3 جنوری 2022 - 12:37
سردار سرحدوں سے ماوراء کیوں؟

جب امریکہ ظلم اور زیادتی میں اپنے آپ کو کسی سرحد کا پابند نہیں جانتا تو اس کے خلاف ردعمل کیسے سرحدوں میں مقید کیا جا سکتا ہے۔ کیا انسانیت کو سرحدوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یہ کوئی نئی بات تو نہیں کہ کوئی دو ستارہ جرنیل مارا گیا ہو۔ اس مرتبے پر فوجی بہت اہم تو ہوتے ہیں، لیکن اتنے محبوب تو نہیں ہوتے۔ ایران کے بھی اعلیٰ درجے کے کئی اور فوجی میدان میں کام آچکے ہیں اور دیگر ملکوں کے بھی جنگوں میں یا بغیر جنگوں کے فوجی جرنیل مارے جاتے ہیں، لیکن سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کی تاثیر بہت مختلف بھی ہے اور جہاں گیر بھی۔ امریکہ نے دنیا میں بڑے بڑے راہنمائوں کو قتل کیا ہے، حکومتوں کو پلٹایا ہے، نہتے لوگوں پر کارپٹ بمباری کی ہے، تمام بموں کی ماں بم لوگوں پر برسائی ہے۔ لوگوں نے احتجاج بھی کیا ہے، غم بھی منایا ہے، لیکن شہید قاسم سلیمانی کا غم ہے کہ کم ہونے کو نہیں آتا اور اس کی یاد ہے کہ سرحدوں سے پہلے دن سے ہی باہر تھی، یوں لگتا ہے کہ مزید پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے لیے یہ اعزاز سمجھا کہ وہ اعلان کرے کہ سردار قاسم سلیمانی کو میرے حکم سے مارا گیا ہے۔ کتنا بڑا انسان تھا اور کتنا بڑا سردار تھا کہ دنیا کی سب سے طاقتور ریاست کے سب سے طاقتور شخص کو زعم تھا کہ وہ اس پر جب افتخار کرے گا تو لوگ سمجھیں گے کہ واقعاً کوئی دہشت گرد مارا گیا ہے اور واقعاً کوئی عالمی سطح کا دہشت گرد مارا گیا ہے۔

گذشتہ دو تین دنوں سے دنیا کے مختلف بڑے بڑے شہروں میں ہزاروں، لاکھوں لوگ باہر نکل کر سردار قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس سے اپنی محبتوں کا اظہار کر رہے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ان کے قاتلوں سے انتقام لینے کا سلسلے جاری رکھیں گے۔ عراق کی قیادت تو اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ ان سرداروں کا سب سے اہم اور ناگزیر بدلہ یہ ہے کہ امریکہ کا ایک فوجی بھی سرزمین عراق پر موجود نہ رہے۔ بظاہر امریکہ کو عراق سے نکالنا اتنا آسان نہ تھا اور پھر امریکی فوجیوں پر سرزمین عراق پر ہر روز حملہ تو ایک انہونی معلوم ہوتا تھا، لیکن یہ ان عظیم سرداروں کی شہادت کی تاثیر ہے، جس نے سب سے پہلے مرحلے میں عراقی پارلیمان کو اس امر پر متحد کر دیا کہ وہ امریکہ سے مطالبہ کرے کہ امریکی فوجی ان کی سرزمین کو چھوڑ کر نکل جائیں۔

بظاہر بکھری ہوئی قوم اس مطالبے پر ہم آواز اور متحد ہوگئی۔ پھر مزاحمتی گروہوں نے امریکہ کو خبردار کیا کہ عراقی پارلیمان کا احترام کرتے ہوئے وہ اپنی افواج کو عراق سے نکال لے، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ امریکہ کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی تو انھوں نے امریکہ کے خلاف عملی اقدامات کا آغاز کیا اور کئی ماہ ہوگئے کہ امریکہ کے لاجسٹک فوجی کاروانوں پر عراقی حملے کر رہے ہیں اور کئی دن ایسے بھی آئے کہ جب ایک ہی روز کئی کئی حملے کیے گئے کہ امریکیوں کو یہ عہد کرنا پڑا کہ ہم عراق کو چھوڑ رہے ہیں، اگرچہ امریکہ کے ایسے وعدے آسانی سے قبول نہیں کیے جاسکتے، لیکن عراق کے مزاحمتی گروہ امریکہ کو کئی دہائیوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ امریکہ کو اس سرزمین سے کیسے نکالنا ہے، لیکن یہ سب شعور اور حوصلہ انھیں شہیدوں نے بخشا ہے اور اس میں سب سے بڑا کردار تین جنوری 2020ء کی سحری کے شہید ہیں۔

دنیا بھر میں دو سال کے عرصے میں شہید قاسم سلیمانی پر جتنی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ پاکستان میں ان کے بارے میں سب سے پہلی کتاب ان کے چہلم پر آچکی تھی اور اس کے بعد کتابوں اور تراجم کے سلسلے جاری ہیں۔ شہید کی یاد میں ہونے والے اجتماعات کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ ان شہیدوں کی یاد کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر جتنی کوششیں کی گئی ہیں، وہ بھی انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہیں۔ شاید فیس بک نے اتنے اکائونٹ کسی اور موضوع پر بند نہ کیے ہوں، جتنے شہید قاسم سلیمانی کی یاد میں لکھے گئے سٹیٹس یا جاری کی گئی کسی آڈیو یا ویڈیو کے ’’جرم‘‘ میں بند کیے گئے۔ بلامبالغہ صرف پاکستان میں لاکھوں اکائونٹس کو وقتی یا کلی طور پر بند کر دیا گیا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے شہیدوں کی یاد کے سلسلے رک گئے، کیا انھیں خراج تحسین پیش کرنے والی زبانیں گنگ ہوگئیں اور کیا ان کی مظلومیت اور حقانیت کو آشکار کرنے والی انگلیوں نے عبارتیں لکھنا چھوڑ دیں؟ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اس سے تو عزم کچھ اور بڑھ گیا اور درد کچھ سوا ہوگیا۔ لوگوں نے طرح طرح کے طریقے ایجاد کر لیے کہ آزادی اور حریت کے ان عظیم سپوتوں کو خراج تحسین پیش کریں۔ شاید ہی پاکستان کا کوئی قابل ذکر شہر ہو کہ جہاں ان دنوں ان شہیدوں کی یاد نہ منائی جا رہی ہو۔ یہی حال دنیا کے دیگر بہت سے ملکوں کا ہے اور جہاں مسلمان نہیں بستے اور آزادی اور حریت کی قدر کرنے والے موجود ہیں، وہاں آپ کو ان دنوں دکھائی دے گا کہ آزادی کے ان استعاروں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

کیا امریکہ سمجھتا ہے کہ جسے وہ دہشت گرد کہے گا، ساری دنیا اسے دہشت گرد مان لے گی، کیا امریکہ کو اب بھی یہ گمان ہے کہ اس کی کہی ہوئی بات مستند سمجھی جاتی ہے، کیا امریکہ اس زعم میں ہے کہ لوگ اس کے ہر نکتہ نظر کو درست سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بات کبھی یوں تھی بھی تو اب الٹ ہوچکی ہے، جسے امریکہ دہشت گرد کہتا ہے، شک پڑتا ہے کہ کہیں وہ ظلم کے خلاف اور عدل کے لیے اٹھنے والا کوئی پرچم بردار نہ ہو۔ ویسے تو امریکہ نے حق و باطل کو اس طرح سے آپس میں ملانے کی کوشش کی ہے کہ لوگ حق کو پہچاننے میں مشکل سے دوچار ہو جائیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔لوگ سوچتے ہیں کہ کیا اسرائیل حق پر ہے اور اس کی جارحیت و ظلم کے خلاف اٹھنے والے حماس اور حزب اللہ کے مجاہد باطل پر ہیں۔ کیا امریکہ جنھیں باغی کہے گا، دنیا اسے باغی جانے گی۔

ایسا ہوتا تو امریکہ کی زیر دست ریاستوں کے حکام لوگوں میں محبوب ہوتے اور مظلوم یمنیوں کی قیادت منفور، لیکن بات تو برعکس ہے۔ یمن کی سرزمین پر عوام جس طرح سے فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے کرتے ہیں اور عراق میں شہید کیے جانے والے سرداروں سے اظہار محبت کے لیے باہر نکلتے ہیں، وہ دنیا کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ بازی پلٹ رہی ہے، حق آشکار ہو رہا ہے، ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والے لشکر پیش قدمی کر رہے ہیں، طاغوتی گروہ عقب نشینی اختیار کر رہے ہیں، اسرائیل اور اس کے حمایتی رسوا ہو رہے ہیں، امریکہ کی پسپائی پوری دنیا میں آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے لیے افغانستان کی مثال ہی کافی ہونا چاہیے، لیکن کوئی ایک مثال ہے امریکہ کی پسپائی اور رسوائی کی؟ امریکہ اپنی تاریخ کے لیے ایسی مثالوں میں مسلسل اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے۔

جب امریکہ ظلم اور زیادتی میں اپنے آپ کو کسی سرحد کا پابند نہیں جانتا تو اس کے خلاف ردعمل کیسے سرحدوں میں مقید کیا جا سکتا ہے۔ کیا انسانیت کو سرحدوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے؟ جب انسان دشمن دنیا بھر میں دندناتے پھر رہے ہوں تو ان کے خلاف مزاحمت اور ردعمل کو کیسے کسی خاص خطے یا علاقے میں روکا جاسکتا ہے۔ کیا بغداد امریکہ کی کالونی ہے کہ جہاں امریکہ کو فوجی کارروائی کا حق ہے؟ اب دنیا بھر میں لوگ ایسے سوالات کر رہے ہیں۔ امریکہ کے قریب ترین اتحادی بھی اب اس مسئلے پر غور کر رہے ہیں کہ وہ امریکہ کی عالمی رسوائی کا کب تک اور کہاں تک ساتھ دے سکتے ہیں۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242