کیلیفورنیا کے جامعہ سٹنفورڈ (Stanford University) میں واقع ہوور انسٹی ٹیوشن (Hoover Institution) ـ جو ایک تحقیقاتی مرکز ہے، نے اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکہ کا “ناقابل تسخیر دشمن” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران پر قابو پانے کی پالیسی ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئی ہے۔
ہوور نے لکھا ہے کہ ایران کی دینی حکومت امریکہ کی ناقابل تسخیر دشمن ہے، جبکہ کئی عشروں سے امریکہ کی بنیادی پالیسی یہی رہی ہے کہ ایران کو قابو میں لایا جائے اور اسے خلیج فارس کی بالادست طاقت نہ بننے دیا جائے۔
ہوور کے مضمون کے مطابق، سنہ 2018ع سے پابندیوں کے ذریعے ایران تیل کی برآمدات کو روک دیا گیا ہے، تاکہ ایران اپنا جوہری پروگرام روک دے، لیکن ایران پر قابو پانے کی یہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ سنہ 2020ع میں 70 تیل بردار بحری جہاز ـ پابندیوں کے باوجود ـ ایران کا تیل منتقل کرتے تھے اور آج ان جہآزوں کی تعداد 322 تک پہنچ گئی ہے۔۔۔ چار سال قبل ان انجانے جہازوں کے ذریعے ایران کی تیل کی برآمدات روزانہ پانچ لاکھ بیرل تک پہنچتی تھیں اور سنہ 2023 میں یہ مقدار دو گنا ہو کر 10 لاکھ بیرل تک پہنچی ہے۔
ایران نے تیل کی کھیپوں کی ضبطی کی امریکی کارروائیوں کی تلافی کر لی ہے
ہوور انسٹی ٹیوشن نے مزید لکھا ہے: ایران نے تیل کی کھیپوں کی ضبطی کی امریکی کارروائیوں کی تلافی کر لی ہے۔ 10 مارچ 2022ع کو امریکہ نے ایرانی تیل کی دو کھیپوں کو ضبط کیا جن کی قیمت تین کروڑ 80 لاکھ ڈالر بنتی تھی؛ اور ایران نے 27 اپریل کو طیارہ بردار جہاز کے برابر کے ایک امریکی سوپر ٹینکر کو روک لیا اور امریکی اقدام کی تلافی کر لی۔ یہ ٹینکر کویت سے 15 لاکھ بیرل خام تیل لے کر ہیوسٹن لے جا رہا تھا، ایرانی ٹیلی وژن نے اس ٹینکر کو روکنے کی روداد کی رپورٹ نشر کر دی۔ گوکہ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کی رپورٹ کو سینسر کر لیا اور صرف اقتصادی خبروں میں اس کی طرف مختصر سا اشارہ ہؤا۔
ہوور نے اپنی رپورٹ کے آخر میں لکھا کہ گذشتہ سات دہائیوں کے دوران امریکہ ہی بین الاقوامی آب راہوں میں تجارت کی نگرانی کرتا رہا تھا، لیکن آج ہماری بحریہ انفعالیت سے دوچار ہوئی ہے اور ایران نے خلیج فارس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔
ہوور انسٹی ٹیوشن کی یہ رپورٹ ایسے حال میں شائع ہوئی ہے کہ برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز نے نے بھی لکھا ہے کہ مغرب کی بڑی تیل کمپنیاں ایران سے [اپنی ہی لگائی ہوئی] پابندیوں کے باوجود ایران سے بجلی خرید رہی ہیں؛ اور ایک ایرانی کمپنی، شیل کمپنی کی حمایت سے عراق میں بننے والے بجلی گھر کو بجلی فراہم کرے گی۔ اور یہ عراق میں ایران کی وسیع تجارتی موجودگی کا عملی ثبوت ہے، جس نے اس برطانوی کمپنی کو مشرق وسطی میں مغرب کی جیوپولیٹیکل ترجیحات کے مد مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ بصرہ گیس کمپنی، جس کا 44% حصہ برطانوی شیل کی ملکیت ہے، کی نئی تنصیبات جون میں کام شروع کریں گی تو یہ کمپنی جنوبی عراق میں رمیلہ کے خودمختار بجلی گھر کی پیدا کردہ بجلی کی اہم ترین صارف بنے گی۔
رمیلہ بجلی گھر اردنی کمپنی شامارا (شرکة شامارا الأردنیة) کی ملکیت ہے لیکن اسے ایران کے مپنا (مدیریت پروژههای نیروگاهی ایران = ایران کے پاور پلانٹ کے منصوبوں کا انتظام) گروپ نے تعمیر کیا ہے اور یہی ایرانی گروپ اس کی بجلی کی فروخت کا 78 فیصد ایران وصول کرتا ہے۔
ادھر برطانوی شیل کمپنی اور بصرہ گیس کمپنیوں کا دعوی ہے کہ انھوں نے مپنا کے ساتھ کسی معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں چنانچہ بصرہ گیس کمپنی کی طرف سے ایرانی گروپ کو کی جانے والی ادائیگیاں مبینہ طور پر، امریکی اور یورپی پابندیوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتیں!
برٹش پیٹرولیم اور ایکسون موبل اپنی بجلی ایران کے قومی گرڈ سے حاصل کرتے ہیں
عراق پر امریکی حملے کے 20 سال بعد، یہ ملک (عراق)، عدم سرمایہ کاری کی وجہ سے، شدت سے ایران کی گیس اور بجلی کی درآمدات سے وابستہ ہو چکا ہے۔ ایران عراق کی بجلی کی ایک نہائی سے زیادہ ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف شیل کمپنی تک محدود نہیں ہے بلکہ برٹش پیٹرولیم (British Petroleum) اور ایکسون موبل (ExxonMobil) سمیت ـ عراق کے آئل فیلڈز میں کام کرنے والی ـ کئی بین الاقوامی تیل کمپنیوں کو بھی درپیش ہے اور وہ سب اپنی بجلی کی ضروریات کو ایران کے قوم گرڈ سے پورا کرتی ہیں۔ مپنا کے ہاتھوں رمیلہ بجلی گھر کی تعمیر سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب، تہران کے حوالے سے اپنی ہی قوانین میں کس قدر تذبذب کا شکار رہا ہے۔ ایرانی گروپ مپنا کو سنہ 2015ع میں رمیلہ بجلی گھر کی تعمیر کے لئے چن لیا گیا جبکہ ایران مغرب کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے جا رہا تھا اور تعلقات میں بہتری آ رہی تھی۔ تین سال بعد امریکی صدر ٹرمپ نے معاہدے سے الگ ہوکر ایران پر پابندیاں لگا دیں۔
سنہ 2014ع میں 3,000 میگاواٹ کے رمیلا پاور پلانٹ کی تعمیر کا ٹھیکہ اردن کی شامارا کمپنی کو دیا گیا تھا اور یہ عراقی وزارت توانائی کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے کے تحت تھا۔ شامارا کمپنی ابتداء میں کسی امریکی یا یورپی کمپنی کے ساتھ کام کرنے کی امید لئے بیٹھی تھی لیکن اسی سال کے موسم گرما میں عراق کے مختلف حصوں میں داعش کے لائے جانے کے بعد، مغربی سرمایہ کار بھاگ کھڑے ہوئے [شاید منصوبے کے عین مطابق]۔ چنانچہ آخر کار، میپنا گروپ نے رمیلہ پاور پلانٹ کے لئے ضروری ٹیکنالوجی کی تعمیر اور فراہمی کے لیے 2.05 ارب ڈالر کا ٹھیکہ حاصل کر لیا۔ رمیلہ پاور پلانٹ سنہ 2020ع سے 1500 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ عراقی وزارت بجلی ملک کو بجلی فراہم کرنے میں ایک واسطے کا کردار ادا کرتی ہے اور بجلی کی پیداوار کے عوض شامارا اور مپنا کو منافع ادا کرتی ہے اور وہ خود ہی بصرہ کمپنی جیسے خریداروں کو بجلی فروخت کرتی ہے۔ شامار رمیلہ کمپنی کی آمدنی کا 22 فیصد حصہ وصول کرتا ہے اور باقی آمدنی مپنا کو ادا کی جاتی ہے، اور شیل کمپنی کے حکام کہتے ہیں کہ ان کا ایرانی کمپنیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے اور وہ عراقی وزارت بجلی کے بنیادی ڈھانچے، مالی ٹرانزیکشن یا دیگر کمپنیوں کے ساتھ اس کے معاہدوں پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ کیہان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
242