اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

17 جنوری 2023

5:09:40 PM
1339224

بریگیڈیئر جنرل قا آنی؛

امریکہ بے آبرو ہو کر خطے سے بھاگ جائے گا / یہودی ریاست ٹوٹ رہی ہے

شہید لیفٹننٹ جنرل الحاج قاسم سلیمانی کے جانشین اور سپاہ قدس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل الحاج اسماعیل قا آنی نے کہا ہے کہ امریکہ ذلت و خفت کے ساتھ خطے سے بھاگ جائے گا اور سابق سوویت اتحاد کے انجام سے دوچار ہو جائے گا؛ یہ وہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے اپنے تحقیقی ادارے بھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ جمعرات، مورخہ 5 جنوری 2023ع‍ کی شام کو کرمان کے گلزار شہداء (شہیدوں کے مزار) میں منعقدہ شہید جنرل سلیمانی کے شہید محافظ بریگیڈیئر حسین پورجعفری کی شہادت کی برسی کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ان دنوں شہید سلیمانی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے، اور اس بزرگ کے فضائل کے بارے میں جتنا بھی لکھا اور کہا جائے، کم ہے، لیکن اس شہید عظیم الشان کے ساتھیوں اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے بار میں بھیل بولنے اور لکھنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا: شہید بریگیڈیئر حسین پورجعفری 40 برس سے دفاع مقدس (آٹھ سالہ جنگ) میں، اور بڑی سیکورٹی کاروائیوں اور بالآخر عالمی محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی وسیع اور ہمہ جہت حمایت کے دوران شہید عالی مقام الحاج قاسلم سلیمانی کے ساتھ رہے ہیں۔

شہید پورجعفری شہید قاسم سلیمانی کے بھائی اور ساتھی و ممدّ و معاون تھے

شہید پورجعفری طویل عرصے تک اخلاص، شجاعت، محبت، اخوت کے ساتھ سچے بھائی اور ممد معاون کے طور پر جنرل شہید سلیمانی کے ساتھ رہے۔ اور شہید پورچعفری کا یھائی چارہ اور تعاون ان تمام مجاہدین پر بھی محیط تھا جو محور مقاومت میں جنرل شہید سلیمانی کے ساتھ کام کرتے تھے۔

جنرل شہید سلیمانی معاشرے اور محاذ مقاومت کے مجاہدین کے ستھ قریبی اور مستحکم تعلق رکھتے تھے اور چونکہ جنرل الحاج قاسم کے پاس سب سے ملنے کی فرصت نہیں ہوتی تھی چنانچہ مجاہدین شہید پورجعفری سے مل کر ان کے ذریعے جنرل سلیمانی تک بالواسطہ رسائی حاصل کرتے تھے؛ اور جس وقت شہید جنرل بند سے ماحول میں کام کرتے تھے، شہید پورجعفری ہی حلقۂ اتصال کا کردار ادا کرتے تھے اور مختلف کمانڈروں اور ذمہ دار شخصیات سے رابطے میں رہتے تھے، اور یوں الحاج قاسم سلیمانی اور ماتحت کمانڈروں کا رابطہ مسلسل قائم رہتا تھا۔ یہ ایک باوفا، مہربان اور مخلص حلقۂ اتصال تھا جو شب و روز فعال رہتا تھا۔

شہید پورجعفری ان تمام مسائل کو اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر خندہ پیشانی سے حل کرتے تھے، اور بہت زیادہ اہم مسائل کو اپنے کمانڈر جنرل شہید سلیمانی کو منتقل کرتے تھے اور مقاومت کے مجاہدوں کے مسائل حل کرکے ان کے مسائل حل کر دیتے تھے۔

شہداء اپنی نمایاں خصوصیات کی رو سے دوسروں کے لئے چراغ راہ ہیں

شہداء کی ایسی نمایاں صفات و خصوصیات ہیں جو ولایت و امامت اور شہیدوں کے – ستاروں بھرے آسمان پر – چمک کر دوسروں کو راہنمائی فراہم کرتی ہیں؛ یہ شہداء شہید سلیمانی اور ان کے دیرینہ دوست شہید احمد کاظمی کی سطح کے شہداء ہیں۔ شہید کاظمی کی شہادت کی برسی بھی ان ہی دنوں میں منائی جائے گی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم شہادت و شجاعت کے آسمان پر دمکتے ان شہیدوں کی عظمت کو دیکھیں اور سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے مکتب کے دوسرے عظیم الشان شہیدوں کو نہ دیکھیں۔

ہمارے تمام شہداء سردار [اور جنرل] ہیں، وہ اپنے گھرانوں، محلوں، شہروں، ملک اور اسلام کے سردار ہیں لہذا شہید سلیمانی جیسے اعلیٰ مرتبت شہداء کی تکریم کے ساتھ ساتھ شہید سلیمانی کے دوش بدوش محاذ مزاحمت کو تقویت پہنچانے والے مخلص شہیدوں کی تکریم و تعظیم، در حقیقت شہید سلیمانی کی قدر و منزلت بڑھانے کے مترادف ہے۔

جب آپ ان شہیدوں کی تکریم بجا لاتے ہیں، شہید سلیمانی کی روح بھی شادماں ہوجاتی ہے۔ یہ مجلس شہید حسین پورجعفری کی یاد میں منعقد ہوئی ہے اور شہید پورجعفری وہ شخصیت ہیں کہ جب کام کے سلسلے میں اور معمول کے مسائل کے حل کے حوالے سے ایک مَحرَم، وفادار، مخلص اور فعال انسان کی ضرورت پڑتی تھی تو شہید سلیمانی حسین پورجعفری کا نام پکارتے تھے۔

شہید سلیمانی کے ساتھی شہیدوں نے مقاومت کے افتخار آمیز راستے کو تقویت پہنچائی

شہید سلیمانی کے ساتھ شہید ہونے والے افراد بہت قابل قدر تھے، جنہوں نے تمام میدانوں میں شہید کے قدم بقدم کردار ادا کیا اور اپنی برکتوں سے مالامال دنیاوی حیات کے آخری دن تک ان کے ساتھ رہے۔ شہید حسین پورجعفری، شہید شہروز مظفری نیا، شہید ہادی طارمی، شہید وحید زمانی نیا، اور مقاومت اسلامی کے نامی گرامی شہید الحاج ابو مہدی المہندس وہ شہداء ہیں جنہوں نے محاذ مزاحمت کے مقاومتی سفر میں شہید سلیمانی کا ساتھ دیا اور اس مشن کو تقویت پہنچائی۔

بے شک تکریم شہداء کی مجالس محض عزاداری کی مجالس نہیں ہیں بلکہ یہ مجالس اسلام اور انقلاب اسلامی، نیز اس مکتب کی راہ میں جان کی بازی لگانے والے شہیدوں کی عظمت اور سربلندی کی یاددہانی اور یادآوری کی مجالس ہیں۔

شہیدوں کی تکریم کی مجالس الٰہی اقدار کی تشریح کی مشق ہیں، جن دین اسلام اور مکتب تشیع میں کوئی کمی نہیں ہے۔ امامین انقلاب امام سید روح اللہ الموسوی الخمینی (قدس سرہ) اور رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے ان اصطلاحات کی سیر حاصل تشریح فرمائی ہے اور ہمارے شہداء ان اصطلاح کا اکمل مصداق ہیں جنہوں نے ان اصطلاحات کو اپنے وجود میں مجسم کیا، اور ایک فداکار قوم کے لئے قابل تقلید نمونۂ عمل بن گئے، ایسی ملات جس نے اسلام اور انقلاب اسلامی کے دفاع میں اپنا پورا وجود قربان کر دیا ہے۔

ہمارا الٰہی نظام پوری قوت و شجاعت کے ساتھ دشمنوں کی مختلف النوع جنگوں کے مقابلے میں کھڑا ہے

ہمارا الٰہی نظام پوری طاقت و استحکام اور شجاعت کے ساتھ دشمن کی مسلط کردہ مختلف جنگوں کے سامنے کھڑا ہے، اور ہر خطرے کو ایک مناسب موقع میں بدلتا ہے، جیسا کہ آپ ہر روز دیکھ رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ اس نے امت مسلمہ میں فرزندان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور فرزندان امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر زمین سے اٹھا لیا ہے۔

آج فلسطین سے لبنان، شام، عراق اور یمن تک، جہاں بھی نشاط مقاومت کا پرچم لہرا رہا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فرزندوں نے، کس طرح آپ کے – الحاج قاسم سلیمانی اور شہید پورجعفری جیسے – شہیدوں کی راہ پر گامزن ہو کر، مختلف جغرافیائی علاقوں میں امریکہ جیسے دشمنوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا ہے۔

حزب اللہ نے یہودی ریاست سے، لبنان کا پورا حق یکجا، لے لیا

حزب اللہ نے کاریش کے علاقے میں مقبوضہ فلسطین اور لبنان کی آبی سرحدوں کے تعین اور گیس اور تیل کے میدانوں میں لبنان کے ارضی حقوق کے حصول میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ حالیہ مہینوں نے میں آپ نے دیکھ لیا کہ بہادر اور ثابت قدم لبنان میں، ایک مقاومتی جماعت ہے جس کا نام حزب اللہ ہے، جس کے پاس نہ وسیع و عریض عسکری نظام ہے اور نہ ہی بڑے پیمانے پر ہتھیار، نہ بمبار طیار، نہ طیارہ بردار جہاز۔ لیکن، وہاں محترم اور صاحب ایمان انسانوں کا مسکن ہے جنہوں نے انقلاب اسلامی سے مقاومت کی تعلیم بخوبی حاصل کی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ مقاومت کے کمانڈر سید حسن نصر اللہ نے کوئی طیارہ، یا میزائل بھیجے بغیر، حتیٰ کہ بندوق کی ایک گولی چلائے بغیر، صرف دو تقریروں کے ذریعے سمندری سرحدوں کے تعین اور تیل اور گیس کے ذخائر میں سے، لبنان کا پورا حق حاصل کیا کرلیا؛ اور ایسا کارنامہ رقم کیا جس کی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔

اتنی بڑی حصول یابی کے لئے برسوں تک طویل جنگیں لڑی جاتی تھیں مگراس سیاسی معرکے میں حزب‌الله نے صہیونیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور دس سال سے جاری مذاکرات کے آخر میں حزب اللہ کی برکت سے، لبنان کی سرحدیں محفوظ رہیں اور لبنان تیل اور گیس پیدا کرنے والے ممالک کے جرگے میں شامل ہؤا۔

اس واقعے سے ہمیں یہ درس ملا کہ جب مقاومت کے فرزند سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں، جم کر کھڑے ہوتے ہیں تو جرائم پیشہ اور طفل کش صہیونی ریاست ہتھیار ڈالتی ہے اور پسپا ہو جاتی ہے۔ اور یہ مقاومت کی طاقت اور وہی مکتب ہے جسے آپ کے شہید سلیمانی اور شہید پورجعفری اور محور مقاومت کے شہیدوں نے اپنے بھائیوں کو منتقل کیا ہے اور وہ آج اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں۔

معرکۂ سیف القدس میں فلسطینی مقاوت نے 3000 میزائل صہیونی ریاست پر برسائے ہیں

شہید سلیمانی کا مکتب دنیا بھر میں جبر و استکبار کے مقابلے میں، طاقت و شجاعت کا مکتب ہے اور آج فلسطینیوں کی پانچویں نسل کے نوجوان، جن کے باپ دادا 75 برس سے غاصب ریاست کے خلاف لڑے ہیں، اپنے اسلاف سے کہیں زیادہ پرعزم اور طاقتور ہیں حالانکہ فلسطینی اس سے پہلے پتھر اٹھا کر لڑتے رہے ہیں۔

معرکۂ سیف القدس، جو گذشتہ (قمری) سال کے ماہ مبارک رمضان میں لڑا گیا، سے پہلے، فلسطینی محاذ مقاومت نے صہیونیوں کو دو گھنٹوں میں مسجد الاقصیٰ سے نکلنے کا انتباہ دیا؛ جس کے بعد مقاومت نے 3000 سے زیادہ میزائل صہیونی ریاست پر برسائے۔

گذشتہ سال ماہ محرم الحرام میں فلسطینی مقاومت کی صرف ایک جماعت نے غاصب یہودی ریاست کے خلاف میدان جنگ میں کود پڑی تھی، اور ابھی جنگ کا دوسرا ہی دن تھا کہ صہیونیوں نے – جس نے خود ہی جنگ کا آغاز کیا تھا – جنگ بندی کی تجویز دی۔

فلسطینی مجاہدین کی کامیابیوں کا حال یہ ہے کہ غزہ کے بعد اب مغربی کنارہ بھی صہیونیوں کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے اور غاصب ریاست کو – اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ – اپنی آدھی فوج مغربی کنارے میں تعینات کرنا پڑی ہے۔ جبکہ مغربی کنارے کا پورا علاقہ صوبہ کرمان کے نصف رقبے سے بھی کم ہے۔

البتہ فلسطینی مقاومت کے نوجوان یہودی فوج کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح، استقامت کر رہے ہیں، اور انہیں نقل و حرکت نہیں کرنے دے رہے ہیں۔ صہیونیوں کی بے بسی دیکھئے کہ ایک نوجوان اٹھ کر صہیونی فوجیوں پر گولی چلاتا ہے اور صہیونیوں کی پوری سیکورٹی مشینری حرکت میں آتی ہے مگر اس نوجوان کا سراغ لگانے سے عاجز رہی ہے اور ایک ہفتہ بعد پھر وہی نوجوان صہیونی فوجیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتا ہے اور وہ فائرنگ کے تبادلے میں جام شہادت نوش کرتا ہے۔

امریکہ بے آبرو ہو کر، خفت اور ذلت کے ساتھ خطے سے بھاگ جائے گا

امریکہ نہ صرف خطے سے بھاگ جائے گا بلکہ سابق سوویت اتحاد کے انجام سے بھی دوچار ہوگا؛ یہ صرف ہماری پیش گوئی نہیں ہے بلکہ امریکہ کے اپنے تحقیقاتی مراکز بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔

ہمیں بہرحال امریکہ کے خلاف حقیقی جنگ میں پوری قوت سے جم کر رہنا پڑے گا، اور ہم کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور شہید سلیمانی کے خون کی برکت سے مقاومت کا، عزت و عظمت کا مشن، جاری رہے گا۔

صہیونی کچھ حاصل کئے بغیر بہت کچھ کھو چکے ہیں

رہبر انقلاب امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے فرمایا ہے کہ جعلی اسرائیلی ریاست اگلے 25 سال کو نہیں دیکھ سکے گی اور اب دنیا بھر میں تحقیقی مراکز موصوف کے اس جملے کی بنیاد پر اس سوال کا جائزہ لے رہے ہیں کہ “اسرائیل کس وقت دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا؟”۔ وہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیلی نہ صرف کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ بہت سے علاقوں کو کھو بھی چکے ہیں۔

یہ جو جعلی ریاست نے چار سال کے عرصے میں پانچ مرتبہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا، اور اس عرصے میں ان کی کوئی بھی حکومت ایک سال سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی ہے اور غاصب ریاست [جو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہوکر کوئی راہنما تلاش نہیں کر سکی ہے، ایک بار پھر] اسی تکراری شخص کو سامنے لائی ہے جس کا نام لینا اس مجلس کی شان کے خلاف ہے۔ ایسا شخص جو اپنے غاصب معاشرے کے اندر بھی بدترین اور جرائم پیشہ ترین شخص کہلاتا ہے۔

غاصب ریاست کے وزیر اعظم کے اس وزیر اعظم نے آٹھ ماہ قبل ایک 27 صفحات پر مشتمل خط شایع کیا اور اس کو “اسرائیل کے خاموش عوام کے نام” سے معنون کیا اور اس خط میں جعلی ریاست کو درپیش مسائل و مصائب کا تذکرہ کیا۔

غاصب ریاست کے اندرونی تنازعات اس کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن رہے ہیں

جعلی ریاست کی افواج کی صورت حال اس قدر خوفناک و تشویشناک ہے کہ کوئی بھی اسرائیلی اس میں بھرتی ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ صہیونی وزیر اعظم نے اس خط میں لکھا تھا کہ “یہودیوں نے تاریخ میں دو مرتبہ حکومت کی ہے؛ پہلے دور میں یہ حکومت 80 سال تک قائم رہ سکی اور اندرونی تنازعات اس کی نابودی کا سبب بنی؛ اور دوسرے مرحلے میں یہ حکومت 75 سال تک قائم رہ کر، پھر بھی اندرونی تنازعات کی وجہ سے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے؛ آج بھی [مبینہ طور پر تیسری] یہودی حکومت شدید اندرونی اختلافات و تنازعات سے دوچار ہے جن کی وجہ سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کماندر بریگیڈیئر جنرل الحاج اسماعیل قاآنی نے آخر میں کہا: شہید الحاج قاسم سلیمانی اور شہید حسین پورجعفری خطۂ کرمان سے اٹھے اور آسمان مقاومت کے چمکتے دمکتے ستارے بن گئے، میں کرمان کے تمام عالی مرتبت شہیدوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق کی دعا کرتا ہوں کہ ہم اس الٰہی مشن کو جاری رکھ سکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242