اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعرات

25 مئی 2023

1:52:53 PM
1368754

امت کا اتحاد کفر ہے سیخ پا؛

ایران اور مصر کے تعلقات کس سمت میں جا رہے ہیں؟

ایران اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی نے امریکہ، جعلی یہودی ریاست اور امریکہ کے یورپی حواریوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے، اور مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے بعد مصر کے ساتھ ایران کے تعلقات کی بحالی امت مسلمہ اور اسلامی محاذ مقاومت کے حق میں ہے؛ چنانچہ کچھ مبصرین نے ایران ـ سعودی عرب اور مصر کے درمیان سہ فریقی اتحاد کی تجویز دی ہے۔


عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایک طرف سے ایران اور مصر کے تعلقات بہتر بنانے کے سلسلے میں عراق اور عمان کی کوششوں کی خبریں گردش کر رہی ہیں تو دوسری طرف سے بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ایران، مصر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری جعلی صہیونی ریاست کے مقابلے میں ایک طاقتور سہ فریقی اتحاد کی تشکیل پر منتج ہو سکتی ہے۔

 تمہید:

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی پر صہیونیوں نے اپنی خفگی اور تشویش کا اظہار کیا تھا اور خطے کے ان دو اہم ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو اسرائیل اور امریکہ کے لئے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ ایران اور اردن کے درمیان سفارتی رابطوں پر بھی جعلی ریاست کے سرغنوں نیز بڑے شیطان کے ترجمانوں نے تشویش ظاہر کی ہے، اور اب جبکہ ایران اور مصر کے درمیان اسی نوعیت کے رابطے بڑھنے لگے ہیں تو ان کی تشویش میں مزید اضافہ ہؤا ہے۔

ادھر مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دینے والے امریکہ نے بھی ایران - سعودی سمجھوتے پر ظاہری مثبت رد عمل ظاہر کرنے کے باوجود، متعدد وفود ریاض بھجوائے ہیں، اور سعودی عرب سے "تقاضا!" کیا ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے لیکن سعودیوں نے کہا ہے کہ "نئے تعلقات کے قیام کے سلسلے میں اپنے فیصلوں سے پسپا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔ نیز حالیہ برسوں میں ایران کے ساتھ کشیدگی کے بموجب، صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی طرف بڑھتے ہوئے سعودی حکام نے اب (ایران کے ساتھ سمجھوتے کے بعد) سنہ 2023ع‍ کے آخر تک صہیونیوں کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی امریکی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ صہیونی اور مغربی ذرائع نے مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو اپنے لئے خطرناک قرار دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ امت مسلمہ کے لئے مفید اور مسلمانوں کا پرانا خواب ہے، اور ان کوششوں کی کامیابی امت کے مفادات کی حفاظت کی ضمانت ہے۔

 ایران اور سعودی عرب نے میں مذاکرات کے پانچ دور عراق میں اور تین دور مسقط میں مکمل کرنے کے بعد، چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے سمجھوتے پر دستخط کر کے سات سال سے منقطع ہونے والے روابط کو بحال کر دیا۔ جس کے بعد اردن کے ساتھ بھی تعلقات کی سطح بہتر بنانے پر بات چیت ہوئی، اور اب ایران اور مصر کے درمیان تعلقات کی موجودہ سطح (تحفظ مفادات دفتر) سے سفیر کے تبادلے کی حد تک، فروغ دینے کا مسئلہ ذرائع کے لئے موضوع بحث بن گیا ہے اور ایرانی سفارتی اہلکاروں اور متعلقہ حکام سے اسی بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اس سمجھوتے پر مصر میں بھی ملا جلا رد عمل سامنے آیا اور مصری وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ "مصر اس سمجھوتے میں دلچسپی رکھتا ہے اور پورے اشتیاق کے ساتھ خطے میں کشیدگی کم کرنے میں مدد دینے کے لئے تیار ہے"۔ دوسری طرف سے مصری صدارتی محل نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ "مصر اس اہم اقدام اور اس سلسلے میں سعودی رویے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔۔۔ مصر کو توقع ہے کہ اس اہم تبدیلی کی روشنی میں خطے کے ممالک کے درمیان مثبت تعلقات اور تعاون کے مواقع کو تقویت پہنچے اور تعاون کے لئے ایسی سمت کا تعین ممکن ہو سکے اور اس کی رو سے امن و سلامتی اور ترقی اور بالیدگی کے سلسلے میں خطے کی اقوام کی امیدوں کو مد نظر رکھا جائے"۔

ایران ـ سعودی سمجھوتے کے چند روز بعد، مورخہ 13 مارچ 2023ع‍ کو، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ ترجمان ناصر کنعانی نے ہفتہ وار اخباری کانفرنس میں ایران اور مصر کے تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: "ایران اور مصر خطے میں ایک دوسرے کے لئے اہمیت کے قائل ہیں، اور خطہ ایران اور مصر کی مثبت استعداد اور تعاون کا محتاج ہے۔

ادھر اردن کے دارالحکومت عَمّان میں منعقدہ بغداد کانفرنس-2 کے موقع پر ایران اور مصر کے حکام کے درمیان بات چیت ہوئی۔ اسی کانفرنس کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللٰہیان اور مصر کے سربراہ عبدالفتاح السیسی کے درمیان مختصر مگر اہم بات چیت ہوئی اور یقینی امر ہے کہ ہم مصر کے ساتھ تعلقات کے کی سطح بہتر بنانے کے لئے نئے اقدامات کو ضروری سمجھتے ہیں؛ تاہم ملکوں کے درمیان تعلقات کا مسئلہ، دو طرفہ مسئلہ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں دو ممالک کا ارادہ کیا ہے؟"۔  

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے مورخہ 19 مارچ 2023ع‍ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "اردن میں بغداد کانفرنس-2 کے دوران مصر کے صدر جناب السیسی سے مختصر بات چیت ہوئی، جس کے بعد قاہرہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دفتر تحفظ مفادات (Office for the Protection of the Interests) کے ذریعے سے بعض مصری حکام سے تعلقات کی سطح بہتر کرنے کے سلسلے میں بات چیت ہوئی۔ ہم مصر کو ہمیشہ عرب دنیا کا اہم ملک سمجھتے رہے ہیں اور دو طرفہ تعلقات میں کسی بھی قسم کی پیشرفت کا خیر مقدم کرتے ہیں"۔

مورخہ 5 مئی 2023ع‍ کو دو عراقی ذرائع نے لندن میں تعینات العربی الجدید نامی اخباری ویب گاہ کو بتایا کہ "ایران اور مصر کے بعض نمائندوں نے گذشتہ مہینے بغداد میں ملاقات کی ہے؛ البتہ مذاکرات کار وفود کم درجے کے تھے۔ عراق، ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثانہ کردار کو ایران اور مصر کے درمیان بھی دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے"۔

عراقی ذرائع کے دعوے کے مطابق، ایرانی اور مصری مذاکرات کاروں کا اصرار تھا کہ اس اجلاس کو باضابطہ ابلاغیاتی کوریج نہ دی جائے، جس میں عراقی وزیر اعظم محمد السودانی، وزیر خارجہ فؤاد حسین، اور قومی سلامتی کونسل کے نمائندے بھی شریک تھے۔

ادھر العربی الجدید نے مصری ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ مارچ (2023ع‍) کے آخر میں ایران اور مصر کے سیکورٹی اہلکاروں نے باہمی بات چیت کے دوران مستقبل میں تدریجی طور پر تعلقات کی بہتری کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔  

ادھر ایک عراقی سفارتی ذریعے نے کہا ہے کہ ایران اور مصر نے عراق کی طرف کی ثالثی کی تجویز پر مثبت رد عمل ظاہر کیا ہے، لیکن ثالثی میں کامیابی یاناکامی کے بارے میں کچھ کہنا ہنوز قبل از وقت ہے۔ عراق، ایران اور مصر کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کے انعقاد کے لئے کوشاں ہے۔

مورخہ 18 مئی (2023ع‍) کو بھی بعض باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایران اور مصر کے درمیان سیکورٹی حکام کی سطح کے مذاکرات ـ عراق کی وساطت سے ـ ماہ جولائی (2023ع‍) میں ہونگے۔

عراق کی ثالثی کا مسئلہ وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی کی 8 مئی کی پریس کانفرنس میں اٹھایا گیا۔ انھوں نے کہا: "میں اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا لیکن یہ درست ہے کہ ایران اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات تحفظ مفادات کے دفاتر کی سطح پر موجود ہیں اور دو ملکوں کی سفارتی ٹیمیں تہران اور قاہرہ میں سرگرم عمل ہیں، ان دفاتر کے ذریعے پیغامات کے تبادلے اور مذاکرات کا امکان برقرار ہے، اور پیغامات کے تبادلوں اور مذاکرات کے حوالے سے کوئی رکاوٹ موجود نہیں موجود نہیں ہے۔ ہم نے اعلان کیا ہے کہ عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے، اور یہی نہیں بلکہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات اور تعاون اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے؛ چنانچہ تعاون کی سطح بڑھانے کے سلسلے میں قاہرہ کا عزم و ارادہ اس راستے کو آسان بنا دے گا"۔

* ہم نے مصر کے ساتھ روابط کے فروغ کا ہمیشہ خیرمقدم کیا ہے

بعدازاں، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداللٰہیان نے ارنا (IRNA) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "تہران اور قاہرہ میں تحفظ مفادات کے دفاتر موجود ہیں اور ان دفاتر کے سربراہان سفیر کی سطح کے اہلکار ہیں؛ چنانچہ ہمارے درمیان براہ راست رابطے جاری ہیں۔ کچھ ممالک بھی ہیں جو تہران اور قاہرہ کے درمیان تعلقات کی سطح میں اضافہ کرنے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ ہم نے تہران ـ قاہرہ تعلقات کے فروغ کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے۔ ہمارے نمائندہ دفاتر کے سربراہان تہران اور قاہرہ میں مفید مذاکرات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے متعلقہ اعلیٰ حکام تک رسائی کی سہولت بھی موجود ہے۔ ہمارے صدر محترم آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے نظریئے کی روشنی میں مصر سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات اور تعاون کا فروغ ہماری ترجیحات میں شامل ہے، چنانچہ ہمیں امید ہے کہ دوست اور برادر ملک مصر کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے حوالے سے اچھے اقدامات عمل میں آئیں گے، اور مصر بھی اس سلسلے میں نئے اقدامات بجا لائے گا"۔

وزارت امور خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے مغربی ایشیا و شمالی افریقہ، مہدی شوشتری نے اس حوالے سے روزنامہ خراسان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "اس کے باوجود کہ ایران اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات سنہ 1980ع‍ میں منقطع ہوئے ہیں، دو ممالک کے تحفظ مفادات کے دفاتر تہران اور قاہرہ میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے ہیں، اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کی ایسی ہی کیفیت میں ایک تیسرا ملک تحفظ مفادات کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہوتا ہے، لیکن ایران اور مصر کے درمیان کوئی تیسرا ملک حائل نہیں ہے، اور دونوں ممالک کے نمائندے دو دارالحکومتوں میں بنفس نفیس موجود ہیں۔ تاریخی طور پر بھی ایران اور مصر کے تعلقات کا ایک طویل پس منظر ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف حوالوں سے ایران اور مصر کا موقف یکسان ہے، اور دو طرفہ تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف مراحل میں دو طرفہ تعلقات کی سطح بڑھانے کے لئے کوششیں ہوئی ہیں۔۔۔ اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے سلسلے میں ہماری طرف سے، کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ گوکہ تعلقات اور تعاون کے فروغ کے لئے فریق مقابل کا ارادہ بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے؛ ۔۔۔۔ مصر نے حال ہی میں ایرانی سیاحوں کو جنوبی سینا پہنچ کر ویزا کی فراہمی کا اعلان کیا تھا لیکن اس سلسلے میں مصر کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہیں ہو پایا ہے"۔

ادھر ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپریل (2023ع‍) کے دوسرے ہفتے میں اپنی معمول کی پریس کانفرنس میں کہا کہ "مصر کی طرف سے ایرانی سیاحوں کو ویزا کی فراہمی کا اعلان خوشایند ہے اور ہم ایران اور مصر کی مسلمان ملتوں کے درمیان [عوامی] تعلقات کے فروغ کا خیر مقدم کرتے ہيں؛ مصری سیاح بلا روک ٹوک اسلامی جمہوریہ ایران کے سفر پر آ سکتے ہیں، اور مستقبل کے حوالے سے ہماری نگاہ مثبت ہے"۔

* عُمان آگے آگے ہے کیا؟

العربی الجدید نے منگل (23 مئی 2023ع‍) کو، عمان کے "سلطان ہیثم بن طارق" کے حالیہ دورہ مصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلطان عمان نے مصر کے سربراہ عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی اور ایران اور مصر کے درمیان تعلقات کی بحالی کا مسئلہ دو طرفہ مذاکرات میں اٹھائے گئے مسائل میں سے ایک تھا اور مصر اس وقت ـ اور ایک بار پھر ـ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کو سفیر کے تبادلے تک پہنچانے کے لئے آمادہ ہو چکا ہے"۔

العربی الجدید کے ذرائع نے بتایا ہے کہ "ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں السیسی اور سلطان ہیثم کے مذاکرات، بعض مصری حکام کے ایرانی ہم منصبوں کے ساتھ رابطوں کے بعد انجام پائے ہیں۔ دو ملکوں کے حکام کے درمیان ان رابطوں کے دوران ایران اور مصر کے درمیان سیاسی، اسٹراٹیجک، سلامتی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ نیز یمن اور شام کے مسائل سمیت بعض ہنگامی علاقائی مسائل اور معیشت و تجارت کے فروغ پر بات چیت ہوئی تھی"۔

ایک مصری ذریعے کے مطابق، مصر عراق اور عمان کی ثالثی کا خیر مقدم کرتا ہے، تاہم یہ بہت حساس مرحلہ ہے اور ہاں! چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی سطح میں اضافہ مصر اور ایران کے روابط کے احیاء میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

سلطان عمان ہیثم بن طارق اب ایران کے دور پر آ رہے ہیں اور مبصرین کا خیال ہے کہ اس دورے میں  بھی ایران اور مصر کے درمیان تعلقات پر بات چیت ہوگی۔

واضح رہے کہ مصر کے سابق نائب وزیر خارجہ "عبداللہ الاشعل" نے ایران ـ سعودی سمجھوتے کے انعقاد کے بعد ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "مصر اور ایران کے درمیان تعلقات کے انقطاع کا جاری رہنا نہ صرف مصر کے مفاد میں نہیں ہے، بلکہ قاہرہ کے تزویراتی مفادات کا حصول دو طرفہ تعلقات کی بحالی میں مضمر ہے؛ اور تعلقات کی بحالی فریقین ـ بالخصوص مصر ـ کے مفاد میں ہے"۔

ادھر مصری ویب گاہ "الدبلوماسی" نے 18 مئی کو مصری صحافی "اشرف ابو عریف" کے قلم سے، ایک مضمون شائع کرکے لکھا تھا کہ جدہ میں عرب لیگ کی سربراہ کانفرنس کے درمیان ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں بات چیت ہوگی اور لگتا ہے کہ بتیسویں سربراہی اجلاس میں ایران کے ساتھ مصر، اردن، بحرین اور مراکش کے تعلقات کی بحالی کا انتظام ہوگا اور یہ ایک انتہائی اہم پیشرفت ہوگی اور یہ اجلاس امریکہ اور اس کے حوالی موالیوں کے لئے چونکا دینے والے پیغامات کا حامل ہوگا"۔

جیسا کے رپورٹ کی تمہید میں اشارہ کیا گیا، ایران اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی نے امریکہ، جعلی یہودی ریاست اور امریکہ کے یورپی حواریوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے، اور مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے بعد مصر کے ساتھ ایران کے تعلقات کی بحالی امت مسلمہ اور اسلامی محاذ مقاومت کے حق میں ہے؛ چنانچہ کچھ مبصرین نے ایران ـ سعودی عرب اور مصر کے درمیان سہ فریقی اتحاد کی تجویز دی ہے۔

واضح رہے کہ غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ بھی مصر کے تعلقات ہیں، اور مصری حکومت صہیونی ریاست کے دباؤ کی وجہ سے انتہائی محتاط انداز سے آگے بڑھ رہی ہے، چنانچہ ایران اور مصر کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110