اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ خلیج فارس کے ایک عرب تجزیہ نگار نے سماجی رابطے کی ویب گاہ پر حجاز و نجد کے قبائل پر مسلط کردہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جنگ کے عزائم کو طشت از بام کردیا۔
فہد الغفیلی نے ٹوئیٹر پیغامات کے ایک تفصیلی سلسلے میں لکھا:
عرب قبائل حجاز و نجد کے قبائل سمیت، خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں اور ہمیشہ سے جزیرہ نمائے عرب کے اطمینان و سکون کا ذریعہ رہے ہیں؛ کیونکہ قبائل ہی عربی اقدار اور اسلامی اخلاقیات کے ضامن رہے ہیں، اور قبائل ہی اپنے حکام کی حمایت کے لئے اٹھے ہیں اور ان کی مدد اور ان کے لئے دفاعی قوت فراہم کرتے رہے ہیں۔
باوجود اس کے، کہ جزیرہ نمائے عرب میں کئی صدیوں سے بادشاہی حکومت چلی آ رہی ہیں مگر کسی بھی سعودی بادشاہ میں ہمت نہیں تھی کہ ان قبائل کو کمزور کردے یا انہیں نیست و نابود کرے اور موروثی اسلامی-عربی اقدار سے عاری کر دے؛ بلکہ حکام ہمیشہ انہیں تقویت پہنچاتے رہے ہیں اور اپنی حکومت کے استحکام کے لئے ان کے شیوخ اور زعماء کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے ہیں۔
جب سے بن سلمان بر سر اقتدار آئے ہیں اور سعودی معاشرے کے تشخص بدل کر انہیں اسلامی اقدار سے بیگانہ کرنے پر اصرار کرتے آئے ہیں، اور اس کے باوجود کہ لندن میں سعودی سفیر خالد بن بندر نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ “سعودی بادشاہت کی بنیاد مذہب نہیں ہے بلکہ ابتداء میں ایک قبیلہ تھا جو دوسرے قبائل کو پیٹ کر فاتح ہؤا” آج نجد و حجاز کے قبائل ان کے ظلم و جبر سے محفوظ نہیں ہیں۔
بن سلمان نے – اعلان کئے بغیر – بہت سے قبائل پر ایک جنگ مسلط کی ہے، جس کا ایک بڑا مرحلہ یہ تھا کہ انھوں نے بہت سے بڑے قبائل کو تحلیل کردیا ہے؛ بہت سوں کو بدنام اور بے اعتبار کر دیا ہے، ان کی اقدار کو روند ڈالا ہے اور ان کے شیوخ کو پابند سلاسل اور ان کے اراضی اور دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
بطور مثال دو قبائل کے شیوخ “خالد بن قرار الحربی” اور “ڈاکٹر عبدالرحمٰن” سرکاری خدمات سے سبکدوشی کے بعد گرفتار کر لئے گئے۔
بن سلمان قبائل کے شیوخ اور مقدس شخصیات کو گرفتار کرکے ان کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مثال کے طور پر قبیلہ عتیبہ کے سربراہ فیصل بن سلطان بن جہجاہ بن حمید نے بن سلمان کے تفریحی ادارے کی غیر شرعی اور غیر اسلامی تقریبات اور سعودی باشندوں کی ناگفتہ بہ معاشی صورت حال پر تنقید کی تو انھوں نے انہیں گرفتار کروایا اور جبر و تشدد کا نشانہ بنایا اور اس قسم کے رویوں کا واحد مقصد حکمران قبیلے کے ناقدین کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
بن سلمان نہ صرف قبائل کو انتشار سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اور علماء کو گرفتار کر رہے ہیں۔ انھوں نے جون 2017ع میں، [چار فریقی سعودی، بحرینی، اماراتی، مصری اتحاد بنا کر قطر کو گھیرنے کے بعد]، قبیلۂ آل مرہ کے شیوخ کو بلوایا اور قطر کے خلاف تنقیدی بیان جاری کرنے کا حکم دیا لیکن قبیلے کے شیوخ ان کے دھوکے میں نہیں آئے اور بن سلمان کے اس حکم کو مسترد کیا۔
بن سلمان کا ایک اقدام یہ تھا کہ انھوں نے آل الشیخ قبیلے کے مقبول افراد کو برخاست کرکے اس قبیلے کے بدنام افراد کو سرکاری مناصب پر مسلط کیا۔ ترکی آل الشیخ ان ہی بدنام اقراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے تفریح کے نام پر بدنام اور فحش قسم کے افراد کو سرزمین مقدس میں آنے کی دعوتیں دیں اور یوں آل الشیخ قبیلے کا نام اخلاقی فحاشی اور عریانی جیسی صفات کے ساتھ تواَم کر دیا ہے۔
بن سلمان نے الحویطات سمیت متعدد قبائل کا اثر و رسوخ اور طاقت ختم کرنے کے لئے انہیں ان کے آبائی علاقوں سے نکال باہر کیا ہے۔ الحویطات نامی قبیلہ نیوم نامی صہیونی منصوبے کے نفاذ کے لئے اپنے آبائی علاقے سے جلاوطن کیا گیا۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2022ع میں سعودی سیکورٹی اداروں نے دعویٰ کیا کہ نجد و حجاز کے قبائل کے زعماء نے محمد بن سلمان کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا ہے۔ اور سعودی لیکس نامی ویب گاہ نے لکھا کہ اس بغاوت کا مقصد علماء اور دینی مبلغین کی گرفتاریوں کی مخالفت کا اعلان تھا۔
سعودی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ قبائلی عمائدین نے اپنے ان بیٹوں کو – جو سعودی سیکورٹی اداروں اور ہوائی اڈوں میں تعینات ہیں – ہدایت کی ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر گرفتار افراد کے بیٹوں اور بیٹیوں کو ملک سے نکلنے میں مدد بہم پہنچائیں تاکہ بیرون ملک بن سلمان کے جبر کو افشاء کر سکیں۔
ان ذرائع کے مطابق، بن سلمان کی پالیسیوں کے مخالف افسران نے ہی ناصر بن عوض القرنی کو ملک سے نکلنے میں مدد پہنچائی تھی۔ ناصر کے باپ سعودی دینی مبلغ عوض بن محمد القرنی کا بیٹا ہے جس کو بن سلمان نے، چار سال قبل، قیدخانے میں ڈال دیا ہے۔
ناصر نے اردن کے راستے یورپ پہنچ کر انکشاف کیا کہ سعودی حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اپنے والد کی رہائی کا مطالبہ کرے گا تو اس کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔
فہد الغفیلی نے ٹوئیٹر پیغامات کے ایک تفصیلی سلسلے میں لکھا:
عرب قبائل حجاز و نجد کے قبائل سمیت، خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں اور ہمیشہ سے جزیرہ نمائے عرب کے اطمینان و سکون کا ذریعہ رہے ہیں؛ کیونکہ قبائل ہی عربی اقدار اور اسلامی اخلاقیات کے ضامن رہے ہیں، اور قبائل ہی اپنے حکام کی حمایت کے لئے اٹھے ہیں اور ان کی مدد اور ان کے لئے دفاعی قوت فراہم کرتے رہے ہیں۔
باوجود اس کے، کہ جزیرہ نمائے عرب میں کئی صدیوں سے بادشاہی حکومت چلی آ رہی ہیں مگر کسی بھی سعودی بادشاہ میں ہمت نہیں تھی کہ ان قبائل کو کمزور کردے یا انہیں نیست و نابود کرے اور موروثی اسلامی-عربی اقدار سے عاری کر دے؛ بلکہ حکام ہمیشہ انہیں تقویت پہنچاتے رہے ہیں اور اپنی حکومت کے استحکام کے لئے ان کے شیوخ اور زعماء کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے ہیں۔
جب سے بن سلمان بر سر اقتدار آئے ہیں اور سعودی معاشرے کے تشخص بدل کر انہیں اسلامی اقدار سے بیگانہ کرنے پر اصرار کرتے آئے ہیں، اور اس کے باوجود کہ لندن میں سعودی سفیر خالد بن بندر نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ “سعودی بادشاہت کی بنیاد مذہب نہیں ہے بلکہ ابتداء میں ایک قبیلہ تھا جو دوسرے قبائل کو پیٹ کر فاتح ہؤا” آج نجد و حجاز کے قبائل ان کے ظلم و جبر سے محفوظ نہیں ہیں۔
بن سلمان نے – اعلان کئے بغیر – بہت سے قبائل پر ایک جنگ مسلط کی ہے، جس کا ایک بڑا مرحلہ یہ تھا کہ انھوں نے بہت سے بڑے قبائل کو تحلیل کردیا ہے؛ بہت سوں کو بدنام اور بے اعتبار کر دیا ہے، ان کی اقدار کو روند ڈالا ہے اور ان کے شیوخ کو پابند سلاسل اور ان کے اراضی اور دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
بطور مثال دو قبائل کے شیوخ “خالد بن قرار الحربی” اور “ڈاکٹر عبدالرحمٰن” سرکاری خدمات سے سبکدوشی کے بعد گرفتار کر لئے گئے۔
بن سلمان قبائل کے شیوخ اور مقدس شخصیات کو گرفتار کرکے ان کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مثال کے طور پر قبیلہ عتیبہ کے سربراہ فیصل بن سلطان بن جہجاہ بن حمید نے بن سلمان کے تفریحی ادارے کی غیر شرعی اور غیر اسلامی تقریبات اور سعودی باشندوں کی ناگفتہ بہ معاشی صورت حال پر تنقید کی تو انھوں نے انہیں گرفتار کروایا اور جبر و تشدد کا نشانہ بنایا اور اس قسم کے رویوں کا واحد مقصد حکمران قبیلے کے ناقدین کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
بن سلمان نہ صرف قبائل کو انتشار سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اور علماء کو گرفتار کر رہے ہیں۔ انھوں نے جون 2017ع میں، [چار فریقی سعودی، بحرینی، اماراتی، مصری اتحاد بنا کر قطر کو گھیرنے کے بعد]، قبیلۂ آل مرہ کے شیوخ کو بلوایا اور قطر کے خلاف تنقیدی بیان جاری کرنے کا حکم دیا لیکن قبیلے کے شیوخ ان کے دھوکے میں نہیں آئے اور بن سلمان کے اس حکم کو مسترد کیا۔
بن سلمان کا ایک اقدام یہ تھا کہ انھوں نے آل الشیخ قبیلے کے مقبول افراد کو برخاست کرکے اس قبیلے کے بدنام افراد کو سرکاری مناصب پر مسلط کیا۔ ترکی آل الشیخ ان ہی بدنام اقراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے تفریح کے نام پر بدنام اور فحش قسم کے افراد کو سرزمین مقدس میں آنے کی دعوتیں دیں اور یوں آل الشیخ قبیلے کا نام اخلاقی فحاشی اور عریانی جیسی صفات کے ساتھ تواَم کر دیا ہے۔
بن سلمان نے الحویطات سمیت متعدد قبائل کا اثر و رسوخ اور طاقت ختم کرنے کے لئے انہیں ان کے آبائی علاقوں سے نکال باہر کیا ہے۔ الحویطات نامی قبیلہ نیوم نامی صہیونی منصوبے کے نفاذ کے لئے اپنے آبائی علاقے سے جلاوطن کیا گیا۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2022ع میں سعودی سیکورٹی اداروں نے دعویٰ کیا کہ نجد و حجاز کے قبائل کے زعماء نے محمد بن سلمان کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا ہے۔ اور سعودی لیکس نامی ویب گاہ نے لکھا کہ اس بغاوت کا مقصد علماء اور دینی مبلغین کی گرفتاریوں کی مخالفت کا اعلان تھا۔
سعودی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ قبائلی عمائدین نے اپنے ان بیٹوں کو – جو سعودی سیکورٹی اداروں اور ہوائی اڈوں میں تعینات ہیں – ہدایت کی ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر گرفتار افراد کے بیٹوں اور بیٹیوں کو ملک سے نکلنے میں مدد بہم پہنچائیں تاکہ بیرون ملک بن سلمان کے جبر کو افشاء کر سکیں۔
ان ذرائع کے مطابق، بن سلمان کی پالیسیوں کے مخالف افسران نے ہی ناصر بن عوض القرنی کو ملک سے نکلنے میں مدد پہنچائی تھی۔ ناصر کے باپ سعودی دینی مبلغ عوض بن محمد القرنی کا بیٹا ہے جس کو بن سلمان نے، چار سال قبل، قیدخانے میں ڈال دیا ہے۔
ناصر نے اردن کے راستے یورپ پہنچ کر انکشاف کیا کہ سعودی حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اپنے والد کی رہائی کا مطالبہ کرے گا تو اس کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔
قبل ازیں، امریکی مطالعاتی ادارے جیو پولیٹیکل فیوچرز نے مطالعے کے نتیجے میں، اعلان کیا کہ المالکی، الدواسر اور الشَمری سمیت بہت سے سعودی قبائل محسوس کررہے ہیں کہ انہیں دیوار سے لگایا گیا ہے؛ کیونکہ بن سلمان کی حکومت ان کے ساتھ ایک شہری جیسا سلوک روا نہیں رکھتے اور دوسری طرف سے یہ قبائل آل سعود کو چور اور راہزن سمجھتے ہیں کیونکہ سعودی خاندان نے ملک کے 60 فیصد اراضی اور تیل کی عظیم آمدنی کا 30 فیصد حصہ چوری کرلیا ہے۔۔۔ سعودی-قبائلی حکومت ایک نئی قسم کی حکمرانی کو فروغ دے رہی ہے جو قبیلوں سے ماوراء ہے اور یہ منصوبہ 2030 وژن کا حصہ ہے؛ حالانکہ اگر سعودی معاشرے کے قبائلی تشخص کو ختم کیا جائے تو یہ معاشرہ کسی وقت سیاسی اصلاحات کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے جو آل سعود کی حکمرانی کے زوال کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲