اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ متحدہ عرب امارات اگر چہ بظاہر ایک ملک شمار کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ سات مختلف ریاستوں؛ ابوظہبی، دوبئی، شارجہ، عجمان، ام القوین، راس الخیمہ اور فجیرہ پر مشتمل ہے۔ خلیج فارس کے عرب ممالک کے درمیان، متحدہ عرب امارات سب سے زیادہ سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک پر حکومت کرنے والا کوئی ایک خاندان نہیں ہے بلکہ مختلف خاندان نسل در نسل ان ریاستوں پر حکومتیں کرتے آئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا سیاسی نقطہ نظر دوسرے سے مختلف ہے۔
اس بحرانی کیفیت کی دوسری وجہ معیشتی، ثقافتی، عسکری اور قومی اختلافات بھی ہیں جو اس بات کا سبب بنے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں سیاسی اتحاد نابودی کا شکار ہو جائے۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ طول تاریخ میں اس ملک کی ریاستوں کے درمیان جنگ و جدال جاری رہا ہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۶ میں ابوظہبی اور دبئی، ۱۹۷۲ میں فجیرہ اور شارجہ، نیز شارجہ اور ام القوین کے درمیان سخت جنگیں ہوئیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام اختلافات جب وجود میں آئے تو برطانیہ نے ان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا اور اختلافات کو دور کیا۔ یہاں تک کہ سعودی عرب اور ابوظہبی کے درمیان تیل کے کنووں پر پایا جانے والا اختلاف بھی برطانیہ کی دخالت سے حل و فصل ہوا۔
البتہ اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ملک ۱۹۷۱ سے پہلے برطانیہ کے زیر تسلط تھا اور ۱۹۷۱ میں آزاد ہوا۔ اسی وجہ سے آزادی سے پہلے اس ملک کو سیاسی، معیشتی یا عسکری اعتبار سے اسرائیل کے ساتھ موازنہ کرنا فضول ہے۔ لیکن آزادی حاصل کرنے کے بعد اس ملک کے عوام فلسطینی کاز کی حمایت کرنے لگے اور اس اعتبار سے بھی کہ مسئلہ فلسطین عربوں کی نگاہ میں کافی حد تک ایک عربی مسئلہ ہے، اس ملک کے حکمران ہمیشہ اپنی ظاہری عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے اسرائیل کے ساتھ براہ راست روابط برقرار کرنے سے دوری اختیار کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے سعودی عرب کی طرح اس ملک کی سیاسی پالیسیوں میں کافی تبدیلی آتی نظر آ رہی ہے اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی روابط کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہا ہے۔
متحدہ عرب امارات دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کے ساتھ اپنے اقتصادی معاملات تیسرے ممالک جیسے ہالینڈ، قبرص یا دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ذریعے انجام دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ابوظہبی اور اسرائیل کے درمیان اسلحے کے خریداری کی قراردادیں دو اسرائیلی کمپنیوں “البیت” اور “ایروناتیکس” کے ذریعے انجام پائیں۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ کے دفتر کے سربراہ “ڈوری گولڈ” نے ۲۰۱۵ میں اپنے امارات دورے اور بین الاقوامی ایٹمی انرجی کی سالانہ کانفرنس میں اپنی شرکت اور امارات میں اسرائیلی نمائندگی کے دفتر کے افتتاح کی خبر دی۔ البتہ اماراتی عہدیداروں نے عوامی رد عمل کے خوف سے اس کام کو خفیہ رکھا۔ اگر چہ یہ دفتر غزہ پر اسرائیلی حملوں کی وجہ سے کئی مرتبہ بند ہو گیا لیکن کماکان اپنی سرگرمیاں خفیہ طور پر جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیلی فضائیہ کے سابق آفیسر “ایتان بن الیاہو” نے “آوی لئومی” کی ابوظہبی میں سب سے زیادہ بانفوذ سرمایہ کار کی حیثیت سے ان کے ساتھ تعاون کیا تاکہ وہ ابوظہبی میں اپنی کمپنی کو رجسٹر کروا سکیں۔ نیز “کوحامی” نامی ایک معروف تاجر نے اسرائیل کے سابق فوجی افسروں کو ایک خصوصی پرواز کے ذریعے ابوظہبی کا دورہ کروایا۔ یہ چیز اس بات کو بیان کرتی ہے کہ صہیونی ریاست کی اقتصادی بناوٹ سختی سے سیاسی اور حفاظتی اداروں سے جڑی ہوئی ہے۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک مقالے کے دوران ان سے نقاب ہٹائی ہے اور اسرائیل کے اخبار معاریو نے بھی اس کی تصدیق و تشریح کی ہے۔
دوسرے لفظوں میں عرب ممالک اس قدر صہیونی ریاست اور امریکہ سے مرغوب ہو چکے ہیں کہ ان کے ساتھ دوستی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کار اس قدر واضح اور آشکار ہے کہ نیتن یاہو برطانیہ کے وزیر اعظم سے کہتے ہیں: “عرب ممالک اسرائیل کو اپنا ایک اہم اتحادی سمجھتے ہیں نہ کہ دشمن۔ خوشی کی خبر یہ ہے کہ عرب غیر معمولی طور پر اسرائیل کے ارد گرد گھومتے ہیں یہ ایسی حقیقت ہے جس کو میں کبھی زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا”۔
عرب معاشرے کے لیے یہ افسوسناک بات ہے کہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زائد نے ۲۰۱۴ میں فرانس میں اپنے اسرائیل ہم منصب کے ساتھ ملاقات کی اور اسے غزہ پر چڑھائی کے اخراجات اٹھانے کی پیشکش کی۔ حتیٰ انہوں نے ۲۰۱۷ میں آشکارا طور پر امریکہ، اسرائیل اور یونان کی فضائیہ کی مشترکہ نمائش میں شرکت کی کہ یہ خود علاقے کے ممالک کے لیے ایک خطرناک سیاسی پیغام تھا۔
بقلم میلاد پور عسگری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/103