اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

13 مئی 2023

5:57:15 AM
1365160

فلسطین پر صہیونی جارحیت؛

مسکین نیتن یاہو؛ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن

مبصرین کہتے ہیں کہ فلسطینی مقاومت نے ایک بار پھر پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی خدمات حاصل کر لیں اور کسی قسم کی ادائیگی کے بغیر انہیں مقاومت کی میزائل لانچنگ کے تمام مناظر براہ نشر کرنے پر مجبور کیا۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا -

مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطینی مقاومت نے اس بار دنیا کے تمام تر ذرائع ابلاغ کی خدمات حاصل کریں اور کچھ ادا کئے بغیر انہیں اپنی راکٹ لانچنگ کے مناظر براہ راست نشر کرنے پر مجبور کیا۔

آفریں ہے فلسطینی مجاہدین کے اس زبردست ابلاغیاتی تکملے (Media supplement) پر۔

فلسطینی مقاومت نے تل ابیب کو کامیابی سے نشانہ بنایا، اور یوں اس نے جعلی صہیونی ریاست کی اقتصادی شہرک کو بھی نشانہ بنایا اور صہیونی حکام کو اپنے پاس - غزہ سے 70 کلومیٹر دور تک مار کرنے والے - میزائلوں کی موجودگی کی بھی یاد دہانی کرا دی۔ صہیونی ریاست کی لاچارگی اور بے بسی کی انتہا یہ ہوئی کہ اسے پہلی بار فلاخنِ داؤد (David sling) نامی میزائل شکن نظام میدان میں لانا پڑا، اور یوں اس نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی پھینک دیا۔ اس میزائل شکن نظام کے ہر میزائل کی قیمت کم از کم 10 لاکھ ڈالر ہے جسے صہیونیوں کو محور مقاومت کے چند صد ڈالر کے میزائلوں سے نمٹنے کے لئے استعمال کرنا پڑا۔

نیتن یاہو اور اس کی دہشت گرد اور تشدد پسند کابینہ کو ان کے اپنے دوستوں ایک ایسے معرکے میں دھکیل دیا، جسے نہ وہ اب روک سکتے ہیں اور نہ ہی اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

ادھر عربوں نے - ماضی کی طرح - اپنی شرمناک مذمتی بیانات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ثالثی کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کر دیں لیکن جہادی اسلامی مقاومتی تحریک کے راہنماؤں نے زور دے کر کہا ہے کہ "وہ قطر، مصر وغیرہ کی ثالثی کی پیشکش اس شرط پر قبول کرے گی - اور جنگ بندی کو قبول کرے گی - کہ جعلی صہیونی ریاست مقاومت کے کمانڈروں پر دہشت گردانہ حملے بند کرنے کی عملی ضمانت فراہم کرے اور اپنے اس رویئے سے دستبردار ہو جائے۔

دوسری طرف سے نیتن یاہو کے تشدد پسند اتحادیوں نے شرط عائد کی ہے کہ وہ اسی پالیسی پر کاربند رہے گا اور فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں جاری رکھے گا تو وہ بھی کابینہ میں اس کے ساتھ تعاون کریں گے، ورنہ اس کی حمایت سے دستبردار ہونگے اور یوں اس کی حکومت ختم ہوگی۔ اب دیکھا جائے گا یہ نیتن یاہو ان دو متضاد سروں کو کیونکر ملاتا ہے! اور کیا وہ ان دو نقیضوں کو جمع کر سکے گا اور ایک درمیانی نقطے پر پہنچ سکے گا؛ اور ہاں کیا اپنے اتحادیوں کی حمایت جیتنے کے لئے صہیونی غصب اور جبر کو قائم رکھ سکے گا؟ واضح ہے کہ صہیونیت کے ڈوب جانے کی صورت میں نیتن یاہو یا کسی بھی صہیونی وزیر اعظم کی حکومت قائم رکھنے کی کوششیں بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔

چنانچہ لگتا ہے کہ وہ اپنی بقاء کی خاطر، کابینہ کو بھول کر، غاصب ریاست کے بقاء کو ترجیح دے گا جیسا کہ موصولہ اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو نے جنگ بندی کے لئے کچھ حکومتوں کا دامن تھام لیا ہے اور مغربی ممالک نیز ثالثی صہیونیوں کی مخالفت سے بیزار اور ثالثی کے شوقین عرب حکمرانوں سے ہاتھ جوڑ کر جنگ بندی کی بھیک مانگ رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

110