اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

28 مئی 2023

12:40:54 AM
1369177

یورپ کی اسلام دشمنی؛

فرانس کی مساجد کا محاصرہ کیا گیا ہے / فرانس میں سیاسی اسلام کی سرگرمیوں کا دعویٰ ایک جھوٹ ہے ۔۔۔ مخلوف مامیش

فرانسیسی مسلم فیڈریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں، فرانسیسی مسلمانوں کو انتہائی پیچیدہ اور مشکل حالات کا سامنا ہے، فرانسیسی سرکار اپنے تر وسائل بروئے کار لا کر فرانس پر اثر انداز ہونے والے اسلام کو سیاسی مذہب کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے، یہاں تک کہ فرانسیسی سیاستدان بھی ان اسلامی تنظیموں کے قریب نہیں آتے جن پر سیاسی اسلام اپنانے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، فرانسیسی مسلم فیڈریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن مخلوف مامیش (Makhlouf Mameche) نے کہا ہے کہ اسلامی خدمات کے سلسلے میں سرگرم عمل انجمنوں کو مالی محاصرے اور پابندیوں کا سامنا ہے۔

مامیش نے مصری جریدے الخلیج الجدید کو انٹرویو دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف ابلاغی اور سیاسی تشہیری مہمات کی مذمت کی اور کہا کہ سنہ 2010ع‍ میں عربی بہار کے انقلابات کے بعد سے اسلام دشمن سرگرمیوں میں اضافہ ہؤا۔ اور اس زمانے سے مسلمانوں پر حملے شروع ہوئے اور اخوان المسلمین اور سیاسی اسلام کو "شیطان" ثابت کرنے کے لئے مغربیوں کی تشہیری مہمات کا آغاز ہؤا۔

انھوں نے کہا: بدقسمتی سے ہر اسلامی تحریک اور ہر اسلامی انجمن یا تنظیم، جو ان ممالک کے آئین اور سول قوانین کے تحت کام کرتی ہے، اور مفاد عامہ کے شعبوں میں سرگرم عمل ہے، اس پر اخوان المسلمین اور سیاسی اسلام سے وابستگی کا الزام لگایا جاتا ہے، اور انہیں اسی زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تنظیموں کا اگرچہ اخوان المسلمین اور سیاسی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر مغربی ممالک ـ بالخصوص فرانس میں ـ ایک منصوبے پر کام ہو رہا ہے جس کے تحت فعال اسلامی انجمنوں کو سماج دشمن اور شیطان بنا کر پیش کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فرانس میں بعض مساجل کو اس وقت آزار و اذیت اور محاصرے کا سامنا ہے، جن میں شمالی فرانس کے شہر ویلینو ڈاسک (Villeneuve-d'Ascq) میں واقع اسلامی مرکز اور مسجد خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے منتظمین سے شکایت کی گئی تھی اور عدالت نے 24 فروری 2024ع‍ ان افراد کو مسجد کی خدمت سے منع کیا ہے۔ یہ ایک بڑی مسجد ہے جو مسلمانوں کے عطیات سے تعمیر ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ فرانس میں "سیاسی اسلام" کا الزام ایک بڑا جھوٹ ہے اور فرانسیسی سرکار ان اقدامات اور تشہیری مہمات کے ذریعے فرانسیسی معاشرے کو اسلام سے دور رکھنا چاہتی ہے، حالانکہ فرانس میں رائج اسلام، سیاسی نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی اقتدار تک پہنچنا چاہے یا اقتدار کی دوڑ میں شریک ہونا چاہے تو اسے مقامی قوانین کے مطابق ایک سیاسی جماعت تشکیل دینا پڑتی ہے۔ لیکن اس وقت اسلامی تنظیمیں اور انجمنین جو بھی کام کرنا چاہیں، فرانسیسی حکومت ـ جس کے آزادی اظہار اور آزادی عقیدہ کے نعرے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور یورپ میں مہذب ترین ملک کہلوانے پر اصرار کرتی آئی ہے ـ ان تمام سرگرمیوں کو سیاسی اسلام سے جوڑتی ہے تاکہ ان پر پابندی لگا سکے۔ مثال کے طور پر فرانسیسی حکومت ـ یورپ میں اقتصادی بحران کی بنا پر ـ کھانے کے مفت پیکجز کی تقسیم یا طلبہ کو مفت ٹیوشن کی سہولتوں کی فراہمی یا حتیٰ کہ بڑے ہالوں میں نماز عید کے انعقاد کو "سیاسی اسلام" قرار دیتی ہے، اور دعویٰ کرتی ہے کہ فرانسیسی مسلمان اقتدار کی طرف راغب ہوئے ہیں یا یہ کہ وہ فرانس کو ایک اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں!

فرانسیسی مسلم فیڈریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے اس رکن نے زور دے کر کہا کہ "موجودہ حالات میں فرانسیسی مسلمانوں کے لئے حالات بہت سخت اور پیچیدہ ہو گئے ہیں، ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، حکومت اور تشہیری ذرائع کہتے ہیں کہ یہ سیاسی اسلام ہے، یہاں تک کہ آج کا فرانسیسی سیاستدان بھی ـ اپنی پوزیشن محفوظ رکھنے کے لئے ـ ان انجمنوں کے قریب نہیں آتا جنہیں پر سیاسی اسلام کی ترجمانی کا الزام لگایا گیا ہے"۔

اس سے قبل تقریب نیوز ایجنسی نے رپورٹ دی تھی کہ ویلینو ڈاسک کی مسجد کے امناء اور منتظمین میں سے چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ایک کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ فرانسیسی حکومت نے ان پر حسابات کے ناقص انتظام اور امانت میں خیانت کا الزام عائد کیا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ نے سنہ 2022ع‍ میں مسجد کی حفاظت کے لئے 25000 یورو امداد کی درخواست دی تھی، اور فرانسیسی سرکار نے ان اخراجات کو مشکوک قرار دیا تھا۔ گرفتار افراد پر 16 مارچ کو مقدمہ چلایا گیا جس کے بعد مسجد کے منتظمین کو وقتی طور پر گرفتار کیا گیا۔

اس رپورٹ کے مطابق، فرانسیسی حکومت نے نومبر سنہ 2015ع‍ کو باتاکلان میں کنسرٹ کے خونی واقعے کے بعد، انسداد دہشت گردی کے بہانے، مساجد اور اسلامی مراکز پر اپنا دباؤ بڑھائے رکھا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک نے بھی ایسا ہی رویہ اپنایا ہؤا ہے اور ان ممالک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے بہانے متعدد مساجد اور اسلامی مراکز کو بند کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ مورخہ 13 نومبر 2015ع‍ کو داعش نے فرانس کے دار الحکومت پیرس اور سینٹ-ڈینس میں حملے کئے، جن میں تین دھماکے بھی شامل تھے۔ چھ جگہوں پر اندھادھند گولی چلائی گئی، پیرس اسٹیڈیم کے قریب بھی بم دھماکے ہوئے۔ مسلح افراد نے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا اور پولیس نے مداخلت کی تو داعشیوں نے یرغمالیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق پیرس کے مختلف علاقوں میں  کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے اور ادھر باتاکلان (Bataclan) تھیٹر میں یرغمال بنائے گئے تقریباً سو افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ اور ہلاک شدگان کی مجموعی تعداد 130 تک جا پہنچی جبکہ ان حملوں میں 250 افراد زخمی بھی ہوئے۔ حملہ آوروں میں سے سات افراد نے خودکشی کر لی اور ایک پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہؤا۔ ان حملوں کو دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ قرار دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110