اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
پیر

8 مئی 2023

2:51:02 AM
1363612

مقاومت اسلامی کی عظیم کامیابی؛

شام کی جیت، عالمی سازش ناکام، عرب لیگ نے سفید جھنڈا لہرایا!

عالم عرب کے جانے پہچانے تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے عرب لیگ میں شام کی دوبارہ شمولیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ دمشق بالآخر جیت گیا اور عرب ممالک نے - [جو "محض صہیونیوں کی رضامندی کی خاطر" شام کو لیبیا جیسی صورت حال سے دوچار کرکے ملوک الطوائفی سے دوچار کرنا چاہتے تھے] اور عرب ممالک نے شام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔

عالمی اہل بیت(ع) ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق،

عرب لیگ کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اتوار (7 مئی 2023ع‍) کو قاہرہ میں منعقد ہؤا؛ شام کی عرب لیگ میں واپسی کی تجویز پر رائے شماری ہوئی اور یوں عرب لیگ نے شام کی رکنیت بحال کر دی، جسے اس نے عشرہ پہلے مسوخ کر دیا تھا، اس خیال سے کہ شام کی حکومت بہت جلد ختم ہوگی!  

الیکٹرانک اخبار "رَأیُ الیوم" کے چیف ایڈیٹر اور عالم عرب کے مشہور و معروف تجزیہ کار ڈاکٹر عبدالباری علطوان نے اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے اور لکھا ہے کہ "شام کی افسانوی استقامت، جو 12 سال تک جاری رہنے کے بعد شام کی تاریخ فتح پر منتج ہوئی ہے؛ اور عرب لیگ میں اس ملک کی رکنیت، بالکل غیر مشروط طور پر بحال کر دی گئی ہے۔  

ڈاکٹر عطوان کے مضمون کے اہم نکات:

عرب لیک میں شام کی واپسی، امریکہ کے لئے بہت بڑی شکست ہے، جس نے اس کی شدید مخالفت کی تھی اور اس راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے کسی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا، لیکن کسی بھی عرب ملک نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا؛ جو بجائے خود مشرق وسطیٰ کے خطے میں امریکی اثر و رسوخ میں شدید کمی کا اظہار ہے۔ اس سے زیادہ اہم نکتہ یہ تھا کہ شام عرب لیگ میں اپنی رکنیت کی بحالی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا اور اس نے اس تنظیم میں اپنی رکنیت کی بحالی کے لئے کوئی درخواست نہیں بھیجی تھی۔

سنہ 2013ع‍ میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت منسوخ کر دی تھی، لیکن آج یہ ملک - ریاض میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے پہلے ہی - ایک بار عرب لیگ میں پلٹ آیا ہے؛ جس کا اصل سبب سعودی حکمرانوں کے تزویراتی حکمت عملی میں آنے ولی تبدیلی ہے، اور سعودیوں کی حکمت عملی میں تبدیلی کا سبب، اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کا باہمی سمجھوتہ ہے، جس کے بعد ریاض نے خطے میں انتشار کی حکمت عملی کو ترک کر دیا اور اور یکجہتی کی راہ پر گامزن ہؤا۔

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ صدر ڈاکٹر بشار الاسد اگلے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں، لیکن اگر یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ شرکت کریں تو اس اجلاس کا غیر متنازعہ ستارہ (Undisputed star) ہونگے۔

بے شک جنگ کے میدانوں میں شام کی عظیم استقامت، عرب لیگ میں اس کی واپسیکا سبب بنی ہے۔ شامی قوم نے شام کی تقسیم کے امریکی - صہیونی منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے بہت زیادہ مصائب برداشت کئے۔ دوسری طرف سے عرب حکومتوں نے - شام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی غرض سے - باضابطہ طور پر سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کئے، لیکن ان ہی ممالک اور حکومتوں نے سفید پرچم لہرا کر اپنی شکست تسلیم کر دی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم دنیا پر حکم فرما وسیع البنیاد تبدیلیوں کے مرحلے سے گذر رہے ہیں، جس کی سب سے بڑی علامت خطے اور دنیا میں امریکی اثر و رسوخ میں شدید تنزلی اور یک قطبی نظام کے خاتمے اور کثیر قطبی عالمی نظام کا معرض وجود میں آنا ہے جس کی قیادت روس اور چین کے ہاتھ میں ہے۔ عرب دنیا بھی - جو اسی دنیا کا حصہ ہے - ان تبدیلیوں سے دور نہیں رہ سکتی؛ چنانچہ سعودی حکمران عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کے لئے میدان عمل میں آئے اور ان کے اس اقدام کے نتیجے میں یقینا نیا علاقائی نظام قائم ہوگا، جس کا نتیجہ مصر، سعودی عرب، شام اور عراق کے اتحاد کی بحالی اور ایران کے ساتھ اس اتحاد کے قریبی تعلقات کے قیام کی صورت میں بر آمد ہوگا۔

یقینا موجودہ صورت حال کو "عربی بیداری" کا عنوان دیا جا سکتا ہے اور بیداری کی اس لہر میں سب سے بڑی ہار صہیونی ریاست کی قسمت میں آئی ہے، اور یہ بیداری مسلم دنیا میں مذہبی فتنے کے مکمل خاتمے کا سبب بنے گی، فلسطین کی طرف ایک بار بھرپور توجہ دی جائے گی، اور صہیونیوں کے ساتھ بعض عرب ممالک کی ساز باز پر مبنی معاہدے کالعدم ہونگے۔

البتہ یہ بھی درست ہے کہ عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کا خبر مقدم ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات، شام کی تعمیر نو اور اس ملک کے عوام کو درپیش مسائل و مشکلات حل کرنے کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ شام کے بحران کے آغاز کے 12 سال بعد - جس کی شروع میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت کو معطل کر دیا تھا - آج - شام کے نظام حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ہونے والی تمام تر مغربی ـ عربی ـ صہیونی کوششوں کی مکمل ناکامی کے بعد، - عرب ممالک نے مجبور ہو کر اس عربی تنظیم میں شام کی واپسی کی تجویز کو منظور کر لیا۔

عرب لیگ میں شام کی واپسی کے لئے ہونے والی کوششوں میں عراق اور سعودی عرب کی کوششیں زیادہ نمایاں تھی۔ وال اسٹریٹ جرنل نے کچھ عرصہ قبل بعض عرب اہلکاروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ "سعودی عرب عرب لیگ میں شام کی واپسی کے لئے کوشاں ہے، لیکن یہ کوششوں کے ابتدائے راہ میں ریاض کے کچھ اتحادیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا"۔

وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا تھا کہ "عرب لیگ کے تقریباً پانچ رکن ممالک - بشمول مراکش، کویت، قطر اور یمن [کی سابق مستعفی حکومت جس کا مرکز سعودی دارالحکومت ریاض تھا اور اسے اپنے سعودی حامیوں نے ہی ہٹا دیا ہے] فی الحال اس تنظیم میں شام کی رکنیت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں"۔

ادھر کچھ دن قبل اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے بھی کہا تھا کہ شام عنقریب عرب لیگ میں واپس آئے گا، اور تمام عرب ممالک شام کے بحران کے خاتمے کی ضرورت پر اتفاق رائے رکھتے ہیں، اختلاف صرف شام کی واپسی کی کیفیت پر ہے۔

بہرحال آج، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ، عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی بحالی کے لئے ماحول فراہم ہو چکا ہے، اور بالآخر اس کی رکنیت بحال ہوئی، عرب لیگ کی عمارت پر شام کا پرچم لہرایا گیا اور گویا کہ عرب لیگ نے سفید جھنڈا لہرا کر شام کے سامنے گھننے ٹیک دیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110