اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

30 جنوری 2024

10:29:58 PM
1433871

ایران اور پاکستان دیرینہ دوستی سے دستبردار نہیں ہونگے۔۔۔ امیر عبداللٰہیان + تصاویر

ایران اور پاکستان کے درمیان رونما ہونے والے وافعات خطرے کا سبب تھے، لیکن یہ خطرہ وزیر خارجہ کے دورے کی وجہ سے ایک فرصت میں تبدیل ہؤا: ایک واقعے سے گذر کر مستقبل میں داخلہ؛ دوستانہ ماحول میں دو ٹوک اور شفاف مذاکرات؛ تعلقات کو نقصان پہنچانے والے مسائل سے آگاہی؛ کمیوں کا ادراک اور مثبت حکمت عملیوں کا سامنے آنا، فیصلوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کا عزم۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کی دعوت پر، سیاسی اور سلامتی کے اداروں کے اہلکاروں کے ایک وفد کے ہمراہ اسلام آباد کا ایک روزہ دورہ کرکے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ایران اور پاکستان اپنی دیرینہ دوستی سے دست بردار نہیں ہونگے، اور ان کے دشمن انہیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکیں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اپنے پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی کی دعوت پر، اتوار کی شام کو پاکستان روانہ ہوئے تو تہران میں پاکستانی سفیر انہیں وداع کرنے کے لئے مہرآباد کے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔

وزیر خارجہ کا یہ دورہ ایران کی طرف سے پاکستان میں واقع کالعدم دہشت گرد ٹولے جیش العدل [جیش الظلم] کے ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون حملوں اور پاکستان کی طرف سے ایک سرحدی بستی پر ڈرون حملوں کے بعد کے حالات میں انجام کو پہنچا۔ پاکستان نے دہشت گردوں پر ایرانی حملے کے بعد اپنا سفیر تہران سے بلوا لیا اور ایرانی سفیر ـ جو ایک پاکستانی وفد کے ہمراہ ایران میں تھے ـ پاکستان واپس نہیں گئے۔ 22 جنوری کے دو ملکوں کی وزارت ہائے خارجہ نے مشترکہ بیانیہ جاری کرکے سفیروں کی واپسی سے اتفاق کیا۔ جس کے بعد سفراء اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر حاضر ہوئے۔

ایران نے دہشت گردوں پر حملہ کیا تو ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فونک بات چیت کی اور پاکستان نے ایرانی بستی پر حملہ کیا تو پاکستانی وزیر خارجہ نے ایران ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔

دونوں وزرائے خارجہ نے ان رابطوں کے دوران باہمی تعاون اور دہشت گردوں کی سازشیں ناکام بنانے پر زور دیا۔

22 جنوری کو ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے دو وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان سے پہلے، کہا کہ کوئی بھی حالیہ واقعات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی بلوچستان میں کوہ سبز کے مقام پر دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملہ ایرانی شہریوں اور سیکورٹی اداروں کے مراکز کے تحفظ کی غرض سے فوری ضرورت کے طور پر انجام پایا، ایران اور پاکستان کے تعلقات مستحکم ہیں، ایران اور پاکستان ایک دوسرے کی سالمیت احترام کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں اور دہشت گردی دونوں ملکوں کے لئے مشترکہ خطرہ ہے، دونوں ممالک دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مشترکہ اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ حالیہ واقعات دو طرفہ تعلقات کے استحکام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے دورہ اسلام آباد سے ایک دن قبل نامعلوم مسلح افراد نے ایرانی شہر سراوان کے نواح میں ایک ورکشاپ میں 9 پاکستانیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا تو ناصر کنعانی نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے تعزیت اور مقتولین کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں ہمہ جہت تحقیقات کا وعدہ دیتے ہوئے کہا: ایران اور پاکستان دشمنوں کو دو طرفہ دوستانہ تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

یاد رہے کہ امیر عبداللہیان نے پہلی بار دوطرفہ بنیاد پر اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پر اگست 2023ع‍ کو پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس سے پہلے انھوں نے دسمبر 2021ع‍ میں افغانستان کی صورت حال پر منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔

وزیر خارجہ اسلام آباد میں

اسلام آباد کے نورخان ایئربیس پر وزیر خارجہ کا استقبال پاکستانی وزارت خارجہ کے دو معاونین نے کیا اور اسی روز پاکستان کے دفتر خارجہ میں جلیل عباس جیلانی نے ان کا استقبال کیا اور دو وزرائے خارجہ کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہؤا۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے امیر عبداللہیان کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ کہ ایرانی وزیر خارجہ کے اس دورے کا مقصد اس عہد پر عمل کرنا ہے جو قریبی تعلقات کے استحکام کے سلسلے میں دو ملکوں کے درمیان موجود ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستانی منصب کے والہانہ استقبال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ہم آج اسلام آباد میں ہیں اس لئے کہ اپنی حکومت کی پڑوسی ممالک کے ساتھ ترجیحی تعلقات پر زور دیں؛ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا فروغ ہماری ترجیحات میں شامل ہے؛ ہمارے دشمن اور دہشت گرد ہمارے ممتاز تعلقات کے خلاف ہیں لیکن یہ دشمنیاں ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتیں۔

جلیل عباس جیلانی نے کہا: ہم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اور ہم آیت اللہ رئیسی کے پاکستان میں آنے کی دعوت پر تاکید کرتے ہیں۔

انھوں نے حالیہ واقعات اور کشیدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہم کشیدگی جاری رہنے کے حق میں نہیں ہیں؛ دو طرفہ سمجھوتے پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں موجودہ صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا؛ ایران اور پاکستان عشروں پر محیط دوستی اور بھائی چارے سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔

امیرعبداللہیان نے کہا: ہم آپ کے خوبصورت ملک میں یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ ہماری دوستی اور تعاون تزویراتی ہے اور کوئی بھی چیز اسے بدل نہیں سکتی۔

بعدازاں دو وزرائے خارجہ نے نیوز کانفرنس میں شرکت کی اور جلیل عباس جیلانی نے اس مختصر عرصے میں ایرانی وزیر خارجہ کے دورے کو باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے دو ملکوں کے پختہ عزم کی علامت قرار دیا اور کہا: پاکستان میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ایران میں امن و سلامتی پاکستان اور پورے خطے کے لئے اہم ہے اور یہی تصور ایران میں بھی پایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا: دو ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ رابط افسروں کا تعین کرکے تربت اور زاہدان روانہ کیا جائے۔ نیز طے پایا کہ دو ملکوں کے درمیان پانچ مزید سرحدی منڈیوں کے منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے۔

ایک قوم دو جغرافیائی اکائیاں

حسین امیر عبداللہیان نے کہا: ایران اور پاکستان کے درمیان کبھی بھی سرحدی تنازعہ نہیں ابھرا جو دو ملکوں کے تعلقات کے لئے خصوصی اعزاز ہے؛ ہم ایک ملت واحدہ ہیں جو دو جغرافیائی اکائیوں میں رہتے ہیں؛ پاکستان کی سلامتی کو ایران اور علاقے کی سلامتی سمجھتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں؛ ہم اس لئے پاکستان میں ہیں کہ جلیل عباس جیلانی کے ساتھ مل کر بلند آواز سے اعلان کریں کہ دو ملک دہشت گردوں کو دو ملکوں کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بلا شبہ ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سرگرم دہشت گردوں کو غیر ملکیوں کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ ایران اور پاکستان کی اقوام کے خیرخواہ نہیں ہیں؛ دو ملکوں کے تعلقات میں بحران نہیں آنے دیں گے اور یہ فطری امر تھا کہ ہم نے اپنے دیرینہ اور تہ در تہ، گہرے اور مستحکم تعلقات کے بدولت کشیدگی کا خاتمہ کیا اور دہشت گردی سے مؤڈر انداز سے نمٹنے کے لئے ایک روڈ میپ تیار کر لیا۔

جنرل عاصم منیر سے ملاقات

امیر عبداللہیان پاکستانی ہم منصب کی دی ہوئی ضيافت میں شرکت کرنے کے بعد پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔

یاد رہے کہ وزير خارجہ عاصم منیر کے دورہ تہران کے موقع پر ایرانی دفتر خارجہ میں انہیں ضافت دی تھی۔

ایرانی وزير خارجہ نے سوموار کے دن جنرل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے دوران دو طرفہ سمجھوتوں پر عملدرآمد پر زور دیتے ہوئے دہشت گرد ٹولوں سے نمٹنے کے لئے دو ملکوں کے فوجی اور سیکورٹی حکام کے درمیان تعاون  پر زور دیا۔

وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات

پاکستان کے عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات اور بات چیت سفر کے مرحلے میں انجام پائی، جن سے انھوں نے ڈیوس میں بھی ملاقات کی تھی۔ پاکستانی وزیر ا‏عظم نے اس موقع پر کہا: ہم ایران کے سیکورٹی اندیشوں کو سمجھتے ہیں اور دو طرفہ سمجھوتوں پر عملدرآمد کا خیر مقدم کرتے ہیں، اس میں شک نہیں ہے کہ تمام شعبوں میں وسیع پیمانے پر تعاون دونوں ملکوں کی سلامتی کو بھی تقویت پہنچائے گا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اس موقع پر کہا کہ سلامتی سے متعلق کے ساتھ ساتھ تجارتی، معاشی اور مواصلاتی میدانوں میں بھی مثبت پیشرفت حاصل ہوئی ہے کیونکہ فریقین کو یقین ہے کہ اگر سرحدوں کو اقتصادی بنایا جائے اور سرحدی منڈيوں کو فروغ دیا جائے تو یہ سرحدوی علاقوں میں خوشحالی کا باعث ہوگا، سرحدی عوام کی معیشت میں بہتری آئے گی اور یہ دہشت گردی سے نمٹنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔

ایک خطرہ جو ایک فرصت میں تبدیل ہؤا

ایرانی وزیر خارجہ کے معاون اور جنوبی ایشیا کے امور کے ڈائریکٹر جنرل سید رسول موسوی نے ایکس نیٹ ورک پر لکھا: ایران اور پاکستان کے درمیان رونما ہونے والے وافعات خطرے کا سبب تھے، لیکن یہ خطرہ وزیر خارجہ کے دورے کی وجہ سے ایک فرصت میں تبدیل ہؤا: ایک واقعے سے گذر کر مستقبل میں داخلہ؛ دوستانہ ماحول میں دو ٹوک اور شفاف مذاکرات؛ تعلقات کو نقصان پہنچانے والے مسائل سے آگاہی؛ کمیوں کا ادراک اور مثبت حکمت عملیوں کا سامنے آنا، فیصلوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کا عزم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110