16 ستمبر 2016 - 16:48
سعودیوں کوامریکہ میں اپنی 750ارب ڈالر کی ملکیت فروخت کرنی پڑے گی!

پچھلے دنوں امریکی کانگریس میں 11 ستمبر(نائن الیون)حملوں میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین کو سعودی عرب حکومت کے خلاف نقصانات کے ازالے کیلئے معاوضہ حاصل کرنے کیلئے مقدمہ دائر کرنے کی اجازت دینے کا بل منظور کر لینا میڈیا میں خبری دھماکے کی طرح پھٹ گیا۔ اس بیچ ایک امریکی جریدے نےاس موضوع کا تجزیہ پیش کیا کہ کیا اس بل سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان موجود تسلیحاتی معاہدوں پر اثر پڑ سکتا ہے کہ نہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایک امریکی جریدے "المانیٹر"نے لکھا کہ امریکی کانگریس نے نائن الیون حملوں کے حوالے سے  کل ایک بل باتفاق اراء منظور کی گئی کہ جس سے 11 ستمبر2001  حملوں  میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین کو سعودی عرب حکومت کے خلاف نقصانات کے ازالے کیلئے امریکی عدالتوں میں معاوضہ حاصل کرنے کیلئے مقدمہ دائر کرسکتے ہیں؛جبکہ ایسا کرنا امریکی صدر جمہوریہ باراک اوباما اور امریکہ میں سرگرم سعودی لابی کے نظریے کے بالکل برخلاف ہے۔

یہ بل اس سے پہلے مئی میں امریکی سینٹ میں ایسی ہی عبارت کے ساتھ منظور ہوا تھا۔ اسطرح اب بل صدر جمہوریہ کے پاس جائے گا جو اس کے حوالے سے فیصلہ صادر کریں گے۔یہ ایسے میں ہو رہا ہے جب وائٹ ہاوس اس قسم کی بل لانے کی مخالفت کرتا آیا ہے اور یہ استدلال بھی کیا گيا کہ اس بل کو لانے سے امریکی خارجہ پالیسی متاثر ہو سکتی ہے۔موجودہ حکام اور سابقہ حکام بھی اس حوالے سے خبردار کرتے آئے ہیں، ممکن ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی اس قسم کی بل امریکہ کے خلاف پیش کی جائے گی کہ جس سے اس ملک کے سفارتکاروں اور فوجی سپاہیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

ایسے میں، اس موضوع کا ایک پہلو کہ جس کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے کہ اس سے واشنگٹن کی طرف سے ریاض کو دی جانے والی فوجی امداد متاثر ہونے کا احتمال پیدا ہوتا ہے۔ ہر سال امریکی کانگریس امریکی وزارت خارجہ کی درخواست پر ایک علامتی رقم مبلغ دس ہزار ڈالر سعودی عرب کو دینے کی اجازت دیتی ہے،لیکن اس چھوٹی سی رقم کی آڈ میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان وسیع پیمانے پر فوجی سازوسامان کی تجارت ہوتی ہے؛شائع شدہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اوباما حکومت میں سعودی عرب کو فوجی سازوسامان فروخت کرنے کے لئے 115 ارب ڈالر کا معاہدہ طے پایا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے  کہ امریکی کانگریس میں مذکورہ منظور شدہ بل آخری مہر تائيد لگنے کے باوجود امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان فوجی سازوسامان کے تجارت کی راہ می کوئی قانونی رکاوٹ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود کہ اصلی مسئلہ کانگریس کو ریاض کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت کی خطیر رقم کی تائيد کرنا ہے۔

ٹدلیو، امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹ رکن کا کہنا ہے:"یمن میں سعودی اتحادیوں کی طرف سے کی جانے والی جنگی جرائم، یقینی طور پر سعودی عرب کی شبیہ کو خراب کر دے گی۔ اس پر اگر عدالت کی طرف سے بھی فیصلہ آجائے کہ نائن الیون حملوں میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین کو سعودی عرب  ہرجانہ ادا کرے،اس سے بھی سعودی عرب کی شبیہ مزید بگڑ جائے گی۔"۔

لیو، ان افراد میں سرفہرست ہیں جو امریکی کانگریس میں اس کوشش میں لگے ہیں کہ یمن جنگ کے پیش نظر سعودی عرب کو ٹینکیں اور دیگر فوجی سازوسامان فروخت کرنے پر روک لگائي جائے۔

بہرحال امریکی کانگریس میں اس بل کے پاس ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کا کانگریس کے ارکان پر اثر و رسوخ کم ہوتا جارہا ہے  اور وہ اس حوالے سے سعودی عرب  کی حمایت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف نائن الیون کےحوالے سے 28 صفحات پر مشتمل اسناد کے شائع ہونے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاز کو ہائي جیک کرنے والوں اور سعودی حکام کے درمیان رابطہ موجود تھا-اس سے سعودی عرب کے نسبت عمومی سطح پر بے اعتمادی پیدا ہو گئی ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگرعدالت میں سعودی عرب  متاثرین کو معاوضہ دینے کیلئے محکوم ہوتا ہے اور سعود ی ایسا نہیں کرتا جس طرح علامات سے ظاہر ہے کہ وہ معاوضہ ادا نہیں کرے گا- ایسے میں فوجی سازوسامان  کے معاہدوں کے خلاف کانگریس کے دباو میں مزید شدت آئے گی۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اس سال موسوم بہار میں امریکی کانگریس کے ارکان کے ساتھ ایک نشست میں کہا،اس کا ملک ترجیح دے گا کہ امریکہ میں اپنی 750 ارب ڈالر کی ملکیت کو فروخت کرے گا تاکہ  عدالت کی طرف سے اسے ضبط کئے جانے کی نوبت نہ آنے پائے۔

تاہم   کلی طور یمن میں سعودی عرب کی طرف سے جرائم کے ارتکاب  کی  رپورٹیں شائع ہونےسے سعودی عرب کے ساتھ فوجی سازوسامان کے معاہدوں کے خلاف دباو بڑتا جارہا ہے۔نائن الیون کے حوالے سے بل پاس ہونے سے ایک روز قبل چار سینٹروں رپبلکن پارٹی کے رنڈ پول اور مایک لی اور ڈیموکریٹ کے کریس مورفی اور آیل فرانکن نے 1.15 ارب ڈالر کے تسلیحاتی معاہدے کو روکنے کا منصوبہ پیش کیا ۔گذشتہ ماہ میں بھی 64 ارکان کانگریس نے اوباما کے نام خط لکھ کر اس معاہدے کو باطل کرنے کی درخواست کی تھی۔

ڈیموکریٹ کے ممتاز سینیٹر نے سینٹ کے روابط خارجہ کمیٹی میں کہا  ابھی تک  اسرائیلی فوجی برتری کو متاثر نہ کرنے کی صورت میں سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان فروخت کرنا امریکہ کے لئے سودمند رہا ہے، لیکن عدالت میں سعودی محکوم کئے جانے کی صورت میں یہ طریقہ کار بدل جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

لیبلز