اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

2 مارچ 2024

9:45:51 PM
1441768

فلسطین انسانی برادری کے ضمیر کا معیار ہے، آج خاموش رہنے والے کل بھاری نقصان اٹھائیں گے۔۔۔ صدر ڈاکٹر رئیسی

فلسطینیوں پر مسلط کردہ صہیونی جنگ در حقیقت شرارت اور شرافت کے محاذوں کا باہمی معرکہ ہے۔ اس محاذ کا ایک فریق وہ فوج ہے جس کو ہر وقت امریکی بموں اور زیادہ سے زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہتھیاروں کا انتظار رہتا ہے اور دوسرا فریق وہ بچے ہیں جن کو روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔ جن لوگوں نے آج خاموشی اختیار کی ہے ان کو کل بھاری تھپڑ کھانا پڑے گا۔ آج فلسطین انسانی برادری کے ضمیر کا معیار اور پیمانہ ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صدر اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے الجزائر میں منعقدہ گیس پیدا کرنے والے ممالک کے سربراہی اجلاس سے خطاب کے دوران غزاوی فلسطینیوں پر صہیونیوں کے جرائم کے تسلسل اور امریکہ اور مغربی ممالک کی اس نسل کشی کی حمایت جاری رہنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صہیونی قتل و نسل کشی کی مشین روکنے کے لئے حکمت عملیوں پر مبنی تجاویز پیش کیں اور کہا: فلسطینیوں پر مسلط کردہ صہیونی جنگ در حقیقت شرارت اور شرافت کے محاذوں کا باہمی معرکہ ہے۔ اس محاذ کا ایک فریق وہ فوج ہے جس کو ہر وقت امریکی بموں اور زیادہ سے زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہتھیاروں کا انتظار رہتا ہے اور دوسرا فریق وہ بچے ہیں جن کو روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔ جن لوگوں نے آج خاموشی اختیار کی ہے ان کو کل بھاری تھپڑ کھانا پڑے گا۔ آج فلسطین انسانی برادری کے ضمیر کا معیار اور پیمانہ ہے۔

 صدر سید ابراہیم رئیسی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:

میں ابتداء میں عالم انسانیت کے اہم ترین مسئلے ـ یعنی فلسطین ـ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔

مغرب کا تسلط پسند نظام، جو اقوام عالم کے استعمار پر استوار ہؤا ہے، آج ماضی سے کہیں زیادہ کمزور، کھوکھلا اور مہمل ہو چکا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی بقاء کی ضمانت "تسلط پسند اور تسلط پذیر" کے درمیان کے سابقہ رابطے کو جاری رکھ کر ہی دی جا سکتی ہے۔ الجزائر کی غیرت مند قوم کی طرح کی اقوام، استقامت اور 10 لاکھ شہداء کی قربانی دے کر استعمار کے اس بھاری بوجھ کو اپنے دوش سے اتار پھینکنے اور رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ جبکہ یہی بوجھ فلسطین کی مظلوم ملت سمیت کئی ملتوں کے کندھوں پر بدستور محسوس کیا جا سکتا ہے۔

اس میں شک نہیں ہے کہ صہیونی ریاست ایک استعماری منصوبہ ہے۔ اس لئے کہ خطے میں مغرب کا تسلط اور اثر و نفوذ باقی رکھا جا سکے اور آج ـ جبکہ ملت فلسطین کی مقاومت (و مزاحمت) کی برکت سے شیشے کی اس چھاؤنی کے ستون ڈھائے جا چکے ہیں اور اس کے وجود پر ناقابل تلافی ضربیں رسید ہو چکی ہیں، ـ سب پر فرض اور واجب ہے کہ اس اس مظلوم مگر بہادر قوم کو ہر ممکنہ روش سے مدد بہم پہنچائیں اور ان کی حمایت کریں۔

موجودہ معرکہ شرافت کے محاذ کے مقابلے میں شرارت کے محاذ کا معرکہ ہے۔ ایک طرف ایک فوج ہے جس کو امریکی ہتھیاروں اور زیادہ سے زیادہ طاقتور اور زیادہ تباہ کن بموں کا انتظار ہے اور محاذ کا دوسرا فریق وہ بچے ہیں جو روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔  جو لوگ آج خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں کل بہت شدید تھپڑ برداشت کرنا پڑے گا۔ آج فلسطین انسانی برادری کی انسانیت، اخلاق اور ضمییر کا معیار اور پیمانہ ہے۔

ایسے حال میں کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صہیونی دہشت گردوں نے 30 ہزار سے زائد خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا ہے، ہزاروں فلسطینی کئی مہینوں سے عمارتوں اور مکانات کے ملبوں تلے دبے ہوئے ہیں، اور بلا ناغہ بمباریوں کی وجہ سے ان کی لاشیں باہر نکالنے کا امکان نہیں ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ کئی لاکھ خواتین اور بچے ناکافی اور ناقِص غَذائیت اور مختلف قسم کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے ساتھ دست بگریباں ہیں۔ امریکی پالیسیوں نے غزہ کو سنجیدہ قحط اور بھوک اور پیاس سے دوچار کر دیا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کے منشور میں صلح و سلامتی کی محافظ کے طور پر متعارف کرائی گغی ہے، لیکن وہ صہیونی ریاست کی جنگی مشین کے تئیں امریکہ کی لامحدود مدد و حمایت کی وجہ سے، اپنا فریضۂ منصبی نبھانے اور غزہ کے خلاف صہیونی جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کے نفاذ سے عاجز ہو چکی ہے۔ امریکہ نے صہیونی ریاست کی منظم دہشت گردی کی سیاسی، مالی، ابلاغیاتی و تشہیری مدد و حمایت کی انتہا کر دی ہے اور امریکہ اور یورپ کے تیار کردہ بم اور مختلف ہتھیار فلسطینی کاز سے انتقام لینے میں مصروف ہیں۔

امریکہ اور یورپ اگر واقعی امن و سلامتی اور جنگ کے دائرے کا پھیلاؤ روکنے کے درپے ہیں تو انہیں جھوٹ، ریاکاری اور منافقت سے اجتناب کرنا پڑے گا اور فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے بم، گولہ بارود اور ہتھیار کی ترسیل بند کرنا پڑے گی۔

آج لاطینی امریکہ سے یورپ اور امریکہ تک اور وہاں پوری دنیا تک، غزہ کے عوام کی مظلومیت کی صدا سنائی دے رہی ہے اور اقوام عالم غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی فوج کے افسران اپنے آپ کو میں بھسم کرنے کو مغربی جرائم کے جہنم میں قدم رکھنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ امریکہ کو جواب دینا پڑے گا کہ کیا امریکی جنگ پرستی کے خلاف احتجاج کرنے والے ان افسروں کی فریاد سننے کا کوئی انتظام ہے یا نہیں بلکہ دوسرے معترضین کو بھی آگ میں بھسم ہونا پڑے گا، تاکہ ان کی صدا سنی جا سکے؟

غزہ میں غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں کھانا وصول کرنے کے لئے قطار لگائے فلسطینیوں کے قتل عام کا المیہ ناقابل برداشت ہے جس کے لئے بین الاقوامی سطح کی جوابی کاروائی اور ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو صہیونیوں کو باز رکھا جاسکے۔

عرصہ پانچ مہینوں سے مختلف ممالک کے احرار ـ بلا ناغہ ـ صہیونیوں کے جرائم اور ان جرائم کو حاصل امریکی حمایت پر اعتراض اور احتجاج کر رہے ہیں، اور مایوسی کا شکار نہیں ہو رہے ہیں۔ ان کی مسلسل فریاد یہی ہے کہ غزہ میں "طفل کشی کا سلسلہ روک لو"، "غزہ کے عوام کا محاصرہ ختم کرو"، اور "غزہ کے مظلوم عوام پر پانی، خوراک اور ادویات کی ترسیل بند نہ کرو"، "اسپتالوں پر بمباری کا انسان دشمن اقدام بند کرو"، "امدادی مراکز، بین الاقوامی دفاتر، اقوام متحدہ اور ریڈکراس کے دفاتر پر حملے بند کرو"۔ "میڈیا کارکنوں اور نامہ نگاروں کا قتل بند کرو"۔

یاد رکھو کہ فلسطین کی مظلوم مگر بہادر اور جری قوم کی صدا کو خاموش کرنا ممکن نہیں ہے۔

میں ایران کی بہادر قوم کے نمائندے کے طور پر پورے محور مقاومت (محاذ مزاحمت)، خصوصا حماس، اسلامی جہاد اور سربلند حزب لبنان اور یمن کے بہادر مجاہدین اور ہر ان حریت پسند انسانوں کا شکریہ اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے دلیری کا ثبوت دیتے ہوئے صہیونیوں کی جنگ پرسی اور غزہ کے مظلوم عوام کے وحشیان قتل عام کے مقابلے میں دامے درمے سخنے، موقف اختیار کیا ہے۔

غاصب اسرائیل تمام تر جرائم کے باوجود کے باوجود اپنا ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر سکا ہے۔ فلسطینی مقاومت بدستور قائم و دائم ہے اور اپنی استقامت کا عملی ثبوت فراہم کر رہی ہے۔ ملت فلسطین نے ثابت کرکے دکھایا کہ "خون تلوار پر غالب ہے"۔

ہم اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ غزہ پر مسلط کردہ جنگ کا فوری اور غیر مشروط خاتمہ ہونا چاہئے، غزہ کا محاصرہ فوری طور پر ختم ہونا چاہئے اور انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کو یقینی بنانا چاہئے اور ہم ہر اس حوالے سے ہر اقدام کی حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں۔

غاصب صہیونی ریاست، امریکہ اور اس ریاست کے دوسرے حامیوں کے جرائم پر ایک اہل بین الاقوامی عدالت میں غور ہونا چاہئے اور ان کو اپنے جرائم کی سزا ملنا چاہئے۔

- صہیونی ریاست کو اقوام متحدہ اور تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورموں سے نکال باہر کرنا چاہئے اور دنیا بھر کی قوموں اور حکومتوں کی طرف سے پابندیوں کا نشانہ بننا چاہئے۔

- مسلم اقوام کو بجا توقع ہے کہ ان کے حکمران صہیونیوں کے ساتھ تمام خفیہ اور اعلانیہ تعلقات منقطع کریں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو فوری طور پر اپنے عوام کے اس مطالبے پر عمل کرنا چاہئے۔

ہمیں یقین ہے کہ اس درندہ صفت ریاست کے مقابلے میں ـ جس نے تمام بین الاقوامی قرادادوں کو پامال کر رکھا ہے اور حتی کہ کچھ حکمرانوں کے ساتھ ساز باز پر مبنی سمجھوتوں کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے، اور اب ایک بار پھر غزہ پر فوجی قبضہ کرنے اور ملت فلسطین کو ایک بار پھر ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ـ مقاومت اور مزاحمت واحد راستہ ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک قابل عمل سیاسی منصوبہ پیش کیا ہے اور اسے یقین ہے کہ فلسطین کے  مسلم، عیسائی اور یہودی عوام ـ چاہے وہ دنیا کے جس گوشے میں بھی رہائش پذیر ہوں ـ کی آراء سے رجوع کیا جائے اور اس تاریخی سرزمین کے مقدر کا فیصلہ ملت فلسطین کے سپرد کرنا چاہئے۔

ملت فلسطین کی حتمی فتح اور قدس شریف کی آزادی کی امید رکھتا ہوں، اور محاذ مقاومت کے تمام مجاہدوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110