ النبویۃ عند أہل البیت علیہم السلام (3 مجلدات)

- جواہر التاریخ (5 مجلدات) (ائمۂ شیعہ کی سیاسی حیات: امیرالمؤمنین علیہ السلام سے لے کر امام صادق علیہ السلام تک

- الإمام الکاظم علیہ السلام سید بغداد

- الإمام محمد الجواد علیہ السلام

- الإمام علی الہادی علیہ السلام عمر حافل بالجہاد والمعجزات

- الإمام الحسن العسکری علیہ السلام والد الإمام المہدی الموعود علیہ السلام

- المعجم الموضوعی لأحادیث الإمام المہدی علیہ السلام

- کیف ردَّ الشیعۃ غزو المغول

- قراءۃ جدیدۃ لحروب الردۃ

- قراءاۃ جدید للفتوحات الاسلامیۃ (2 مجلدات)

- نظرات إلی المرجعیۃ

- الرد علی الفتاویٰ المتطرفۃ

- أجوبۃ علی أسئلۃ بعض علماء الطالبان

- مسائل مجلۃ جیش الصحابۃ

- الموظف الدولی (احمد الکاتب کے بارے میں)

- آیات الغدیر

- ثمار الأفکار

- عصر الشیعۃ

- إلی طالب العلم (زندگی نامہ)

- سلسلۃ القبائل العربیۃ فی العراق (۱۰ جلد)

- فعالیات صہیونیۃ وہابیۃ فی العراق

- دجال البصرۃ (عراق میں مہدویت کے دعویدار احمد الحسن کے بارے میں)

- أسئلۃ مہدویۃ

- دُرَرُ النَّحْو

- معرفۃ اللہ

- بشارۃ النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) بالأئمۃ الإثنیٰ عشر علیہم السلام

- تفسیر آیات الغدیر الثلاث

- صراع قریش مع النبی صلی اللہ علیہ و آلہ

- من أدعیۃ الحبیب المصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ

- حقوق الإنسان عند أہل البیت علیہم السلام

- کتاب الحق المبین فی معرفۃ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ وہ حدیث جس کی سند میں راوی کا ذکر نہ ہؤا ہو، وہ حدیث جس کو تابعین کسی واسطے کے بغیر ـ براہ راست ـ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کریں، حدیث مرسل ہے۔ اہل سنت کے بعض علماء نے بھی حدیث مرسل کی اسی تعریف کو اختیار کر لیا ہے۔۔۔ علماء کے درمیان حدیث مرسل کے حجت ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے۔ جو اس کی حجیت کے قائل ہیں، کہتے ہیں کہ اگر راوی ثقہ [اور معتبر] ہو اور غیر ثقہ افراد سے روایت نہ کرتا ہو، تو اس کی منقولہ حدیث معتبر ہے۔ مشائخ حدیث کی رائے ہے کہ اگر حذف شدہ راوی کی وثاقت کا یقین ہو اور سلسلۂ سند میں کمزور اور مجہول راویوں سے استفادہ کیا گیا ہو، تو ایسی حدیث ناقابل اعتبار ہے اور حجیت نہیں رکھتی۔ مرسل حدیث کی بعض قسمیں حجت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110