اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق ایران کے صوبہ البرز میں واقع رجائی شہر نامی جیلخانے میں سزائے موت پانے والوں کی مشاورت پر مامور عالم دین کہتے ہیں:
تقریبا 23 سال قبل ایک نوجوان تلاش روزگار میں تہران پہنچتا ہے اور اسے ایک کباب خانے میں مزدوری ملتی ہے۔ کچھ عرصہ گذر جاتا ہے اور ایک رات جب دکان بند ہونے لگتی ہے تو مالک جمع پونجی اٹھا کر گننے لگتا ہے تو نوجوان نفسانی بہکاوے میں آکر رقم چھیننے کے لئے جھپٹا ہے اور چھینا جھپٹی کے دوران مالک جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور نوجوان فرار ہوجاتا ہے لیکن بہت جلد قانون کے نرغے میں آکر گرفتار ہوجاتا ہے،
مقدمہ چلتا ہے اور عدالت اس کو سزائے موت اور اس سے پہلے چند سال قید کی سزا دی جاتی ہے، اپیل مسترد ہونے کے بعد، نوجوان سزا پانے کے لئے رجائی شہر کے جیلخانے میں منتقل کیا جاتا ہے اور سزائے موت پر عمل درآمد میں اٹھارہ سال کا عرصہ لگتا ہے اور اس عرصے میں وہ نوجوان بھی بدل جاتا ہے اس قدر نیک سیرت کہ جیل کے تمام قیدیوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔
اٹھارہ سال بعد سزائے موت کے فیصلے پر عملدرآمد کا اعلان ہوتا ہے؛ مقتول کے اہل خانہ بھی جیلخانے میں پہنچ جاتے ہیں: بیوی، 7 بیٹے، تین بیٹیاں، سب دفتر میں بیٹھ جاتے ہیں؛ ماحول بہت بھاری تھا اور میں نے مختصر تمہید باندھ کر مقتول کے اہل خانہ سے کہا کہ "قصاص کو نظر انداز اور قاتل کو معاف کریں"۔
مقتول کی بیوی کہتی ہے: میں نے قصاص کا اختیار اپنے بڑے بیٹے کو سونپ دیا ہے۔
بڑا بیٹا کہتا ہے: میں نے یہ اختیار اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو منتقل کیا ہے۔
سب سے چھوٹا بیٹا کہتا ہے: اگر میری والدہ اور بھائی بہنیں قاتل کو بخش بھی دیں میں اسے نہیں بخشوں گا، کیونکہ میں بہت چھوٹا تھا جب اس شخص نے مجھے باپ کے سائے سے محروم کیا اور یتیمی کا یہ طویل عرصہ مجھ پر بہت بھاری گذرا ہے۔
اہل خانہ گویا سزا دلوانے پر متفق القول تھے میں نے سوچا کہ اگر قاتل کو ان کے سامنے لے آؤں اور وہ کوئی جملہ کہہ دے تو ممکن ہے کہ اہل خانہ کو ترس آئے اور اس کی جان بخشی کریں۔ چنانچہ ميں نے جیل کے اہلکاروں سے کہا کہ قیدی کو دفتر میں لے آئیں۔
مجھے یاد ہے کہ شدید سردی پڑ رہی تھی اور قیدی جب دفتر میں آیا تو چونکہ اس نے ایک پتلے سے کپڑے کی شرٹ پہن رکھی تھی اور سردی کے مارے دفتر کے گوشے میں بھاپ والے چھوٹے سے ہیٹر کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ بالکل خاموش اور پرسکون۔
میں نے کہا: اگر کچھ کہنا چاہتے ہو تو کہہ دو، کوئی درخواست، کوئی التجا!
کہنے لگا: کچھ نہیں۔
وقت بہت کم تھا سزا کی مقررہ گھڑی بہت قریب تھی، اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا، میری کوششیں ناکام ہوچکی تھیں، چنانچہ قیدی کو پھانسی کے لئے تیار کردہ تختۂ دار کے قریب لے جایا گیا اور مقتول کی بیوی اور ایک بیٹی دفتر میں بیٹھی رہ گئیں اور باقی سب متعلقہ احاطے میں پہنچ گئے۔
میں نے سنا کہ ماں نے بچوں سے کہا: "اگر اسے معاف کیا تو میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی"۔
قیدی تختۂ دار کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا بالکل پرسکون، مکمل اطمینان کے ساتھ، کسی بھی خوف اور گھبراہٹ کے بغیر؛ اور مقتول کے گھر والوں کی طرف رخ کرکے کیا "میری صرف ایک التجا ہے آپ سے"۔
میں نے ـ جو اسی لمحے کا منتظر تھا ـ جیل کے اہلکاروں سے کہا کہ "رک جاؤ، تا کہ وہ اپنی خواہش ظاہر کرے"۔
قیدی نے مقتول کے اہل خانہ سے کہا: "میری سزائے موت کا حکم آج سے 18 سال قبل جاری ہوا ہے اور آپ نے اتنا طویل عرصہ صبر و تحمل سے کام لیا ہے؛ آج 12 ذوالحجۃ الحرام کا دن ہے اور تاسوعائے حسینی (نو محرم الحرام) میں صرف 18 دن رہتے ہیں؛ آپ نے 18 سال صبر کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مزید 18 دن صبر کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا؛ حقیقت یہ ہے کہ میں برسوں سے شکر کی ڈلیوں کا اپنا حصہ (Quota) پورا سال جمع کرتا رہتا ہوں اور تاسوعا کے دن حضرت عباس علمدار علیہ السلام کے نام پر عزادار قیدیوں کو شربت کی نیاز دیتا ہوں؛ اس سال بھی میں نے اپنا حصہ جمع کرلیا ہے، آپ اجازت دیں گے تو میں حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی نیاز دے دوں اور پھر آپ آجائیں اور مجھے بڑی تسلی سے سزا دلوائیں، مزید میری کوئی خواہش نہیں ہوگی۔
ماحول بالکل منقلب ہوچکا تھا، مقتول کے اہل خانہ کے دل و دماغ میں انقلاب آچکا تھا، چھوٹا بیٹا ـ جو سزا دلوانے کا مختار کل تھا ـ روہانسا ہوکر کہنے لگا: "میں حضرت ابوالفضل العباس(ع) سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ میں قصاص کا خواہاں نہیں ہوں۔
دوسرے بہن بھائی بھی اشکبار آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور کوئی بھی قاتل کو سزا دلوانے کے لئے تیار نہیں تھا۔
مقتول کے بچے دفتر میں آ گئے۔ ماں نے پوچھا: کیا تم نے قاتل کو سزا دلوائی، کیا اس سے قصاص لے لیا؟
بڑے بیٹے نے ماجرا کہہ سنایا تو ماں بھی رونے لگی اور کہا: اگر تم اسے سزا دلواتے تو میں تمہیں اپنا دودھ نہ بخشتی!
مختصر یہ کہ باب الحوائج حضرت ابوالفضل العباس بن علی علیہ السلام کا نام آیا تو 11 افراد نے یک زبان ہوکر قاتل کو بخش دیا۔ بیوی شوہر کے خون سے اور 10 بچے باپ کے خون سے درگذر کرگئے۔ وہی جو کچھ ہی لمحے قبل قاتل کو سزا دلوانے پر اصرار کررہے تھے۔
قرباں جاؤں ابوالفضل العباس پر، باب الحوائج، جن کا نام سن کر مقتول کے وارث اپنے مقتول کے خون کو بھول جاتے ہیں؛ ایسا نام جو قاتل کو سزائے موت سے نجات دلواتا ہے ۔۔۔ قاتل بھی ایسا جو 18 سالہ قید کے دوران ابوالفضل کا مرید بن چکا تھا اور ابوالفضل نے ہی اس کی جان بخشی کروائی۔ وہ قید میں جو کچھ کرسکتا تھا، ابوالفضل کے نام سے کرتا رہا تھا، کیا ہم آزادانہ زندگی میں ایسا کچھ نہیں کرسکتے جو حضرت ابوالفضل کی رضامندی کا باعث بنے: اطاعت امام، حاجتمندوں کی حاجت برآری وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ؟
۔۔۔۔۔۔۔
مترجم: فرحت حسین مہدوی