اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

1 مئی 2024

6:07:52 PM
1455556

بسلسلۂ شہادت صادق آل محمد(ص)؛

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے حالات زندگی

مختلف فقہی اور کلامی مسائل میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقولہ احادیث ایک وسیع اور متنوِّع مجموعے کو تشکیل دیتی ہیں اسی بنا پرشیعہ مذہب کو مذہب جعفری کہا جاتا ہے۔

شیعیان آل رسول(ص) کے چھٹے امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام)، سنہ 83ھ میں بمقام مدینہ منورہ دنیا میں آئے اور 25 شوال سنہ 148ھ کو، 65 سال کی عمر میں مدینہ میں ہی جام شہادت نوش کر گئے۔ آپ کی تدفین جنت البقیع میں اپنے والد گرامی امام باقر (علیہ السلام) اور جد امجد امام زین العابدین (علیہ السلام) نیز [والد کے چچا] امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے۔ آپ کی والدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر ہیں۔ آپ کا دور امامت 34 برسوں پر محیط ہے۔ (1) آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ہے اور مذہب جعفریہ آپ سے منسوب ہے۔ (2)

مختلف فقہی اور کلامی مسائل میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقولہ احادیث ایک وسیع اور متنوِّع مجموعے کو تشکیل دیتی ہیں اسی بنا پرشیعہ مذہب کو مذہب جعفری کہا جاتا ہے۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے عہد امامت کے ابتدائی برسوں میں معرض وجود میں آنے والی سیاسی فراخی اور سکون کی فضا کے بموجب، لوگوں نے زیادہ آزادانہ انداز سے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی طرف رخ کیا اور آپ سے فقہی اور غیر فقہی علمی مشکلات اور مسائل حل کرنے کی درخواست کی۔ (3)

اہل سنت کے عالم ابن حجر ہیتمی رقمطراز ہے:

لوگوں نے آپ کے علم سے اس قدر استفادہ کیا ہے کہ آپ کے علم و دانش کی صدائے بازگشت تمام شہروں تک پہنچ چکی تھی۔ یحیی بن سعید ، ابن جریج ، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری، ابو حنیفہ، شعبۃ بن الحجاج اور ایوب سختیانی جیسے اکابر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ (4)

اہل بیت (علیہم السلام) میں سے کسی کے شاگردوں کی تعداد امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے شاگردوں جتنی نہ تھی اور کسی بھی امام سے منقولہ روایات کی تعداد آپ سے منقولہ روایات کی حد تک نہيں پہنچتی۔ اصحاب حدیث نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت نقل کرنے والے راویوں کی تعداد چار ہزار بتائی ہے۔ (5)

آپ کی شہادت کا سبب وہ زہرخورانی تھی جس کا انتظام منصور دوانیقی نے کیا تھا۔ (6)

حدیث:

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لا تَغتَرُّوا بِصَلاتِهِم وَلا بِصِيامِهِم، فَإِنَّ الرَّجُلَ رُبَما لَهِجَ بِالصَّلاةِ وَالصَّومِ حَتّى لَو تَرَكَهُ استَوحَشَ، وَلكِنِ اختَبِروهُم عِندَ صِدقِ الحَديثِ وَأداءُ الأمانَةِ؛  

لوگوں کے نماز روزے کے دھوکے میں مت آنا کیونکہ اگر وہ انہيں (نماز و روزہ کو) ترک کریں تو انہیں خوف محسوس ہوتا ہے چنانچہ انہيں صداقت اور امانت داری کے ذریعے آزمانا"۔ (7)

نسب، کنیت اور القاب

جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام)، شیعیان اہل بیت(ع) کے چھٹے امام اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی نسل سے پانچویں امام ہیں؛ آپ کی کنیت "ابو عبد اللہ" اور لقب "صادق" ہے۔ آپ کے دیگر القاب میں صابر، طاہر اور فاضل شامل ہیں لیکن چونکہ آپ کے ہم عصر فقہاء اور محدثین نے ـ جو شیعہ بھی نہیں تھے ـ صدق حدیث اور نقل روایت میں آپ کی صداقت کی تعریف و تمجید کی ہے اور یوں آپ کے لقب "صادق'' کو زیادہ شہرت ملی ہے۔ (8)

آپ کی والدہ کا نام فاطمہ یا قریبہ اور کنیت امام صادق (علیہ السلام) کی والدہ ام فروہ ہیں۔ ([9]) ام فروہ قاسم بن محمد بن ابی بکر کی بیٹی تھیں۔ (10)

انگشتریوں کے نقش

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:

"اَللّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ"۔ (11) اور

"اللَّهُمَّ أَنْتَ‏ ثِقَتِی‏ فَقِنِی‏ شَرَّ خَلقِكَ"۔ (12)

ولادت

امام جعفر صادق (علیہ السلام)، سنہ 83ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور سنہ 148ھ میں 65 سال کی عمر میں شہادت پا گئے۔ آپ کی تدفین جنت البقیع میں اپنے والد ماجد امام محمد باقر دادا امام زین العابدین اور امام حسن مجتبیٰ (علیہم السلام) کے پہلو میں ہوئی۔ (13)

مروی ہے کہ آپ کا یوم ولادت 17 ربیع الاول اور روز شہادت 25 رجب المرجب ہے گوکہ بعض دوسروں کی منقولہ روایات میں آپ کا یوم شہادت 15 رجب المرجب یا 15 شوال المکرم بتایا گیا ہے۔

بعض مؤرخین اور تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا سال شہادت سنہ 80 ہجری ہے۔ (14) ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ امام کا سال شہادت سنہ 146ھ ہے۔ (15)

آپ کی عمر کے 12 برس آپ کے جد امجد امام سجاد (علیہ السلام) کی خدمت میں گذرے جبکہ آپ نے 19 برس اپنے والد امام محمد باقر (علیہ السلام) کی امامت میں بسر کئے جبکہ آپ کا عہد امامت 34 سال تھا۔ (16)

شہادت

کتاب فصول المہمہ اور مصباحِ کفعمی (17) نیز دیگر کتب میں مروی ہے کہ آپ کو مسموم کرکے شہید کیا گیا۔ ابن شہرآشوب نے مناقب میں لکھا ہے: [عباسی بادشاہ] منصور دوانیقی نے آپ کو زہر کھلایا۔ (18) کیونکہ منصور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے خلاف دل میں کینہ بسائے ہوئے تھا اور لوگوں کے آپ کی طرف متوجہ ہونے سے خوفزدہ ہونے کے باعث چین سے نہيں بیٹھ سکتا تھا۔ جو لوگ منصور کی زندگی سے آگہی رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ اس نے ان لوگوں پر بھی رحم نہيں کیا جنہوں نے اس کو مسند خلافت تک پہنچانے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کی تھی اور حتی عباسی سلطنت کے قیام کے لئے بہت زيادہ کوششیں کرنے والے ابو مسلم خراسانی تک کو قتل کردیا تھا۔ (19)

ازواج

آپ کی زوجہ مکرمہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن الحسین (علیہم السلام) آپ کی چچا کی بیٹی اور ‏اور آپ کے تین بچوں کی ماں ہیں؛ علاوہ ازیں آپ کی ایک کنیز آپ کے دوسرے تین بچوں کی ماں ہیں جبکہ آپ کی دوسری زوجات آپ کے دوسرے بچوں کی مائیں ہیں۔ (20)

اولاد

شیخ مفید نے امام صادق (علیہ السلام) کی دس اولادوں کے نام یوں ذکر کئے ہیں: (21)

*اسماعیل ، عبداللہ، ام فروہ؛ ان تینوں کی والدہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن الحسین ہیں۔

*امام موسی کاظم (علیہ السلام) ، اسحٰق اور محمد ، ان کی والدہ ایک ام ولد تھیں۔

*عباس ، علی ، اسماء و فاطمہ ؛ جو مختلف ماؤں سے ہیں۔

 امین الاسلام طبرسی رقمطراز ہیں: موسیٰ (علیہ السلام)، اسحٰق، فاطمہ اور محمد ایک ماں سے ہیں جن کا نام حمیدہ البربریہ ہے۔ (22)

 اسمٰعیل امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے بڑے فرزند تھے اور امام ان سے بہت زيادہ محبت کرتے تھے اور شیعیان آل رسول(ص) میں سے ایک گروہ کا خیال تھا کہ وہ امام کے جانشین ہیں لیکن وہ امام کی حیات میں ہی چل بسے اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

مروی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) اسمٰعیل کی وفات پر سخت مغموم اور بےچین ہوئے اور پا برہنہ عبا [یا ردا] کے بغیر جنازے کے آگے آگے چلے جارہے تھے اور آپ نے تدفین سے قبل کئی مرتبہ میت زمین پر رکھوا دی اور اس کے جسم سے کفن اٹھایا؛ ان کے چہرے پر نظر ڈالتے تھے اور حاضرین کو گواہ بنا دیتے تھے تاکہ سب ان کی موت کا یقین کریں اور وہ لوگ ـ جو سمجھتے تھے کہ اسمٰعیل امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے جانشین ہونگے ـ مطمئن ہوجائیں کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ (23)

امامت

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا عہد امامت 34 برس تھا۔ (24)

آپ کے ہم عصر خلفاء کے نام:

*ہشام بن عبدالملک ،

*ولید بن یزید بن عبدالملک ،

*یزید بن ولید بن عبدالملک الناقص،

*إبراہیم بن ولید ، اور

‎*مروان ابن محمد (المعروف بہ مروان الحمار)، جو آخری اموی حکمران تھا۔

اس کے بعد سنہ 132ھ میں سیاہ جامہ گان (سیاہ کرتوں والوں) نے ابو مسلم خراسانی کی سرکردگی میں خراسان سے قیام کیا اور بنی عباس نے اقتدار سنبھالا۔

*پہلا عباسی حکمران ابوالعباس سفاح جس نے 4 سال آٹھ مہینوں تک حکومت کی۔

*ابو جعفر عبداللہ، جس کا لقب منصور عباسی تھا۔ وہ ابوالعباس سفاح کا بھائی تھا اور اس نے 21 سال اور گیارہ مہینوں تک حکومت کی۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) منصور کی حکومت کے آغاز کے 10 سال بعد شہید کئے گئے۔ (25)

 دلائل امامت

مختلف افراد نے مختلف روایات امام محمد باقر (علیہ السلام) سے نقل کی ہیں جن کے ضمن میں امام محمد باقر (علیہ السلام) نے اپنے فرزند جعفر صادق (علیہ السلام) کی امامت پر تصریح و تاکید کی ہے؛ ہشام بن سالم ، ابوالصباح الکنانی ، جابر بن یزید الجعفی ، اور عبد الاعلیٰ مولیٰ آل سام، ان ہی رایوں میں سے ہیں۔ (26)

شیخ مفید لکھتے ہیں:

"امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی جانشینی اور امامت کے سلسلے میں امام محمد باقر (علیہ السلام) کی وصیت کے علاوہ، آپ [امام جعفر صادق (علیہ السلام)] علم و زہد اور عمل کے لحاظ سے بھی اپنے تمام بھائیوں، افراد خاندان اور اپنے زمانے کے لوگوں پر برتری رکھتے تھے جو خود آپ کی امامت کی دلیل ہے"۔ (27)

 جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی احادیث میں بھی ائمہ اثنی عشر کے اسما‏ء گرامی کے ضمن میں آپ کا نام مذکور ہے۔ (28) جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ "آیت اطاعت" (29) نازل ہوئی تو رسول اللہ(ص) نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ (30) امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں آیت تطہیر (31) نازل ہوئی تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے اور فرمایا کہ یہ سب وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ (32) ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ(ص) کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ(ص) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ (33)  

علمی تحریک

حدیث: 

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"ما ضَعُفَ بَدَنٌ عَمّا قَوِيَتْ عَلَيْهِ النِّيَّةُ؛

جب انسان کا عزم و ارادہ قویّ ہو، اس کا بدن عاجز و بے بس نہیں ہؤا کرتا"۔ (34)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رحلت کے بعد اور خلفاء کے دور میں جب بھی کسی فقعی مسئلے میں خلیفہ یا صحابۂ رسول(ص) پر عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا تھا تو وہ امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ ان کا مسئلہ حل کردیتے تھے۔ جب امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے محراب عبادت میں شہادت پائی تو دشمنوں نے آپ کے فرزندوں اور پیروکاروں حالات بالکل نامساعد بنا دیئے اور عوام اور اہل بیت (علیہم السلام) کے درمیان حائل ہوگئے۔ دوسری طرف سے دنیا کے عوض دین کا سودا کرنے والوں نے بھی حکام وقت کی خوشنودی یا دنیاوی مفادات کی خاطر روایات و احادیث جعل کرنے کا بازار گرم کیا۔ حالت یہ ہوئی کہ صحیح حدیث کو موضوعہ یا جعلی حدیث سے تشخیص و تمیز دینا فقہاء کے لئے دشوار ہوگیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ سنہ 40ھ سے پہلی اسلامی صدی کے آخر تک ـ معدودے چند صحابہ و تابعین کے سوا، باقی لوگ فقہِ صحیح (یعنی فقہ آل محمد(ص)) سے بے نصیب تھے۔ امام محمد باقر (علیہ السلام) کے دور میں کسی حد تک فراخی اور امن و سکون کی فضا قائم ہوئی اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا دور (سنہ 114ھ سے 148ھ تک) فقہ آل محمد(ص) کی نشر و اشاعت ـ اور دوسرے الفاظ میں ـ فقہ جعفریہ کی تعلیم و تدریس کا دور ہے۔ اس دور میں مدینہ کا چہرہ بدل گیا۔ (35)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا دور امامت، اموی ـ مروانی سلطنت کی شکست و ریخت اور سقوط و زوال کا دور تھا اور اس صورت حال نے نہ صرف کافی حد تک سیاسی آزادی کے اسباب فراہم کئے اور نہ صرف گوشوں گوشوں میں دینی تحریکوں اور حکمرانوں کے خلاف گروہ بندیوں کا امکان فراہم ہؤا، بلکہ مختلف علمی شعبوں میں دینی بحث و تمحیص کی آزادی بھی معرض وجود میں آئی۔ (36)

مختلف فقہی اور کلامی مسائل میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقولہ روایات ایک وسیع اور متنوِّع مجموعہ ہیں اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفری کہا جاتا ہے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے عہد امامت کے ابتدائی برسوں میں معرض وجود میں آنے والی سیاسی فراخی اور سکون کی فضا کے بموجب، لوگوں نے زیادہ آزادی کے ساتھ امام سے رجوع کیا اور فقہی اور غیر فقہی علمی مشکلات اور مسائل حل کرنے کی درخواست کی۔ (37)

اہل بیت (علیہم السلام) میں سے کسی کے شاگردوں کی تعداد بھی امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے شاگردوں کی جتنی نہیں تھی اور کسی بھی امام سے منقولہ روایات کی تعداد آپ سے منقولہ روایات کی حد تک نہيں پہنچتی۔ اصحاب حدیث نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت نقل کرنے والوں (رُواۃ) کی تعداد چارہزآر افراد تک لکھی ہے۔ (38)

اہل سنت کے علماء میں سے ابن حجر ہیتمی رقمطراز ہے:

"لوگوں نے آپ کے علم سے اس قدر استفادہ کیا ہے کہ آپ کے علم و دانش کی صدائے بازگشت تمام شہروں تک پہنچ چکی تھی۔ یحیی بن سعید ، ابن جریح ، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ ، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ ، شعبۃ بن الحجاج اور ایوب سختیانی جیسے اکابر ائمہ نے آپ سے روایات نقل کی ہیں"۔ (39)

فقہ

 ذہبی نے اہل سنت کے چار مذاہب میں سے مذہب حنفیہ کے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے:

"میں نے جعفر بن محمد (الصادق) (علیہ السلام) سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا"۔ (40)

اہل سنت کے مذہب مالکیہ کے امام مالک بن انس سے منقول ہے:

"میں نے فضل و علم اور زہد و پارسا‏ئی میں کسی کو نہیں دیکھا جو جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) سے برتر ہو"۔ (41)

زبیر بن بکار لکھتے ہیں:

"ابو حنیفہ نے کئی بار امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ملاقاتیں کیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں امام (علیہ السلام) نے ابو حنیفہ سے فرمایا: "خدا کا خوف کرو اور دین میں قیاس مت کرو کیونکہ جس نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ شیطان تھا۔ خدائے متعال نے شیطان سے فرمایا: آدم کو سجدہ کرو۔ شیطان نے کہا: میں اس (آدم) سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے خلق کیا ہے اور ان کو مٹی سے۔ (42)

اس کے بعد امام نے ابو حنیفہ سے پوچھا:

:قتل نفس زیادہ اہم ہے یا زنا ؟

::قتل نفس!

::قتل نفس دو گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے اور زنا چار گواہوں کی گواہی سے، پس یہاں قیاس کا کیا کرو گے؟

:روزہ خدا کے نزدیگ زیادہ بڑا ہے یا نماز؟

::نماز !

:جب عورت حیض کی حالت میں روزہ افطار کرتی ہے تو اس کو روزہ قضا کرنا پڑتا ہے جبکہ نماز قضا کرنا لازم نہيں ہے؟ خدا کا خوف کرو اور قیاس مت کیا کرو"۔ (43)

متکلمین کی تربیت

مرد شامی کے ساتھ مناظرہ

کلینی اپنی اسناد سے روایت کرتے ہیں کہ یونس بن یعقوب نے کہا:

ہم امام ابو عبد اللہ جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شامی مرد داخل ہؤا اور کہا: میں کلام ، فقہ اور فرائض کا عالم ہوں اور آپ کے اصحاب سے مناظرہ کرنے آیا ہوں!

امام(ع) نے فرمایا:

:تمہارا کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے ہے یہ تمہارا اپنا ہے؟

::رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کلام سے اور میرے اپنے کلام سے!

:پس تم رسول اللہ (صلی اللہ و آلہ) کے شریک ہو؟

::نہیں

:کیا تم نے خدائے و عز و جل کی وحی سنی ہے اور خدا نے تمہیں خبر دی ہے؟

::نہیں۔

:کیا تمہاری اطاعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اطاعت کی طرح واجب ہے؟

::نہیں۔

ابو عبداللہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے یونس یہ مرد بات کلام میں داخل ہونے سے قبل ہی اپنی ذات کا دشمن ٹہرا۔ اگر تم کلام سے خوب واقف ہو تو اس مرد کے ساتھ بات چیت کرو۔

مجھے حسرت ہوئی کیونکہ میں علم کلام نہیں جانتا تھا؛ پس میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)! میں نے آپ کو کلامی بحث میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے سنا تھا اور آپ فرما رہے تھے کہ وائے ہو ان متکلمین پو جوکہتے ہیں: یہ صحیح ہے وہ صحیح نہیں ہے؛ اور یہ کہ یہ ہمارے لئے عقل کے حکم پر قابل قبول ہے وہ قابل قبول نہيں ہے!

امام(ع) فرمایا: میں نے کہا تھا کہ وائے ہو ان لوگوں پر جو میری بات کو ایک طرف رکھتے ہیں (اور ہم اہل بیت کی باتیں ترک کردیتے ہیں) اور اپنی رائے اور نظر سے بات چیت کرتے ہیں (اور نزاع و جدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں)۔ اس کے بعد فرمایا: باہر نکلو اور دیکھو متکلمین میں سے کوئی نظر آتا ہے؟

میں باہر نکلا تو مجھے حُمران بن اعین اور محمد بن نعمان المعروف بہ "مؤمن الطاق" و "احول" نیز ہشام بن سالم کو اپنے ساتھ اندر لے آیا کیونکہ یہ افراد کلام سے خوب واقفیت رکھتے تھے اور قیس بن ماصر کو بھی اندر لایا جو میرے خیال میں علم کلام میں اول الذکر افراد پر فوقیت رکھتے تھے اور انھوں نے علم کلام امام زین العابدین (علیہ السلام) سے سیکھا تھا۔ ہشام بن حَکَم بھی جو ابھی نوجوان ہی تھے، آن پہنچے۔ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ہشام بن حکم کو بیٹھنے کے لئے جگہ دی اور فرمایا: تم اپنے دل، زبان اور ہاتھ سے ہمارے ناصر و مددگار ہو۔ پھر حُمران اور مؤمن الطاق سے کہا کہ شامی مرد کے ساتھ مناظرہ کریں؛ وہ دونوں مناظرے میں کامیاب ہوئے اور پھر آپ نے ہشام بن سالم سے کہا کہ وہ بھی مناظرے میں شامل ہوجائیں، ہشام بن سالم نے مناظرہ کیا اور امام نے "قیس بن ماصر" کو مناظرے کی دعوت دی اور جب وہ مرد شامی کے ساتھ مناظرہ کررہا تھا امام مسلسل مسکرا رہے تھے کیونکہ وہ شخص بری طرح الجھ چکا تھا۔ امام نے اس شخص سے فرمایا: اس نوجوان کے ساتھ گفتگو کرو۔ ہشام بن حکم کی اس شخص نے ہشام بن حکم کی باری آئی۔ شامی مرد نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی امامت کے بارے میں غیر شائستہ انداز سے سوال پوچھا تو ہشام غضبناک ہؤا؛ اور مرد شامی سے کہا:

:تمہارا پروردگار اپنی مخلوق کے کام میں زيادہ خیر اندیشی کرتا ہے یا بندہ اپنے کام میں؟

::میرا پروردگار زیادہ خیر اندیش ہے مخلوق کے کام میں۔

:خدا نے خیر اندیشی کے حوالے سے اپنی مخلوقات کے لئے کیا کیا ہے؟

::خدا نے حجت اور دلیل قائم کی ہے تاکہ مخلوقات منتشر نہ ہوں اور انہیں ان چيزوں کی خبر دی ہے جو اس کی طرف سے بندوں پر واجب ہیں۔

:وہ حجت کیا ہے؟

::رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)!

:اور رسول اللہ (علیہ السلام) کے بعد؟

::کتاب اور سنت ۔

:کیا کتاب و سنت نے اختلافات حل کرنے میں ہمیں کوئی نفع پہنچائی ہے؟

::ہاں کیوں نہیں!

:اگر ایسا ہے تو تمہارے اور ہمارے درمیان اختلاف کیوں ہے یہاں تک کہ تم ہمارے ساتھ مناظرہ کرنے آئے ہو؟

::شامی خاموش رہ گیا۔

یہاں امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مرد شامی سے پوچھا:

:بولتے کیوں نہیں ہو؟

::اگر کہوں کہ ہمارے درمیان اختلاف نہيں ہے تو گویا میں نے جھوٹ بولا ہے اور اگر کہوں کہ کتاب و سنت نے ہمارے اختلافات ختم کرنے میں کردار ادا کیا ہے تو میری یہ بات باطل ہوگی اور اگر کہوں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے اور ہم میں سے ہر ایک حق کا دعویدار ہے، تو کتاب و سنت کی افادیت ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن ہشام کا یہی استدلال میرے فائدے اور ہشام کے نقصان میں ہے!

امام نے فرمایا: پوچھو! اس کو قوی اور مقتدر پاؤ گے۔ اور شامی مرد نے ہشام سے پوچھا:

:خدا بندوں کے کام میں زیادہ خیر اندیش ہے یا بندے اپنے کاموں میں؟

::خدا!

:کیا خدا نے ایسی حجت قرار دی ہے جس کے ذریعے وہ انہیں متحد کرے اور ان کی ناہمواریوں کو ہموار کردے اور حق و باطل کو ان کے لئے بیان کردے؛

::رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دور میں یا آج کے دور میں؟

::رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دور میں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) خود ہی حجت تھے؛ لیکن آج کے زمانے میں کون ہے؟

::ہشام نے امام(ع) کی طرف اشارہ کرکے کہا: یہی ہیں، جو مسند پر بیٹھے ہیں؛ اور دنیا بھر سے لوگ ان ہی کی طرف رواں دواں ہیں؛ باپ دادا سے ملنے والی علمی میراث کے وارث ہیں اور زمین و آسمان کی خبریں ہمیں دے رہے ہیں۔

:مرد شامی نے کہا: میں کس طرح اس بات پر یقین کروں؟

:: جو چاہو ان سے پوچھو۔

:تم نے میرے لئے ایک عذر چھوڑ دیا چنانچہ مجھ پر لازم ہے کہ ان سے پوچھوں۔

امام(ع) نے فرمایا: اے مرد شامی! کیا تمہیں تمہارے سفر کی روداد سناؤں؟ اور پھر آپ نے اس کو اس کے سفر کے واقعات سنانا شروع کر دیئے کہ ایسا ہو اور ویسا ہؤا اور مرد شامی سرور و شادمانی کے ساتھ تصدیق کرتا رہا اور کہتا رہا کہ "آپ صحیح فرما رہے ہیں"، خدا کی قسم! میں اب اسلام لایا۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: نہیں، اب تم خدا پر ایمان لائے، اسلام ایمان سے پہلے آتا ہے؛ اسلام کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کا ترکہ پاتے ہیں، نکاح و ازدواج کرتے ہیں اور ایمان کے ذریعے اپنے اعمال کا ثواب پاتے ہیں۔ تم اس سے قبل خدا اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر ایمان رکھتے تھے اور تم مسلمان تھے لیکن تمہیں تمہارے ایمان کا ثواب نہيں مل رہا تھا اور اب تمہیں ثواب بھی ملے گا۔

شامی نے کہا: آپ درست فرما رہے ہیں:

"فَأَنَا السّاعَةَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلّا اللّهُ وَ أَنّ مُحَمّداً رَسُولُ اللّهِ صلی الله وآله وَأَنّكَ وَصِيّ الْأَوْصِيَاءِ؛

اور میں اسی لمحے گواہی دیتا ہوں کہ کوئی بھی بندگی کا لائق نہيں ہے سوائے اللہ کے، بے شک حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کے رسول ہیں اور بے شک آپ اوصیاء کے وصی اور جانشینان رسول(ص) کے جانشین ہیں"۔ (44)

اس طرح کے مناظرے امام جعفر صادق (علیہ السلام) اور معاندین کے درمیان بکثرت نقل ہوئے ہیں جو علم میں امامت کے عظیم مرتبے کو نمایاں کرتے ہیں اور ان مناظروں سے مناظرین کی مہارت اور علم کلام نیز بحث کے مقدمات سے ان کی واقفیت ظاہر ہوتی ہے۔ (45)

 آپ کے زمانے کی تحریکیں

 زید بن علی کا قیام

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے زید بن علی بن الحسین کے بارے میں فرمایا ہے:

"رحم الله زيداً إنه العالم الصدوق"۔

اللہ تعالی رحم کرے زید پر، وہ سچے عالم دین تھے”۔ (46)

روایات سے ظاہر ہے کہ زید کے قیام کو امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی تائید حاصل تھی؛ چنانچہ شیخ صدوق نے روایت کی ہے کہ:

"جب امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کے بھائی زید بن موسی نے بصرہ میں خروج کیا اور بنی عباس کے گھروں کو نذر آتش کیا مامون نے امام رضا (علیہ السلام) سے کہا: اگر آپ کے بھائی زید نے یہ عمل انجام دیا تو اس سے پہلے زید بن علی نے بھی تو خروج کیا تھا اور مارے گئے تھے!؛ اگر میرے نزدیک آپ کی یہ منزلت نہ ہوتی تو میں اس (زيد بن موسی) کو مار دیتا کیونکہ اس نے جو کام کیا ہے وہ کوئی چھوٹا کام نہيں ہے۔

امام(ع) نے فرمایا: "میرے بھائی زید کا قیاس زید بن علی سے نہ کرو۔ وہ علمائے آل محمد میں سے تھے، خدا کے لئے غضبناک ہوئے اور جہاد کیا حتیٰ کہ مارے گئے؛ میرے والد موسیٰ بن جعفر (علیہ السلام) نے اپنے والد جعفر بن محمد (امام صادق)(ع) سے سنا کہ فرما رہے تھے:

خدا میرے چچا زید کی مغفرت فرمائے! انھوں نے لوگوں کو الرضا من آل محمد کی طرف بلایا اور اگر کامیاب ہوتے تو اپنے وعدے پر عمل کرتے۔ جب قیام کرنے جارہے تھے تو انھوں نے مجھ سے مشورہ کیا؛ میں نے ان سے کہا: چچا جان! اگر چاہتے ہو کہ مارے جاؤ اور کناسۂ کوفہ میں سولی پر لٹکائے جاؤ تو تم خود ہی جانتے ہو جو کرنا چاہو!"۔ (47)

ایک روایت میں عبداللہ بن سیابہ سے مروی ہے؛ بیان کرتے ہیں:

"ہم سات افراد مل کر مدینہ میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امام نے ہم سے پوچھا: کیا تمہیں میرے چچا زید کی خبر ہے؟

ہم نے کہا: یا تو قیام کرچکے ہیں یا قیام کی تیاری کررہے ہیں۔

فرمایا: اگر تمہیں کوئی خبر ملی تو مجھے بھی بتا دینا۔

چند دن بعد بسام صیرفی کا مکتوب ملا، جس میں تحریر تھا: زید نے روز چہارشنبہ (بدھ وار) آغاز ماہ صفر میں قیام کیا اور روز جمعہ مارے گئے۔ ہم امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مکتوب آپ کے حوالے کیا؛ آپ نے مکتوب پڑھ لیا اور روتے ہوئے فرمایا:

"إِنّٰا لِلّٰهِ وَإِنّٰا إِلَيْهِ رٰاجِعُونَ عِنْدَ اَللَّهِ تَعَالَى أَحْتَسِبُ عَمِّي إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ اَلْعَمُّ إِنَّ عَمِّي كَانَ رَجُلاً لِدُنْيَانَا وَآخِرَتِنَا مَضَى وَاَللَّهِ عَمِّي شَهِيداً كَشُهَدَاءَ اُسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَعَلِيٍّ وَاَلْحَسَنِ وَاَلْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اَللَّهِ عَلَيْهِم؛

بلاشبہ ہم اللہ کے ہیں اور بلاشبہ ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے؛ (48) میں روز محشر اللہ کی بارگاہ میں اپنے چچا کے لئے اجر و ثواب طلب کرتا ہوں؛ کیا خوب چچا تھے وا، اور ایک انسان تھے جو دنیا اور آخرت میں ہمارے لئے مفید تھے اور ہیں اور دو مرتبہ فرمایا: خدا کی قسم! میرے چچا شہید ہوگئے ان شہیدوں کی طرح جنہوں نے رسول خدا ، علی ، حسن اور حسین (صلوات اللہ عليہم) کے رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔ (49)

مت کہو کہ زید نے خروج کیا

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَلَا تَقُولُوا خَرَجَ زَيْدٌ فَإِنَّ زَيْداً كَانَ عَالِماً وَكَانَ صَدُوقاً وَلَمْ يَدْعُكُمْ إِلَى نَفْسِهِ إِنَّمَا دَعَاكُمْ إِلَى الرِّضَا مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ وَلَوْ ظَهَرَ لَوَفَى بِمَا دَعَاكُمْ إِلَيْهِ۔۔۔؛

مت کہو کہ زید نے خروج کیا کیونکہ وہ ایک عالم اور سچے انسان تھے انھوں نے تمہیں اپنی طرف نہيں بلایا بلکہ "آل محمد(ص) کی پسندیدہ شخصیت" کی طرف بلایا اور کامیاب ہوتے تو بےشک اپنا وعدہ وفا کردیتے"۔ (اور حق کو اہل حق کے سپرد کردیتے)۔ (50)

دوسری تحریکیں

زیادہ تر تحریکوں کو امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی تائید و حمایت حاصل نہیں تھی اور ان لوگوں کی درخواستوں کو قبول نہيں کرتے تھے جو آپ کو وعدے دیا کرتے تھے بلکہ آپ فقہ آل محمد(ص) اور علوم اہل بیت (علیہم السلام) کی ترویج کو ان تحریکوں پر مقدم سمجھتے تھے۔ کیونکہ جو لوگ بنی ہاشم کو قیام کی طرف دعوت دیتے تھے، وہ لوگ تھے جو ـ تمام کے تمام یا ان میں سے بعض ـ تو اپنے اوپر اپنے وقتوں کے حکمرانوں کی حاکمیت برداشت نہیں کرسکتے تھے یا پھر خود اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ بدعتوں کا ازالہ اور ان کی تحریکوں کا مقصد دین خدا کا احیاء نہيں تھا۔ (51)

جب بنو عباس کی دعوت کو ایران کے مشرقی علاقوں میں فروغ ملا تو ان سرزمینوں کے باشندوں اور اور ان میں مقیم قحطانی عربوں نے ـ متحد ہو کر ـ مروانیوں کے ساتھ اپنی مخالفت آشکار کرکے، مروانیوں کے متعینہ حاکم کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ ابو مسلم نصر سیار نے خراسان کے والی کو مار بھگایا اور قحطبہ بن شبیب کو لشکر دے کر آخری اموی ـ مروانی حکمران مروان بن محمد بن مروان بن حکم (المعروف بہ مروان الحمار) کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا ـ جو ایک لشکر کی سرکردگی میں خراسان کی طرف آرہا تھا ـ فرات کے کنارے دو لشکروں میں جنگ چھڑ گئی اور قحطبہ مارا گیا۔ چنانچہ اس کے لشکر میں شامل افراد نے اس کے بیٹے حسن بن قحطبہ کے ساتھ بیعت کی۔ قحطبہ نے بھی مرنے سے پہلے لشکر سے کہا تھا: جب کوفہ پہنچ کر ابو سلمہ خلال کے پاس جاؤ اور اس کے احکامات کی تعمیل کرو۔

حسن اپنا لشکر لے کر محرم سنہ 130ھ کو کوفہ میں داخل ہؤا۔ یہ وہ دن تھے جب بنو عباس کا داعی اہراہیم امام قیدخانے میں چل بسا تھا۔ اس نے اپنی موت سے قبل کہا تھا کہ اس کے پیروکار کوفہ جاکر ابوالعباس سفاح کی اطاعت گزاری کریں۔

ابوالعباس سفاح صفر المظفر سنہ 132ھ میں اپنے خاندان کے ہمراہ کوفہ میں آ بسا۔ ابو سلمہ نے ابوالعباس کو بنو ہاشم کے موالی میں سے ایک شخص ولید بن سعد کے گھر میں بسایا اور روایات کے مطابق، اس کی کوفہ آمد کو چالیس دن تک صیغہ راز میں رکھا؛ (52) اور جب بھی لوگ اس سے استفسار کرتے تھے کہ "امام کون ہے؟" تو وہ انہيں عجلت نہ کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ وہ حکومت کو ابوطالب کے فرزندوں کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ (53)

 یعقوبی رقمطراز ہے:

"ابو سلمہ نے ابو العباس سفاح اور اس کے خاندان کی آمد کو خفیہ رکھا اور اس مدت میں ایک مکتوب جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام) کے لئے بھجوایا تو آپ نے جواب دیا کہ "ان کا مطلوبہ شخص میں نہیں ہوں"۔ چنانچہ ابوسلمہ نے ایک خط عبداللہ بن حسن کے لئے روانہ کیا تو اس نے جواب دیا: میں ایک معمر آدمی ہوں میرا بیٹا محمد اس کام لئے زيادہ مناسب ہے اور اپنے اہل خاندان کو پیغام بھجوایا کہ محمد کے ساتھ بیعت کریں اور ان کو ابو سلمہ کا خط بھی دکھلایا۔

جعفر بن محمد الصادق نے عبداللہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے شیخ! اپنے بیٹے کو ہلاکت میں مت ڈالو، مجھے خوف ہے کہ وہ کہیں احجار الزیت (مدینہ کے ایک نواحی علاقے میں، جہاں بالآخر محمد کو قتل کر دیا گیا) کے مقام پر قتل نہ کیا جائے"۔ (54)

مروی ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے لئے ابو سلمہ کا خط لانے والے قاصد نے امام سے خط کا جواب مانگا تو آپ نے خط کو چراغ کے اوپر پکڑ لیا یہاں تک وہ کہ مکمل طور پر جل گیا اور قاصد سے فرمایا: یہ ہے تمہارے خط کا جواب۔

سوال یہ ہے کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ابو سلمہ کے خط کا جواب کیوں نہیں دیا اور اس کا خط جلایا کیوں؟ اور جواب یہ ہے کہ ابوسلمہ کی دعوت ایک سیاسی دعوت تھی اور وہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو امام واجب الاطاعہ نہيں سمجھتا تھا۔؛ کیونکہ اگر وہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو امام واجب الاتباع سمجھتا تو دوسرا خط عبداللہ بن حسن کے لئے روانہ نہ کرتا اور ان کو اپنے لشکر کی زعامت قبول کرنے کی دعوت نہ دیتا۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے خود قیام کیوں نہیں کیا

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ محمد بن یعقوب کلینی اپنی اسناد سے روایت کرتے ہیں:

سدیر صیرفی کہتے ہیں: میں ابو عبداللہ کے پاس پہنچا اور عرض کیا:

:آپ کا قیام سے اجتناب مزید جائز نہیں ہے!

::کیوں؟

:اس لئے کہ آپ کے دوست اور پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہیں۔ خدا کی قسم! اگر علی (علیہ السلام) کے انصار و اعوان کی تعداد آپ کے پیروکاروں جتنی ہوتی تو کوئی بھی ان کا حق نہ چھین سکتا تھا!

::میرے پیروکاروں کی تعداد کتنی ہوگی؟

:ایک لاکھ!

::ایک لاکھ؟

:ہاں بلکہ اس سے بھی زيادہ، دو لاکھ۔

::دو لاکھ؟

:ہاں اور آدھی دنیا!

ابو عبداللہ (علیہ السلام) خاموش ہوگئے اور ہم روانہ ہوئے حتیٰ کہ بکریوں کے ایک ریوڑ کے قریب سے گذرے۔

فرمایا: اے سدیر! خدا کی قسم اگر میرے شیعوں اور پیروکاروں کی تعداد ان بکریوں جتنی ہوتی تو خاموش رہنا میرے لئے جائز نہ ہوتا۔

اس کے بعد ہم اترے اور میں نماز بجالانے کے بعد ریوڑ کے پاس گیا اور انہیں کو گن لیا تو ان کی کل تعداد 17 تھی"۔ (55)

منتخب کلام

*ایک شخص نے امام سے درخواست کی: مجھے ایسا عمل سکھائیں جو میری دنیا اور آخرت کی بھلائی کے کام آئے اور مختصر بھی ہو؛

امام نے فرمایا:

"جھوٹ مت بولنا"۔ (56)

*آپ سے پوچھایا گیا کہ خدا نے سود خوری کو کیوں حرام کیا ہے؟

فرمایا:

"اس لئے کہ لوگ ایک دوسرے کو عطا و بخشش سے باز نہ رکھیں"۔ (57)

آپ نے فرمایا:

"اگر کوئی شخص میرے پاس آکر ضرورتمندی کا اظہار کرے تو میں اس کی حاجت فوری طور پر برآوردہ کرتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ میرے اقدام سے پہلے ہی اس کی ضرورت پوری ہوجائے یا سمجھا جائے کہ میں نے اس کی حاجت تاخیر سے پوری کردی ہے"۔ (58)

آپ نے فرمایا:

فقہاء، انبیاء کے امین ہیں، جب تم فقہاء کو صاحبان اقتدار کی درگاہ میں جاتے دیکھو تو ان کو مورد الزام ٹھراؤ (سچا مت سمجھو)۔ (59)

اصحاب:

امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک بتائی گئی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو امام کی علمی فیض رسانی کے ایام میں آپ سے فیضياب ہوئے ہیں؛ دوسرے لفظوں میں، یہ تمام افراد وہ نہیں ہیں جو ہر وقت امام کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔

کشف الغُمَّۃ فی معرفة الائمة کے مؤلف علی بن عیسیٰ بن ابی الفتح الاربلی لکھتے ہیں:

بعض تابعین نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے جن میں یحییٰ بن سعید انصاری، ایوب سختیانی، ابان بن تغلب، ابوعمرو بن العلاء اور یزید بن عبداللہ شامل ہیں۔ اور ائمہ اہل سنت میں سے مالک بن انس، شعبۃ بن الحجاج، سفیان ثوری، ابن جریج، عبد الله بن عمرو، روح بن قاسم، سفیان بن عیینہ، سلیمان بن بلال ، اسماعیل بن جعفر، حاتم بن اسماعیل، عبدالعزیز بن مختار، وہب بن خالد اور ابراہیم بن طہمان نے آپ سے روایت کی ہے۔ (60) جابر بن حیان الکوفی کو بھی امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے شاگردوں کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے۔ (61)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) ابن حجر عسقلانی کی نگاہ میں

 ابن حجر عسقلانی آپ کی توصیف میں رقمطراز ہے:

"الهاشمی العلوي، ابوعبدالله المدني الصادق۔ (62)

ابن حجر ہی سے مروی ہے کہ ابن حبان نے کہا:

فقہ، علم اور فضیلت میں اہل بیت (علیہم السلام) کے سرداروں میں سے تھے۔ (63)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصادر:

*ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی بن محمد الکنانی، تہذیب التہذیب، ج2، مطبوعہ حیدرآباد، مطبعہ نظامیہ، 1325ھ۔

*احمد بن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ، مکتبة القاہرة، 1385ھ۔

* شہیدی ، سیدجعفر، زندگانی امام صادق جعفر بن محمد (ع)، تہران: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1384۔

* صدوق ، عیون اخبار الرضا (ع)، ترجمہ علی اکبر غفاری، ج2، تہران: نشر صدوق، 1373ھ ش

* صدوق، عيون اخبار الرضا منشورات موسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت - لبنان، الطبعة الاولى 1404 ه‍ - 1984، ج 2ص225۔

*الصدوق، من لا يحضرہ الفقيہ، ج4، قم: مؤسسة النشر الإسلامي، 1404۔

*الطبرسی، الفضل بن الحسن، اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، تحقیق موسسة آل البیت لاحیاء التراث، قم: موسسة آل البیت لاحیاء التراث، ج1، 1417 ہجری۔

*الشیخ المفید، الارشاد، ترجمہ و شرح فارسی: محمد باقر ساعدی، تصحیح: محمدباقر بہبودی، بیجا، انتشارات اسلامیہ، 1380ہجری شمسی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ الشیخ المفید، الارشاد، صص526-527۔

2۔ سید جعفر شہیدی، زندگانی امام صادق جعفر بن محمد (ع)، تہران: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص4۔

3۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص61۔

4۔ احمد بن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ، ص201۔

5۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص61، بحوالہ از علی بن عیسیٰ الاربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص166۔

6۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص85 بحوالہ از ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص280۔

7۔ محمد بن یعقوب کلینی، الكافى، ج2، ص 104، ح2۔

8۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص3۔

9۔ شہیدی، زندگانی امام جعفر صادق (علیہ السلام)، ص5۔

10۔ الشیخ المفید، الارشاد۔ صص526-527۔

11۔ اللہ ہر چیز کا خلق کرنے والا ہے: الکلینی، الکافی، ج6، ص473۔

12۔ اے میرے معبود! تو میرا سہارا اور قابل اعتماد ہے پس اپنی مخلوق کے شر سے مجھے محفوظ رکھ: کلینی، وہی ماخذ؛ الکلینی، الکافی، ج6، ص473؛ نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج3، ص302؛ ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الإسلام‏، ج2، ص165۔

13۔ الشیخ المفید، الارشاد، صص526-527۔

14۔ الاربلی، کشف الغمہ، ج2، ص155؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص4۔

15۔ ابن قتیبہ الدینوری، عبداللہ بن مسلم، المعارف، ص215؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص4۔

16۔ الطبرسی، اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، ص514۔

17۔ مجلسی، بحارالانوار، ج47، صص1-2؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص85۔

18۔ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص280؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص85۔

19۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، صص85-86۔

20۔ الشیخ المفید، الارشاد، ص53۔

21۔ الشیخ المفید، الارشاد، ص553۔

22۔ الطبرسی، إعلام الورىٰ بأعلام الہدىٰ ج1، ص546۔

23۔ الشیخ المفید، الارشاد، ص553-554۔

24۔ الشیخ المفید، الارشاد، ص527۔

25۔ الطبرسی، اعلام الوریٰ، ج1، ص514۔

26۔ دیکھئے: الشیخ المفید، الارشاد، صص526-527۔

27۔ الشیخ المفید، الارشاد، صص528-527۔

28۔ دیکھئے: الشیخ المفید، الاختصاص، ص211؛ لطف اللہ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، باب8، ص97؛ الطبرسی، اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، ج2، ص182-181؛ شیخ حر العاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔

29۔ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ؛ اے ایمان لانے والو!فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں فرماں روائی کے حق دار ہیں"۔ (سورہ نساء، آیت 59)۔

30۔ علامہ مجلسی، بحارالأنوار ج 23 ص290؛ شیخ حر العاملی، اثبات الہداة ج3،‌ ص123؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص 283۔

31۔ "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا؛ اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اور [یہ کہ] اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے"۔ (سورہ احزاب کی آیت 33)۔

32۔ علامہ مجلسی، بحار الأنوار ج36، ص337؛ علی بن محمد بن علی خزاز قمی، کفایۃ الأثر فی النص علی الأئمۃ الإثنی عشر، ص157۔

33۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودۃ، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔

34۔ الشیخ الصدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج4، ص400۔

35۔ شہیدی، زندگانی امام جعفر صادق (علیہ السلام)، ص60۔

36۔ شہیدی، زندگانی امام جعفر صادق (علیہ السلام)، ص47۔

37۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص61۔

38۔ الاربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص166؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص61۔

39۔ احمد بن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ، ص201۔

40۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص61 بحوالہ از شمس الدین محمد بن أحمد الذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ج1، ص166۔

41۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص60-61۔

42۔ "قُلْنَا لِلْمَلآئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ٭ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَاْ خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ؛ ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، اس پر ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا ٭ ارشاد ہوا کس چیز نے تجھے منع کیا جو تو سجدہ نہ کرے باوجودیکہ میں نے تجھے حکم دیا۔ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے"۔ (سورہ اعراف، آیات 11-12)۔

43۔ زبیر بن بَکّار، الاخبار الموفقیات، ص76-77؛ ابو نُعَیْم اصبہانی (اصفہانی)، احمد بن عبد اللہ بن احمد حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، ج3، ص197؛ به نقل شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص62۔

44۔ الکلینی، اصول کافی، ج1، ص171-173؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص243-244؛ الاربلی، کشف الغمة، ج2، صص173-175؛ الطبرسی، اعلام الوریٰ، صص280-283۔

45۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص57۔

46۔ المرزباني، أخبار السيِّد الحميري، 159؛ امینی، عبدالحسین، الغدير، ج2، ص221۔

47۔ الشیخ الصدوق، عيون اخبار الرضا(ع)، ج2، ص225۔

48۔ سورہ بقرہ، آیت 156۔

49۔ الشیخ الصدوق، عيون اخبار الرضا(ع) (مطبوعہ بيروت 1404ه‍ - 1984ع‍)‍، ج2، ص228۔

50۔ الکلینی، روضۃ الکافی، ص264، حديث381؛ شیخ حر عاملی، ج11، ص36۔

51۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص34۔

52۔ ابن اثیر، علی بن محمد الجزری الشیبانی، الکامل فی التاریخ، ج5، ص409؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، صص34-35۔

53۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص35۔

54۔ الیعقوبی، احمد بن ابی یعقوب بن جعفر، تاریخ الیعقوبی، ج3، ص86؛ به نقل شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص35۔

55۔ الکلینی، اصول الکافی، ج2، صص243-242؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص34-37۔

56۔ شہیدی، سیدجعفر، زندگانی امام صادق(ع)، ص102۔

57۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص103۔

58۔ الشیخ الصدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ج3، ص175؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص103۔

59۔ ابو نعیم اصفہانی، حلیۃ الاولیاء، ج3، ص196؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص106۔

60۔ الاربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص186؛ اصفہانی، حلیۃ الالیاء، ج3، صص198-199؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص65

61۔ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص65۔

62۔ ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، ج2، ص103؛ زندگانی امام صادق(ع)، ص4۔

63۔ ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، ص104؛ شہیدی، زندگانی امام صادق(ع)، ص4۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110