6 اگست 2014 - 10:37
ہیروشیما پرامریکہ کا ایٹمی حملہ

ساٹھ سال قبل دوسری عالمی جنگ کے دوران آج ہی کے دن امریکہ نے جاپان کے شہر ہیرو شیما کے نہتھے عوام پر امریکی فوج نے ایٹم بم برسایا جس کے باعث تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق ساٹھ سال قبل دوسری عالمی جنگ کے دوران آج ہی کے دن امریکہ نے جاپان کے شہر ہیرو شیما کے نہتھے عوام پر امریکی فوج نے ایٹم بم برسایا جس کے باعث تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس المیے کے تین دن بعد امریکہ نے شہر ناکاساکی پر ایک اور ایٹم بم مارا جس کے نتیجے میں تقریباستر ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔

ہیروشیما اور ناکاساکی پر ایٹمی بمباری کے تباہ کن آثار میں صرف لاکھوں افراد کا قتل ہی نہيں بلکہ بعد میں جب ایٹمی ریڈیو ایکٹیو شعاعوں سے متاثر ہوکر ساداکو نامی پہلا بچہ پیدا ہوا تب دنیا نے سمجھا کہ امریکہ نے انسانیت کے حق میں کیسے کیسے جرائم انجام دیئے ہیں۔
بعد کے برسوں میں مزيد ایسے بچے پیدا ہوئے جو ناقص الخلقت تھے یا خون کے کینسر میں مبتلاء تھے جو انھیں ایٹمی بم سے متاثر ہونے والی اپنی ماؤں سے ورثے میں ملے اور کچہ وہ ہی دنوں بعد مرگئے۔
ایک ایسا سوال جو آج بھی درپیش ہے اور امریکہ نے آج تک اس کا واضح جواب نہيں دیا وہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب جاپان دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں خود کو جنگ ختم کرنے کے لئے تیار کررہا تھااس وقت امریکہ کو ایٹم بم استعمال کرنے کی کیاضرورت تھی۔
امریکہ کے اس وقت کے صدر ہری ٹرومین جس نے ہیروشیما ناکاساکی پرایٹم بم گرانے کا فرمان جاری کیا تھا، جانتا تھا کہ جاپان جنگ جاری رکھنے کی توانائی نہيں رکھتا۔ اور اسی بنا پر ملت جاپان کےخلاف ایٹم بم استعمال کرنے میں امریکی حکومت کے محرکات کے بارے میں سوال کا جواب اب باقی ہے۔
اس کے باوجود متعدد نظریات کے درمیان یہ نظریہ زیادہ قابل قبول ہے کہ امریکہ ایٹم بم استعمال کرکے جواس وقت تک کسی بھی ملک کے پاس نہیں تھا،اپنے حریف ملکوں بالخصوص سابق سویت یونین پراپنی برتری ثابت کرناچاہتا تھا۔
اس نظریے کے زيادہ قابل قبول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سابق سویت یونین نے ہیروشیما پرایٹم بم گرائے جانے کے فورا بعد جاپان کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔
جاپان کے خلاف سابق سویت یونین کی جنگ، جزائر کوریل پرقبضے پر منتج ہوئي جو اب بھی روس کے قبضے میں ہے۔اور اس کے باعث جاپان اور روس نے صلح معاہدے پر دستخط نہيں کئے۔
بہرحال یہ المیہ رونما ہونے کے وقت سے اب تک دنیا کو ایٹم بم استعمال کئے جانے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔
اب تک ایٹمی گوداموں اور یورے نیم کی ذخائر کے بارے میں دقیق رپورٹ سامنے نہيں آئي ہے لیکن امریکہ اور روس، اس سلسلے میں حقائق کو چھپاتے ہيں اور ایٹمی ہتھیاروں میں کمی یا انھیں تباہ کئے جانے کے بارے میں اپنے معاہدے مبہم رکھتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ اس وقت دنیا کے نوممالک کے پاس ستائیس ہزار ایٹمی وار ہیڈز ہيں جس میں سے ستانوے فیصد کا تعلق روس اور امریکہ سے ہے۔
گذشتہ برسوں میں، ایٹم بم کو محدود کرنے اور دنیا کے لئے اس کے ممکنہ استعمال کے خطرات آشکار ہوگئے ہیں لیکن ایٹمی ہتھیار رکھنے والی بڑی طاقتوں نے اس سلسلے میں سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات نہيں کئے ہیں بلکہ انھیں ماڈرن بنانے کی کوشش میں ہیں۔
درحقیقت سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی باہمی عدم اعتماد، دنیا کے سیکورٹی مسائل کے بارے میں اختلافات، ہتھیاروں کی فروخت سے حاصل ہونے والے معاشی و اقتصادی مفادات اور بین الاقوامی سطح پر اثر و نفوذ بڑھانے کی کوشش کے باعث دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ بدستور جاری ہے۔

.....

/169