اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

30 مئی 2023

11:23:55 AM
1369827

عشرہ کرامت مبارک؛

ولادت سیدہ معصومہ(س) تا ولادت امام رضا(ع) "عشرہ کرامت" کے 10 تزویراتی نکات

کریمۂ اہل بیت(ع) سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی ولادت با سعادت سے حضرت امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کے یوم ولادت (یکم تا 11 ذوالقعدۃ الحرام) کو عشرہ کرامت قرار دیا گیا ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ ڈاکٹر علی رضا معاف نے فارس نیوز ایجنسی میں ایک مضمون شائع کرکے عشرہ کرامت کے فضائل کے سلسلے میں 10 تزویراتی نکات بیان کئے ہیں جو درج ذیل ہیں:

1۔ امام رضا اور سیدہ معصومہ (علیہما السلام) کی تہذیب ساز اور معاشرہ ساز ہجرت

قرآن کریم میں ایک اہم اور پر معنی تصور "ہجرت" ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ سورہ انفال کی آیات 72 سے 75 تک کی بنیاد پر "نظریۂ ہجرت" کو تدوین کرکے پیش کیا جا سکتا ہے۔ خداوند مجید قرآن کریم کی بہت سی آیات کریمہ میں جہاد کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ہجرت کرنے والوں کی بھی تعریف کرتا ہے اور یہی نہیں بلکہ انہیں جہاد کرنے والوں پر مقدم رکھتا ہے:

"وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ٭ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ؛ اور جن لوگوں نے ایمان اختیار کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگوں جنہوں نے [مہاجرین کو] پناہ دی اور مدد کی، وہ سچے مؤمنین ہیں، ان ہی کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی * اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا، یہ لوگ بھی تم ہی میں ہیں اور جو لوگ قرابت دار ہوں وہ اللہ کے قانون میں ایک دوسرے سے [دوسروں کی نسبت] زیادہ نزدیک ہیں، یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے"۔ (سورہ انفال، آیات 74-75)

اور جن لوگوں نے دنیاوی مفادات اور دلدادگیوں کی بنا پر حکم ہجرت کی اطاعت نہیں کی تھی، اللہ ان کی سرزنش کرتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:

"وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَلَمْ يُهَاجِرُواْ مَا لَكُم مِّن وَلاَيَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُواْ؛ اور جو لوگ ایمان تو لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی، تمہارے ساتھ ان کی کوئی [دینی] قرابت نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں"۔ (سورہ انفال، آیت 72)۔

مسئلہ ہجرت کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ تاریخ اسلام میں بعض ہجرتیں تہذیب ساز تھیں؛ اور اگر خدا کے حکم کی تعمیل نہ ہوتی تو کوئی تہذیب تشکیل نہ پاتی:

الف- ہجرت حبشہ

ہجرت حبشہ تاریخ اسلام کی سب سے پہلی ہجرت ہے۔ مسلمانوں کی ایک جماعت نے بعثت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پہلے برسوں میں، مشرکین کے ظلم و جبر اور ایذا رسائیوں سے بچنے کی غرض سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ہجرت آنخصرت کے حکم پر دو مرحلوں میں انجام پائی، پہلے مرحلے میں 11 مسلمان مرد اور عورتوں نے ہجرت کی اور دوسرے مرحلے میں 83 افراد شہید موتہ، جناب جعفر طیار (جعفر بن ابی طالب علیہما السلام) کی سربراہی میں، خفیہ طریقے سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ قریشن نے مسلمانوں کو مکہ لوٹانے کے لئے عمرو بن عاص کر اپنا نمائندہ بنا کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس روانہ کیا، لیکن نجاشی نے جعفر طیار کی تقریر سننے کے بعد مسلمانوں کو عمرو بن عاص کے سپرد کرنے سے انکار کیا اور کہ کہ "جاؤ امن و امان کے ساتھ، جب تک چاہو، حبشہ میں قیام کرو"۔

ہجرت کرنے والوں میں سے کچھ لوگ حبشہ میں ہی دنیا سے رخصت ہوئے، اور بعض گھرانوں کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی۔ سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا) کے شریک حیات عبداللہ بن حعفر حبشہ میں پیدا ہوئے تھے۔ مہاجرین، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ہجرت مدینہ کے بعد تدریجاً، فتح خیبر سے پہلے اور اس کے بعد، واپس آ گئے۔ ہجرت حبشہ نے اسلامی تہذیب کی آفاقیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

ب- ہجرت مدینہ

تاریخ اسلام کی اہم ترین ہجرت، جو حقیقتاً عظیم اسلامی تہذیب کی بنیاد، اور اسلامی تقویم کی ابتداء ٹہری، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مسلمانوں کی ہجرت مدینہ تھی۔ اسلامی تقویم (ہجری قمری، ہجری شمسی، ہجری تقدیری) پر ہجری اثرات اور ہجری تصور کے اثرات سے یہ حقیقت بخوبی عیاں ہو جاتی ہے۔

ج- علوی ہجرت

امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے ظاہری خلافت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مدینہ سے کوفہ ہجرت کی، اور یہ ہجرت بھی اسلامی تہذیب کی تقویت میں بہت مؤثر تھی۔

د- حسینی ہجرت

مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ اور مکہ مکرمہ سے کوفہ کی طرف امام حسین (علیہ السلام) کی ہجرت و عزیمت، جو واقعۂ کربلا اور تحریک عاشورا پر منتج ہوئی اور کربلا اور عاشورا نے اسلام کی بقاء میں بنیادی کردار ادا کیا یوں اس ہجرت و عزیمت نے اسلامی تاریخ و تمدن اور امت کے مستقبل پر ـ تا قیامت ـ گہرے اثرات مرتب کئے۔

ہ- رضوی ہجرت

امام علی بن موسی الرضا (علیہما السلام) کی مدینہ سے طوس کی طرف ہجرت، نیز آپ کی بہن کریمۂ اہل بیت سیدہ فاطمہ معصومہ کی ہجرت قم، ایران اور اسلامی دنیا کے مشرقی علاقوں کے لئے خیر کثیر اور بے شمار برکتوں با باعث بنی۔ یہی ہجرت تھی جو قم میں عظیم ترین حوزہ علمیہ، مختلف مشرقی ممالک میں متعدد مدارس علمیہ اور ترویج تشیّع، اور حضرت امام زمانہ مہدی موعود (علیہ السلام) کی غیبت کبریٰ کے دوران ـ سرزمین ایران پر ـ طاقتور ترین اسلامی حکومت کے قیام کا سبب بنی ہے۔

2۔ اسلامی انقلاب امام رضا اور سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہما) کی ہجرت کا مرہون منت

اسلامی انقلاب اپنے حدوث (اور وجود میں آنے) کے حوالے سے، آیت اللہ العظمٰی سید روح اللہ الموسوی الخمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کا مرہون منت ہے اور بقاء و استمرار کے  حوالے سے آیت اللہ العظمٰی امام سید علی الحسینی الخامنہ ای (دام ظلہ العالی) کا مرہون منت؛ اور یہ دونوں حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ مشہد کے تربیت یافتہ ہیں؛ اور یہ جلیل القدر اور عظیم الشان بھائی اور بہن کی ذوات بابرکات اور ہجرت کی برکت سے ممکن ہؤا ہے: ایک مشہد میں اور ایک قم میں۔

امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی تحریک اور اسلامی انقلاب کی عظمت ایک خاتون کی عظمت اور ان کی ہجرت و عزیمت کی عظمت کی دلیل بھی ہے؛ کہ ایک خطے میں ان کا حرم ایک اسلامی حکومت کے قیام کا سرچشمہ ہو سکتا ہے اور دنیا پر حکم فرما نظام، سیاست، فلسفے اور زندگی کو بدل سکتا ہے۔

3۔ دنیائے اسلام کے مشرق میں تہذیبی ترقی

یہ صرف امام رضا اور سیدہ معصومہ (سلام اللہ علیہما) ہی نہ تھے جنہوں نے مشرق کی طرف ہجرت اختیار کی بلکہ امام موسی بن جعفر الکاظم (علیہما السلام) کے دوسرے فرزندوں نے مدینہ اور عراق سے مشرق کی طرف ہجرت کی اور مشرق میں اسلامی تہذیب و تمدن کی ترقی کے اسباب فراہم کئے۔ ایک عظیم واقعہ جو امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی با مقصد اور شعوری آبادیاتی پالیسی کے بدولت ممکن ہؤا اور آپ کے خاندان کے بہت سارے افراد نے مشرق کی طرف ہجرت اختیار کرلی اور موسوی (یا کاظمی) سادات کا سلسلہ نہ صرف ایران بلکہ پاک و ہند، وسطی ایشیا اور افغانستان تک پھیل گیا، اور آج بھی ان ممالک میں ـ شیعہ اور سنی مسلمانوں، نیز غیر مسلموں کے ہاں، ـ سادات کو فرزندان اہل بیت کے عنوان سے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؛ وہی خاندان جس کے بہت سے عظیم فرزندوں نے عالم اسلام میں عظیم اصلاحی اور تجدیدی کردار ادا کیا ہے۔

4۔ امام زادگان کے مزارات مقدسہ، بحیثیت ثقافتی مراکز

قم، تہران، شیراز، اصفہان، قزوین، دزفول، مشہد مقدس، رشت، اہواز اور دوسرے ایرانی شہروں، نیز ایران کے مشرقی، جنوب مشرقی اور شمال مشرقی ممالک میں ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے فرزند

کے مزارات کو ثقافتی اور خالص دینی ثقافت پیدا کرنے کے  مراکز قرار دیا جا سکتا ہے اور اس نورانی امکان سے دینی ثقافت و تعلیمات کے فروغ کا کام لیا جا سکتا ہے۔ جس کے لئے ان مزارات کے متولیوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور اس استعداد سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) فرماتے ہیں کہ "مقدس مقامات کو ثقافتی مراکز میں بدل جانا چاہئے"۔

5۔ بیٹیوں اور بہنوں کے لئے قرآن کریم کی خصوصی تکریم

اسلامی ثقافت میں "زن، زندگی، آزادی" کا تنازعہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا؛ جو کچھ نام نہاد نسوانی حقوق کے علمبردار (Feminists)  عورتوں کے حقوق کے جدید حامی چاہتے ہیں اس کی جڑیں جدید ـ عورتوں کے بارے میں صنعتی دنیا کہ مسخ شدہ کلیسائی دین (مذہب) کے رجعت پسندانہ نظریات میں پیوست ہیں اور عورتوں اور لڑکیوں کے تئیں اسلام اور قرآن کے نظریئے سے مکمل طور پر متصادم ہے۔

ہمارے دینی مصادر میں نظریہ ساز، مصلح، تہذیب ساز اور اثرگذار خواتین کی مثالیں کم نہیں ہیں؛ نیز بارہا ایسے بھائیوں اور بہنوں کے واقعات مشہور ہیں جن کے مربوط اور مؤثر رویے گہرے فکری اور بیانیاتی ااثرات و برکات کا سبب بنے ہیں۔ امام حسین اور سیدہ زینب، اور امام رضا اور سیدہ فاطمہ معصومہ (علیہم السلام) اور اس سے بہت پہلے حضرت موسیٰ اور ان کی بہن اس زمرے کے بھائی بہنوں کے بہترین نمونے ہیں۔

آیت اللہ العظمٰی عبداللہ جوادی آملی (حفظہ اللہ) اپنی کتاب "عورت جلال و جمال کے آئینے میں" میں لکھتے ہیں: "نہ صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ بلکہ ان کی بہن کا کردار بھی گھٹن کے فرعونی دور میں بہت شجاعانہ تھا جنہوں نے دریا میں تیرتے ہوئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حامل صندوق کا تعاقب کیا، فرعونی درباریوں کو اس کی سمت راہنمائی دی اور پھر دودھ دینے کے لئے انہیں اپنی ماں کی طرف لوٹایا۔ یہاں تک کہ اگر بہن نے اس شجاعت و بہادری کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انقلاب شاید بپا ہی نہ ہوتا۔"۔

اصولی طور پر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں مہذب، عالمہ اور بہادر خواتین کا کردار بہت نمایں اور اہم تھا:

1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ

2۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن

3۔ فرعون کی زوجہ حضرت آسیہ (رضي اللہ عنہا)

4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زوجہ، جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی تھیں۔

ان میں سے ہر ایک نے موسوی انقلاب میں، آپ کی مدد کی۔

6۔ تاریخ ساز خواتین

قرآن مجید میں دوسرے مؤثر اور قابل قدر خواتین اور لڑکیوں کا تذکرہ یا پھر ان کی طرف ـ نام کے بغیر ـ اشارہ پایا جاتا ہے، جنہوں نے ماں، بہن، بیٹی اور زوجہ جیسے مختلف النوع نسوانی کردار ادا کئے ہیں:

1۔ حضرت حوّا ام البشر، جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی زوجہ اور ہابیل کی ماں تھیں۔

2۔ سیدہ مریم (سلام اللہ علیہا) کی والدہ، جو عمران کی زوجہ تھیں۔

3۔ سیدہ مریم (سلام اللہ علیہا) جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔

4۔ یوکاید (سلام اللہ علیہا) جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔

5۔ سارہ اور ہاجر (سلام اللہ علیہما) جو حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کی زوجات اور بالترتیب حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کی مائیں تھیں۔

6۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی زوجہ جو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔

7۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی زوجہ۔

8۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی زوجہ

9۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)  کی زوجہ صفورا بنت شعیب (علیہ السلام)

10۔ زوجہ فرعون حضرت آسیہ

11۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی بیٹیاں

12۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹیاں

13، حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں

14۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)  کی بہن۔

15۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی والدہ جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی زوجہ تھیں۔

16۔ سید المرسلین حضرت رسول اللہ الاعظم محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زوجات محترمہ

17۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی  بیٹی سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) جن کی شان میں متعدد آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں۔

7- بیٹیوں کی محبت قرآنی منطق کی روشنی میں

قرآن کریم میں بہت سی آیات میں عورت اور اس کی قدر کی طرف اشارہ ہؤا ہے لیکن جس آیت کی طرف اس سلسلے میں بہت کم توجہ دی گئی ہے ـ جبکہ عورت اور بیٹی کے بارے میں بہت اہم نکتے کو اشارہ کرتی ہے ـ یہ آیت آیت کریمہ ہے:

"وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَاناً وَكُفْراً * فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْراً مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْماً؛ اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ مؤمن تھے تو ہمیں خدشہ ہؤا کہ یہ کہیں ان دونوں کو سرکشی اور کفر سے دوچار نہ کر دے گا * تو ہم نے چاہا کہ کہ اللہ تعالی اس کو اس کے عوض عطا کرے وہ جو اس سے بہتر ہو پاکیزگی میں بھی اور مہربانی میں"۔  (سورہ کہف، آیات 80-81)

جناب خضر(علیہ السلام) نے لڑکے کو مار دیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وجہ پوچھی، تو مذکورہ آیات میں انھوں نے وجہ بتائی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے خدائے متعال نے ان والدین کو ایک لڑکی عطا کی جو اس مختلف مادی اور روحانی جہتوں سے اس لڑکے سےبہتر تھی؛ اور ان میں سے ایک جہت یہ تھی کہ اللہ نے اس لڑکی کی نسل سے 70 پیغمبر مبعوث فرمائے۔ اور پھر "أَقْرَبَ رُحْماً" سے بھی ایسا ہی تاثر لیا جا سکتا ہے کہ ان کی دوسری اولاد بیٹی تھی۔ کیونکہ لڑکیاں ہی ہیں جو والدین کی نسبت زیادہ مہربان ہیں اور صلہ رحمی میں بیٹوں کا زیادہ لحاظ رکھتی ہیں۔

8۔ بیٹیاں زمین کے فرشتے اور اللہ کی رحمت

الکافی سمیت معتبر کتب حدیث میں ایک خصوصی باب بعنوان "بَابُ فَضْلِ الْبَنَاتِ" (بیٹیوں کی فضیلت کا باب) موجود ہے جن میں بیٹیوں اور بیٹیوں کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث میں بیٹیوں کی خصوصیات کی تجلیل اور تکریم ہوئی ہے۔ ہم بطور مثال یہاں دو احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1۔ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: "اَلْبَنَاتُ حَسَنَاتٌ وَاَلْبَنُونَ نِعْمَةٌ وَاَلْحَسَنَاتُ يُثَابُ عَلَيْهَا وَاَلنِّعْمَةُ يُسْأَلُ عَنْهَا؛ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: بیٹیاں حسنات (نیکیاں - بھلائیاں) ہیں اور بیٹے نعمت ہیں، اور نیکیوں پر اجر و ثواب دیا جاتا ہے اور  نعمتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے [اور بازخواست کی جاتی ہے]"۔ (علامہ کلینی، الکافی، ج6، ص6۔)

2۔ عَن رسول الله صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ قَالَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ اِبْنَةٌ وَاحِدَةٌ كَانَتْ خَيْراً لَهُ مِنْ أَلْفِ حَجَّةٍ وَأَلْفِ غَزْوَةٍ وَأَلْفِ بَدَنَةٍ وَأَلْفِ ضِيَافَةٍ؛ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جس کی ایک بیٹی ہو بہتر ہے اس کے لئے ایک ہزار حجوں اور ایک ہزار غزوات [یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی موجودگی میں اللہ کی راہ میں ایک ہزار بار جہاد)، اور قربانی کے لئے مکہ مکرمہ بھجوائے جانے ایک ہزار اونٹوں نیز ایک ہزار ضیافتیں دینے سے بہتر اور افضل ہے"۔ (محدث شیخ حسین نوری، مُستَدرَکُ الوَسائل و مُستَنبَطُ المَسائل، ج15، ص115)۔

9۔ پیغمبر رحمت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نگاہ میں مطلوبہ بیٹیاں

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بیٹیوں کے لئے چار ممتاز صفات بیان فرمائی ہیں: خو و خصلت کی نرمی، سازگاری، انسیت، اظہار محبت اور عیادت و خبر گیری (اور دیکھ بھال)، وہ صفات ہیں جو تربیتی نظام میں قابل توجہ ہیں۔

"عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ: نِعْمَ اَلْوَلَدُ اَلْبَنَاتُ مُلْطِفَاتٌ مُجَهِّزَاتٌ مُونِسَاتٌ مُبَارَكَاتٌ مُفَلِّيَاتٌ؛ امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: کتنی اچھی اولادیں ہیں بیٹیاں جو نرم اور سازکار ہیں، والدین سے انسیت پیدا کرتی ہیں ، عیادت و خبرگیری کرتی ہیں اور اپنی محبت کو آشکار کر دیتی ہیں" (علامہ کلینی، الکافی،  جلد6،  ص5)۔

10- دولت کریمہ (عزت والی حکومت) اور لوگوں کے ساتھ کریمانہ برتاؤ

عشرہ کرامت کی مناسبت سے دسواں نکتہ یہ ہے کہ قرآن اور نہج البلاغہ کی منطق کے مطابق حکومت اور اس کے کارگزآروں کی طرف سے عوام کے ساتھ عزت و کرامت پر مبنی سلوک برتنا چاہئے کیونکہ اللہ نے انسان کو عزت و کرامت عطا کی ہے۔

اللہ کریم کا ارشاد ہے:

"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً؛ اور یقیناً ہم نے اولاد آدم اولاد کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کے لئے سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ غذاؤں سے روزی دی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر کھلی برتری عطا کی"۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت 70)۔  

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) عہدنامۂ مالک اشتر (مکتوب نمبر 53) میں فرماتے ہیں:

 "وَلْيَكُنْ أَحَبَّ الْأُمُورِ إِلَيْكَ أَوْسَطُهَا فِي الْحَقِّ وَأَعَمُّهَا فِي الْعَدْلِ وَأَجْمَعُهَا لِرِضَى الرَّعِيَّةِ فَإِنَّ سُخْطَ الْعَامَّةِ يُجْحِفُ بِرِضَى الْخَاصَّةِ وَإِنَّ سُخْطَ الْخَاصَّةِ يُغْتَفَرُ مَعَ رِضَى الْعَامَّةِ؛ ضروری ہے کہ امور  و معاملات میں تمہارے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب کام حق کے سلسلہ میں میانہ رو ترین (معتدل ترین)، عدل و انصاف کے کے حوالے سے وسیع البنیاد ترین ہو اور لوگوں کے لئے دل پذیر اور ان کی خوشنودی کا باعث ہو، یقیناً عوام الناس کی ناراضگی خواص کی خوشنودی کو ناکارہ بنا دیتی ہے، جبکہ خواص کی ناراضگی عوامی خوشنودی کے ذریعے بے اثر ہو جاتی ہے"۔

چنانچہ عامۃ الناس کے تئیں حکومت اور حکام کی کی تکریم، نہج البلاغہ کی منطق کے عین مطابق ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی (حفظہ اللہ) مالک اشتر کے نام امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے مکتوب کے اس حصے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "جو کچھ مذکورہ بالا مختصر جملوں میں بیان ہؤا، یہ درحقیقت پائیدار اور با دوام حکومت کی بنیاد کو تشکیل دیتا ہے۔ ایک معاشرے کے عوام ہمیشہ دو زمروں میں تقسیم ہوتے ہیں: ایک امیر اور مالدار اقلیت، جو ہمیشہ حکمرانوں کی حاشیہ بردار رہتی ہے اور چاپلوسی، خوشامد، اور اخلاص کا اظہار کرکے یا حکام پر قربان جا کر!  اپنے مفادات کی تکمیل چاہتی ہے اور ان کے مقابلے میں عوامی اکثریت ہے، جس کے ہاتھ بازو سے معاشرتی زندگی کا پھیہ گھومتا ہے، سب سے زیادہ محنت کرتے ہیں، اور اپنے دین اور اپنی سرزمین سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں [اور اس کے لئے قربانی دینے کے لئے پیش پیش رہتے ہیں] اگر اول الذکر طبقہ حکومت سے ناراض ہو جائے لیکن دوسرا طبقہ [عوام] راضی اور خوشنود ہو تو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا؛ معاشرے کے مسائل عوام کے ہاتھوں حل ہوتے ہیں اور وہ [اقلیتی امیر] طبقہ معاشرتی معاملات کی سمت میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتا؛ تاہم اگر اس اقلیت کی خوشنودی عوامی اکثریت کے غیظ و غضب کی قیمت پر ہاتھ آئے تو حکومت کی بنیادیں لرز اٹھتی ہیں اور اگر یہ ناراضگی جاری رہے تو وسیع پیمانے پر اٹھان اور انقلاب کی بنیاد بنے گی۔

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کی زندگی اس حوالے سے بہترین مثال ہے، وہ معاشرے کے محروم طبقوں کی پشت پناہی کے لئے کوشاں رہتے تھے اور معاشرے کے اغنیاء اور امراء ـ جو اپنے مفادات ہر قیمت پر حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے ـ کی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ وہی چیز ہے جسے آج عوامی جمہوریت، یا دینی جمہوریت یہ دینی عوام شاہی کہا جا سکتا ہے"۔ (آیت اللہ مکارم شیرازی، پیام امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، ج10، ص401)۔

.............

بقلم: ڈاکٹر علی رضا معاف، پی ایچ ڈی علومِ قرآن و حدیث

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

............

110