بعثت
رسول خدا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ او آلہ) کی بعثت، تاریخ اسلام کا اہم ترین مرحلہ ہے اور اسے بشریت کی تاریخ کے انتہائی اہم اور مؤثر واقعے کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کی بعثت کے ذریعے تا قیام قیامت انسانوں پر اپنی حجت کو تمام کر دیا۔ نعمتوں کو وافر کر دیا اور ہدایت کے چراغ کو روشن کر دیا۔ بعثت کے بعد نزول قرآن کا آغاز ہو گیا جو تئیس برس کے عرصے پر محیط ہے۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے جس میں ہر خشک و تر کا ذکر ہے اور نبی کریمؐ نے اسی کتاب الہٰی کے ذریعے ایک ایسی امت کی تربیت کی کہ جنہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں سرزمین عرب سے شرک و بت پرستی کا قلع قمع کر دیا۔
بعثت کے معنی
’’بعثت‘‘ کا مادہ ’’بعث‘‘ ہے جس کا معنی ہے اٹھانا اور بھیجنا۔ [1][2] شریعت میں اس کا معنی خدا کا کسی انسان کو جنوں اور انسانوں کی طرف یا ان میں سے کسی ایک کی طرف بھیجنا ہے تاکہ انہیں حق کی دعوت دے اور اس کی شرط پیغمبری کا دعویٰ اور معجزے کا اظہار ہے۔ [3][4] اس کی مناسبت سے فقہ کے باب نکاح میں بحث کی گئی ہے۔
قرآنی آیات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ خدائے متعال مناسب اوقات میں کچھ پیغمبروں کو لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیجتا رہا ہے اور اس نے کسی قوم کو بھی الہٰی رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔
بعثت کی اہمیت
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت انسانوں کی سرنوشت اور ہدایت کے حوالے سے ایک عظیم واقعہ ہے اور اس امر کی عظمت سبب بنی کہ خدائے متعال اس عظیم امر کے مقدمے کے عنوان سے آنحضرتؐ کو مستقبل میں پیش آنے والی سختیوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے بچپن سے ہی مرحلہ وار آمادہ اور تیار کرے۔
عظیم تاریخی واقعات کا آغاز
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت انسانی معاشروں کی فکری اور عقائدی تبدیلیوں کا اہم ترین سرچشمہ شمار ہوتی ہے؛ اس کے باوجود سیرت نگاروں نے اس پہلو سے غفلت کی ہے۔ ان کی مجعول اور بے بنیاد روایات نہ صرف یہ کہ خدا کے آخری پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے شایان شان نہیں ہے بلکہ بشری ادراکات سے بھی ناسازگار ہیں۔[5] تاہم اس مختصر مقالے میں ان کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ ہم یہاں پر صرف شیعہ روایات اور احادیث کے نقطہ نظر سے بعثت کے واقعات کا جائزہ لینے پر اکتفا کریں گے۔
بعثتِ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نوید
حضرتؑ کے ظہور کی بعض خصوصیات اور علامات ادیان کی سابقہ کتب و روایات میں مذکور ہیں اور بعض اہل کتاب اور مشرک عرب بھی ان سے آشنائی رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس حوالے سے فرماتا ہے: الَّذِینَ ءَاتَیْنَهُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُو کَمَا یَعْرِفُونَ اَبْنَآءَهُمْ وَاِنَّ فَرِیقًا مِّنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یعلمون [6]
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ ان (پیغمبر آخرالزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں، مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔
بعثت، جہالت، گمراہی، فساد اور تباہی کے خلاف ایک عظیم انقلاب ہے اور خدا کے احسان اور علم و حکمت اور انسانوں کی تربیت کی ضامن ہے۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اِذْ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْ اَنفُسِهِمْ یَتْلُواْ عَلَیْهِمْ ءَایَتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ [7] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے
حضرت علیؑ پیغمبر خاتمؐ کی بعثت کے فلسفے کے بارے میں فرماتے ہیں: خدائے سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد(ص) کو مبعوث فرمایا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے۔ کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔ کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔ مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔ [8]
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قبل از بعثت روحانی حالات
اسی تربیت الہٰی کے نتیجے میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بعثت سے سالہا سال قبل غیر معمولی معنوی حالات اور روحانی مشاہدات کے حامل تھے اور اس کے نتیجے میں آپؐ نے یہ تمام عرصہ پاکی، طہارت اور معنویت کے عالم میں بسر کیا۔ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے اپنے سب سے بزرگ فرشتے کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بچپن سے آپؐ کے ہمراہ کر رکھا تھا۔ یہ فرشتہ شب و روز کے تمام اوقات میں حضرتؐ کے ہمراہ رہتا اور آپؐ کو عظمت کی راہوں اور پسندیدہ و شائستہ اخلاق کی طرف رہنمائی کرتا تھا۔
بعثت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مقدمات
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) انہی معنوی احوال اور روحانی طہارت کے باعث لوگوں کی ابتر صورتحال اور مکہ کے اس معاشرے پر حکمفرما جہالت و فساد سے رنجیدہ خاطر رہتے تھے۔
اسی طرح تفکر اور عبادت کی غرض سے ایک خلوت کے مقام پر ہر سال ایک محدود مدت کیلئے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ یہ خلوت حنفا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے قبل کے بعض یکتا پرستوں کیلئے بھی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے عبد المطلب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جد بزرگوار اس رسم کے بانی تھے۔ وہ ماہ رمضان کے دوران خلوت و عبادت کیلئے پہاڑ پر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں پر آمد و رفت رکھنے والے محتاجوں اور فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خلوت پسندی رسول اکرمؐ کی روحانی حیات کی تقویت کی راہ ہموار کرتی تھی اور یہ بعثت اور نزول وحی کا ایک مقدمہ تھی۔
نبی کریمؐ کی خلوتوں کے اس زمانے میں بھی زندگی کے دیگر مراحل کی طرح حضرت علیؑ بھی رسول اللہؐ کے ہمراہ رہتے تھے اور بعض اوقات آنحضرتؐ کیلئے کھانا بھی لے جایا کرتے تھے۔
بعثت کا ہدف اور فلسفہ
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت اور آپؐ کا ہمیشگی معجزہ قرآن بشر کو حقائق سے متعارف کرنے کیلئے تھا۔ سابقہ پیغمبروں نے بعض حقائق انسانی معاشروں کے عقلی ارتقا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بیان کیے تھے کہ جن سے انسان بالکل ہی جاہل تھا یا کسی نہ کسی حد تک ناواقف تھا۔ کائنات کی ابتدا اور تخلیق کی علت، دنیوی زندگی کے انجام اور بعد از مرگ کے حقائق ان امور میں شامل ہیں۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا دین، قبل از بعثت
خاتم انبیاء کے قبل از بعثت دین کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ جن کا جائزہ لینے کیلئے ایک مستقل تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ اس مقالے میں علمائے شیعہ اور علمائے اہل سنت کے متفقہ اقوال پر اکتفا کیا جائے گا۔ رسول اکرمؐ اور آپؐ کے بزرگ حضرت عبد المطلب اور ابو طالب اہل توحید اور شریعت ابراہیم پر عمل پیرا تھے۔ [9][10] کہ جنہیں قرآن میں ’’حنفاء‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ [11] خدا کے ساتھ مناجات اور راز و نیاز کیلئے خلوت کے عمل کو ’’تحنف‘‘ یا ’’تحنث‘‘ کہا جاتا ہے؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بعثت سے قبل گذشتہ انبیاء کی شریعت پر عمل پیرا تھے؛ (جیسا کہ غزالی، قاضی عبد الجبار، سیف الدین آمدی، تاج الدین عبد الوھاب سبکی سمیت بعض علمائے اہل سنت نیز بعض علمائے شیعہ جیسے سید مرتضیٰ کا یہی خیال ہے) بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتؐ عقائد جیسے توحید، معاد، اخلاقیات، اور معاندین و مشرکین کے آزار و اذیت پر صبر میں دیگر انبیائے الہٰی کی مانند استوار اور ثابت قدم تھے۔
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا کلام
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) جو رسول خداؐ کے حالات کی نسبت سب سے زیادہ آگاہ ہیں؛ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے دودھ چھڑائی کے زمانے سے ہی اپنے عظیم ترین فرشتے کو آپؐ کے ہمراہ کر دیا تھا تاکہ وہ ہمیشہ آپ کی اعلیٰ ترین اخلاق و اطوار کی طرف رہنمائی کیا کرے۔ [12] جیسا کہ خود آنحضرتؐ فرماتے ہیں: کنت نبیاً و آدم بین الروح والجسد؛ [13] میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم کے روح اور جسم کے درمیان تھے [اور ان کے پتلے میں روح نہیں پھونکی گئی تھی]۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی بعثت سے قبل کس شریعت کے تابع تھے؟
لہٰذا شیعہ و سنی علما کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)، اسلام سے پہلے کے کسی دین یا شریعت کے تابع نہیں تھے بلکہ اپنی شریعت پر ہی عمل کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی ہدایت خاصہ اور وحی و الہام کے دروازے آپ پر کھلے رہتے تھے۔
بعثت کے مراحل
مقام بعثت پر فائز ہونے کیلئے خدائے متعال نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کیلئے تمام ضروری مقدمات فراہم کیے؛ جیسے سچے خواب دیکھنا، غیبی آوازیں سننا اور آخرکار حضرت جبرئیل کو دیکھنا۔
الف۔ سچے خواب
بعثت سے کچھ پہلے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ایسے خواب دیکھتے تھے جو بالکل درست ثابت ہوتے تھے [14] اور بعض اوقات فرشتے کو دیکھا کرتے تھے جو آپؐ سے بات کرتا تھا۔ [15]
ب۔ ندائے غیبی
آنحضرتؐ 37 برس کے سن مبارک سے ایسے روحانی مراتب پر فائز تھے کہ آپ غیب کے دریچے کھل جانے کا احساس کرتے تھے؛ کیونکہ ایک مخصوص نور کو دیکھتے تھے اور کچھ اسرار آپؐ پر ظاہر ہو جاتے تھے۔ بارہا غیبی صدائیں سنا کرتے تھے مگر آواز دینے والا دکھائی نہیں دیتا تھا [16][17][18] اور بسا اوقات آپؑ کو درخت اور پہاڑ کے اوپر سے آواز دی جاتی تھی۔ [19]
ج۔ جبرائیل کا دیدار
آنحضرتؐ نے بعثت سے قبل جبرئیل کو دیکھا جو آپؐ کو رسولؐ اللہ کہہ کر خطاب کر رہا تھا
[20] جس قدر بعثت کا زمانہ نزدیک ہو رہا تھا تھا، غار حرا میں خلوت کی مدت اور تفکر و عبادت کی طرف رغبت میں اضافہ ہو رہا تھا۔
بعثت کا مقام
غار حرا، کوہ نور کی چوٹی پر واقع ہے۔ مکہ کے شمال مشرق میں واقع یہ پہاڑ شہر سے دو فرسخ کے فاصلے پر ہے اور 200 میٹر اونچا ہے [21] یہ مقام پرانے وقتوں سے ایک مقدس مقام [22][23] اور حقیقت کے متلاشی انسانوں کے اعتکاف کی جگہ ہے کہ جنہیں ’’حنفا‘‘ کہا جاتا تھا۔ [24]
الف۔ غار کا جغرافیہ
غار کی سطح ہموار اور ایک بلند قامت شخص کے بیٹھنے اور کھڑے ہونے کیلئے مناسب ہے؛ تاہم اس کے اوپر جانا؛ ناہمواریوں کے باعث دشوار ہے۔ غار کا دہانہ کعبہ اور محلہ بطحا کی جانب ہے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس میں تشریف فرما ہو کر کئی کئی گھنٹے اپنی قوم کو بے ہودگیوں سے نجات دلانے کی فکر میں رہا کرتے تھے۔ کتابوں میں بعثت سے قبل کی زندگی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذاتی خصوصیات کے حوالے سے مفصل بحث نہیں کی گئی ہے؛ تاہم غار حرا میں گوشہ نشینی اختیار کرنے سے یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ آپؐ ہمیشہ اپنی قوم کی نجات کیلئے کسی تدبیر کی فکر میں رہا کرتے تھے۔
ب۔ غار میں ٹھہرنے کی مدت
عام طور پر یہ گوشہ نشینی، سال میں ایک مرتبہ ایک ماہ تک غار حراء میں جاری رہتی تھی۔ رسول اکرمؐ اس مدت کے دوران ان حاجت مندوں کو کھانا کھلاتے تھے جو آپؐ کے پاس آتے تھے۔ [25] اس کے بعد سات مرتبہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور گھر واپس آ جاتے تھے۔ بعثت کے نزدیک کے سالوں میں کہ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے عقلی اور روحانی قوا پورے اوج پر تھے، آپؐ کی لوگوں سے کنارہ کشی کی رغبت اور شوق [26] اور تفکر و عبادت، کچھ اس طرح تھی کہ دن رات غار حرا میں بسر کرتے تھے؛ بالخصوص ماہ رمضان میں تحنث (گوشہ نشینی) کی مدت زیادہ طولانی ہوتی تھی۔ اس مدت میں علیؑ، آپؐ کی زوجہ خدیجہ یا گھر کا کوئی اور فرد آپؐ کیلئے پانی اور غذا لے کر جاتے تھے۔ [27] یہ حالات اسی طرح جاری رہے یہاں تک آنحضرتؐ کا سن مبارک چالیس سال تک جا پہنچا اور خدا تعالیٰ نے آپؐ کی اطاعت اور کمال خضوع و خشوع کا امتحان لینے کے بعد آپؐ کو مبعوث فرمایا تاکہ روشن اور محکم قرآن کے وسیلہ سے اپنے بندوں کو بتوں کی پرستش سے نکال کر اپنی عبادت کی طرف ہدایت دے۔
ج۔ امین وحی کا نزول
ایام عبادت گزرنے کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) مکہ واپس لوٹ آتے تھے اور اپنے گھر جانے سے قبل خانہ خدا کا طواف کرتے تھے۔ رسول خداؐ کئی کئی گھنٹے آسمانوں، پہاڑوں اور مکہ کے بیابانوں میں اپنے خالق کے ساتھ مناجات اور راز و نیاز میں مشغول رہتے تھے اور غور و فکر کرتے رہتے تھے؛ اپنی قوم کے لکڑی اور پتھر کے خداؤں سے بیزار تھے اور اس کا کوئی چارہ کرنے کی جستجو میں آسمانوں کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ جبرئیل امین اسی ایک تحنث (خلوت نشینی) کے دوران چالیس برس [28] کے سن میں آپؐ پر ظاہر ہوئے اور سورہ علق کی ابتدائی آیات [29] کی وحی کی۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) غار سے گھر تشریف لے گئے اور اپنی زوجہ کو اس ماجرے سے آگاہ کیا۔ حضرت خدیجہؑ آپؐ کے بلند کردار اور صادقانہ گفتار کی معرفت رکھتی تھیں، [30][31] سب سے پہلے آپؐ کی رسالت پر ایمان لائیں۔ [32]
اسی طرح تاریخی منابع کے علاوہ خود حضرت علیؑ نہج البلاغہ کے خطبہ 192 میں فرماتے ہیں: جب کسی گھر میں کوئی مسلمان نہیں تھا، میں ان میں سے تیسرا تھا۔ [33]
د۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ہمراہی
حضرت علیؑ مختلف مقامات منجملہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی گوشہ نشینی کے دوران بھی آنحضورؐ کے ہمراہ ہوتے تھے۔ نہج البلاغہ میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا کلام بھی خصوصیت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ آپؑ پہلی وحی کے نزول کے وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ اسی طرح تاریخی مطالعات بھی اس امر کے حاکی ہیں کہ وہ تنہا شخصیت کہ جس نے ان لمحات میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ساتھ دیا، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) تھے اور آپؑ کے علاوہ کسی نے ان لمحوں میں رسول اکرمؐ کی ہمراہی کا دعویٰ نہیں کیا۔ جبرئیل اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد اور آیات الہٰی کے ابلاغ کے بعد واپس آسمان کی طرف چلے گئے۔
ہ۔ پہلی وحی سے مقارن واقعات
پہلی وحی کے نزول کے وقت اور بعثت کے لمحات میں بڑے واقعات رونما ہوئے کہ جن میں سے شیطان کی چیخ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اس بارے میں فرماتے ہیں: میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کی آواز سنی تھی اور عرض کی تھی یارسول اللہ ! یہ چیخ کیسی ہے؟! تو فرمایا کہ یہ شیطان ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہو گیا ہے۔ تم وہ سب دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں اور وہ سب سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں۔ صرف فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو؛ لیکن تم میرے وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو۔
و۔ رسالت کی سنگینی
کائنات کے حقائق کا ادراک، امانت رسالت کے بوجھ کی سنگینی اور خرافات اور اوہام میں ڈوبی ہوئی قوم کی جانب سے تکذیب کے خوف نے آپؐ کو بخار میں مبتلا کر دیا؛ اسلامی تاریخوں نے جبرئیل کو دیکھتے وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خوف کی علت اپنی رسالت میں تردید کو قرار دیا ہے اور افسوس ایسی غیر منطقی تفاسیر شیعہ منابع میں بھی داخل ہو گئی ہیں۔ [34] پھر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک چادر اوڑھ لی اور کچھ دیر آرام کیا۔ اگلے دن جبرئیل پھر اترے اور آپؐ کو یہ پیغام پہنچایا کہ اپنی قوم کے انذار اور رسالت کے سخت امر کی ادائیگی کیلئے ہمہ وقت آمادہ رہیں۔ [35] اللہ کی آیات نے آپؐ کی روح و جان کے عمق میں ایسا انقلاب برپا کر دیا تھا کہ کائنات کے باطنی حقائق کو بغیر کسی شبہے کے چشم دل سے دیکھتے تھے۔ ما کذب الفؤاد ما رأی [36][37]
و۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے نزولِ وحی کے بعد کے حالات
بعثت سے قبل پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو الہام ہوا کرتے تھے اور آپؐ کے احوال غیر معمولی ہو جاتے تھے۔ مگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر پہلی وحی کے نزول کی کیفیت بطور کلی گزشتہ الہامات سے مختلف تھی۔ یہ امر سبب بنا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے روحانی احوال اور اس کے نتیجے میں جسمانی حالات منقلب ہو جائیں۔ چنانچہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) پہاڑ سے اترے اور مکہ کی سمت اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب گھر پہنچے تو بعثت کا ماجرا اپنی زوجہ ام المومنین حضرت خدیجہؑ کے گوش گزار کیا۔ حضرت خدیجہؑ بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زوجیت میں رہ کر آپؐ کی بزرگی اور کرامات کو دیکھ چکی تھیں، کہنے لگیں: خدا کی قسم! میں بہت عرصے سے اس دن کے انتظار میں تھی اور مجھے یہ امید تھی کہ آپؐ ایک دن مخلوق کے امام اور رہبر بنیں گے۔
رسالت کا آغاز
آغاز رسالت کے ساتھ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے سب سے نزدیکی رشتہ دار علیؑ کو حق کی دعوت دی؛ علیؑ کا جسم و جان رسول اکرمؐ کے زیر تربیت تھا؛ اور جاہلیت کے عقائد و افکار کے ساتھ آپؑ کا کوئی تعلق نہیں تھا، پس آپؑ نے پاکیزہ فطرت کے ساتھ خدا کی وحدانیت پر ایمان کا اظہار کیا۔ [38][39][40]
معصومین (علیہم السلام) سے منقولہ احادیث کے مطابق علمائے امامیہ کے نزدیک بعثت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا واقعہ 27 رجب بمطابق تعمیر کعبہ کے پانچویں سال کے بعد ہوا اور اس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا سن مبارک چالیس برس تھا
[41][42] اور ایک دوسرے قول جو قرآن کی تصریح [43][44] کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے، سے بھی ہم آہنگ ہے؛ کے مطابق بعثت کی تاریخ 17 رمضان ہے۔ [45] اہل سنت علما نے ماہ مبارک رمضان میں بعثت کے اثبات کیلئے سورہ بقرہ، سورہ دخان اور سورہ قدر سے استدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں رجب میں بعثت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ قرآن جس امر پر دلالت کرتا ہے وہ ماہ رمضان اور شب قدر میں اس کا نزول ہے؛ چونکہ بعثت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نزول قرآن کے ہمراہ تھی، اس بنا پر یہ بعثت بھی ماہ رمضان میں واقع ہوئی اور بعض نے
[46][47] 17، 18 اور 24 رمضان اور بعض نے 12 ربیع الاول [48] کو روز بعثت قرار دیا ہے۔ بعثت کی تاریخ کے بارے میں موجود اقوال اور تفاسیر تاریخِ بعثت اور ابتدائی آیات کے نزول کے بارے میں بہت مختلف ہیں؛ اس بنا پر قرآنی آیات کے مضمون پر اعتماد کرتے ہوئے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت 27 رجب کو ہوئی اور پھر سورہ علق کی ابتدائی آیات کے غار حرا میں خلوت کے دوران ماہ رمضان میں نزول کے بعد منصبِ رسالت پر فائز ہوئے اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد شب قدر میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قلب پر قرآن دفعی طور پر نازل ہوا اور اس کے کچھ عرصہ بعد سورہ مزمل کی آیات [49]
نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو شب بیداری اور مخلوق کو انذار و بشارت کرنے کی تلقین کی۔
کتاب التمھید کے مؤلف کہتے ہیں:
اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے مطابق بعثت ماہ رجب میں واقع ہوئی ہے، تاہم قرآن ایک آسمانی کتاب کے عنوان سے اس کے تین سال بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر نازل ہوا اور ان تین سالوں میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مخفیانہ دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر علنی دعوت کا آغاز فرمایا جس کے ساتھ قرآن کے نزول کا بھی آغاز ہو گیا۔ [50]
اہل کتاب سے ملحق مشرکین کے احکام
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت سے قبل اہل کتاب سے ملحق ہونے والے مشرکین پر اہل کتاب کے احکام لاگو ہوں گے؛ ان مشرکین کے برخلاف جنہوں نے بعثت کے بعد ان کا دین اختیار کیا ہے۔ [51][52]
۔۔بعثت کے بعد اہل کتاب کا رجحان
اگر اہل کتاب میں سے کوئی فرد بعثت کے بعد اسلام کے علاوہ کسی دوسرے آسمانی دین کو اختیار کرے؛ جیسے عیسائی یا یہودی ہو جائے، تو کیا یہ دین اس سے قبول کیا جائے گا یا اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے حتی اپنے پہلے دین کی طرف بھی نہیں پلٹ سکتا؟ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ [53]
حضرت عسی (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد یہودی کا حکم
کیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد یہودیت اختیار کرنے والوں پر اہل کتاب کے احکام جاری ہوں گے یا نہیں؟! بعض نے اس مسئلے پر اشکال کیا ہے۔ [54] پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت آنحضرتؐ کے مقام رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد تاریخ اسلام کا نہایت اہم مرحلہ ہے جو ایک عظیم واقعے کے عنوان سے انتہائی عظیم اور سرنوشت ساز واقعہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، ج1، ص273۔
2۔ ابن زکریا، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغة، ج1، ص266۔
3۔ دهخدا، علیاکبر، لغتنامه دهخدا، ج3، ص4227۔
4۔ دهخدا، علیاکبر، لغتنامه دهخدا، ج3، ص4228۔
5۔ زینی دحلان، احمد، حاشیه الحلبی الشافعی، ج1، ص33ـ42۔
6۔ بقره/سوره2، آیه146۔
7۔ آلعمران/سوره3، آیه164۔
8۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نہج البلاغہ، ترجمه محمد دشتی، خطبه اول، ص39۔
9۔ زمخشری، محمود بن عمر، تفسیر الکشاف، ج1، ص194۔
10۔ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج1، ص403۔
11۔ بقره/سوره2، آیه135۔
12۔ مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج1، ص89۔
13۔ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج18، ص278۔
14۔ ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج2، ص204۔
15۔ ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نهج البلاغه، ج3، ص207۔
16۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج2، ص713۔
17۔ حلبی شافعی، نورالدین، انسان العیون فی سیرة الامین المامون، ج1، ص380۔
18۔ حلبی شافعی، نورالدین، انسان العیون فی سیرة الامین المامون، ج1، ص381۔
19۔ جامی، عبدالرحمان، شواهد النبوه، ص139۔
20۔ ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص41۔
21۔ ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج2، ص288۔
22۔ ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج2، ص280۔
23۔ ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج2، ص281۔
24۔ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج1، ص216۔
25۔ حمیری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج1، ص236۔
26۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج2، ص713۔
27۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نهج البلاغه، خطبه 192، ترجمه شهیدی، ص222۔
28۔ حمیری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج1، ص233۔
29۔ علق/سوره96، آیه1 5۔
30۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج18، ص194۔
31۔ ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیر طالب، ج1، ص43۔
32۔ زینی دحلان، سید احمد، حاشیه الحلبی الشافعی، ج1، ص249۔
33۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نهج البلاغه، خطبه 192، ج1، ص474۔
34۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج18، ص167۔
35۔ مزمل/سوره73، آیه1 5۔
36۔ نجم/سوره53، آیه11۔
37۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج18، ص287۔
38۔ حمیری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج2، ص94۔
39۔ بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج3، ص21۔
40۔ ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، السیره النبویه، ص67۔
41۔ سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1373، ج1، ص233۔
42۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج18، ص190۔
43۔ بقره/سوره2، آیه185۔
44۔ قدر/سوره97، آیه1۔
45۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج18، ص190۔
46۔ میری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج1، ص239-240۔
47۔ ابن منیع، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج1، ص152۔
48۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج3، ص11۔
49۔ مزمل/سوره73، آیه5-1۔
50۔ معرفت، محمدهادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ج1، ص81-82۔
51۔ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام ج1، ص508-509۔
52۔ نجفی جواهری، محمد حسن، جواهر الکلام، ج30، ص46۔
53۔ نجفی جواهری، محمد حسن، جواهر الکلام، ج30، ص46-47۔
54۔ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام، ج3، ص38۔
۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ
فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج2، ص116۔
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ بعثت، تاریخ لنک 1395/10/20۔
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ بعثت حضرت محمد، تاریخ لنک 1395/07/25۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110