27 ستمبر 2013 - 20:30
صہیونیوں کی تشویش، ہاآرتص کا رد عمل اور بنیامین نیتن یاہو ان ٹربل

صہیونی اخبار نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کی حالیہ سفارتکاری سبب ہوئی ہے کہ اب کوئی بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں صہیونی وزیر اعظم کی "پیشنگوئیوں" پر یقین نہیں کرے گا۔

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق امریکی یہودیوں کی ایکزیکٹو کمیٹی کے ڈائریکٹر "ڈیویڈ ہیریس" نے یونانی افسانے "کاساندرا" کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کاساندرا پر جادو کیا جاتا اور اس کے بعد اس کی پیشنگوئی پر کوئی یقین نہیں کرتا تھا، اور لکھا ہے: اب اسرائیلی ریاست کی صورت حال کاساندرا سے بہتر نہیں ہے اور ایران ٹرووا کے گھوڑے کی مانند مغرب میں نفوذ کرچکا ہے۔ہیریس نے لکھا ہے: اسرائیل قبل ازیں توجہات کو ایرانی ایٹمی پروگرام کے "خطرے" پر مرکوز کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا لیکن آج ایران کی عمومی سفارتکاری میں نئے چہرے موجود ہیں جو ایران کی سابقہ عالمی خاکہ کشی کے برعکس، مسائل کو پیچیدہ بنا رہے ہیں؛ اب یہ روحانی اور ظریف ہیں جو کام کررہے ہيں جو انگریزی پر عبور رکھتے ہیں اور بین الاقوامی فورموں میں حاضر ہوتے ہیں اور سفارتی میراتھن ریس میں دنیا کو ذمہ داری تسلیم کرنے، کھلے تعامل اور اعتدال کا پیغام دے رہے ہیں۔ ہیریس نے لکھا ہے: اس میں شک نہيں ہے کہ ایرانیوں کو یقین ہے کہ مغرب ایران کا مقابلہ کرنے کا شوق نہیں رکھتا اور ایران کے ساتھ عسکری کشمکش کے خطرے سے دور بھاگتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے تو تنہا رہ جائے گا نیست و نابود ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیاب سفارتکاری نے نہ صرف حال ہی میں شام کو امریکی حملے سے بچایا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر بھی ایران کی سفارتکاری نے دشمنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہاآرتص نے لکھا ہے کہ ایران کی سفارتکاری اور دنیا کا اس بات پر قائل ہونا، کہ مذاکرات کا عمل نئے سرے سے شروع ہونا چاہئے، ایران کی کامیابی ہے جبکہ اسرائیل تنہا رہ گیا ہے۔ ہاآرتص نے لکھا ہے ایران اور مغربی ممالک ایک دوسرے سے قریب تر ہونے کی کوششیں کررہے ہیں؛ ایران اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ایرانی صدر نے دوسرے فریقوں سے بہت جلد مفاہمت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ تہران مستقبل کے بارے میں زيادہ پرامید نظر آرہا ہے؛ اور یہ سارے واقعات اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ ایران اور مغرب کے تعلقات بہت جلد بحال ہونگے۔ ہاآرتص نے مزید لکھا ہے کہ صہیونی ریاست کا وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نیویارک میں اپنی تمام تر کوششیں ایران کا راستہ روکنے پر مرکوز کرے گا۔ دوسرے صہیونی اخبار یدیعوت آحارونوت نے بھی جنرل اسمبلی سے ایرانی صدر کے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: ایران کے صدر مسکراہٹ اور خوبصورت باتیں کرکے عالمی رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کرانا چاہتے ہیں انھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ تین سے چھ مہینوں کے دوران ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں مفاہمت حاصل ہو۔ اسی اخبار میں "شمعون شیفر" نے "تنہا میدان جنگ میں" کے زیر عنوان لکھا: روحانی دنیا والوں کو قائل کرچکے ہیں کہ مذاکرات کا آغاز ضروری ہے چنانچہ اب اسرائیلی وزير اعظم "نیتن یاہو" میدان جنگ میں اپنے آپ کو تنہا پائے گا۔ اسی اخبار میں صہیونی قلم کار "سمادر کادمون" نے لکھا: ہم کس چیز سے خائف ہیں؟ ممکن ہے کہ ہم ایسی باتیں سنیں جو اس سے قبل سننے میں نہيں آئی تھیں۔ صہیونی قلمکار "سمادار بیری" نے صدر روحانی کے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے "انہیں ثابت کرنا پڑے گا" کے عنوان سے لکھا ہے: غلط تصورات سے بچنا چاہئے، ایرانی کسی حال میں بھی اپنے جوہری پروگرام کو ترک نہيں کرے گا اور یورینیم کی افزودگی کی سطح معین کرنے، جوہری بجلی گھر اور ایران کی تمام جوہری تنصیبات پر نگرانی کے بارے میں مذاکرات کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ بیری نے مزید لکھا ہے: امریکہ ایران کے مطالبات کے سامنے سرتسلیم خم کرے گا اور ایران پر لگی ہوئی پابندیاں یکے بعد دیگرے منسوخ ہوجائیں گی۔ صہیونی اخبار "معاریو" نے ایک مضمون بعنوان "کونسی چیز اس مسکراہٹ کے پیچھے چھپی ہوئی ہے؟" میں لکھا ہے: ایران کے صدر جمہوریہ نے عالمی رائے عامہ کا اعتمال حاصل کرکے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران تجویز دی کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں پر بین الاقوامی نگرانی وسیع تر کی جائے؛ اور انٹیلجنس اداروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یدیعوت آحارونوت نے لکھا ہے کہ ایرانی صدر کا دور نیویارک بہت کامیاب رہا اور اب ایران کے ایٹم بم کے بارے میں نیتن یاہو کا کاغذی کارٹون اس کے کام نہيں آئے گا بلکہ اب اس کو اقوام متحدہ کے فورم میں حقیقی دھماکہ کرنا پڑے گا۔    "ناحوم برنیاع" صہیونی نامہ نگار نے اسی اخبار میں لکھا ہے کہ صدر روحانی کا انتخاب اور اور رائے عامہ کو اپنے متوجہ کرنے کے لئے ان کا لب و لہجہ ایرانیوں کو دو دانشمندانہ اقدامات تھے۔ برنیاع لکھتا ہے: نیتن یاہو ایسے حال میں نیند سے جاگ اٹھا کہ اس کے ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ جمع ہوا تھا؛ اس نے کوئی راستہ پانے کی خواہش کی جو نیویارک میں پیش آنے والے گذشتہ ہفتے کے تمام واقعات کو مٹا ڈالے!۔ نیتن یاہو نے گذشتہ سال جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک ایٹم بم کے کارٹون پر ایک سرخ لکیر کھینچی اور دنیا کو حیرت زدہ کردیا کیونکہ کوئی بھی ـ حتی کہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ملازمین میں سے کوئی فرد ـ اس لکیر کے معنی نہیں سمجھ سکا اور اس کی وضاحت نہیں کرسکا اور یہ نہیں کہہ سکا کہ ایران کس وقت اور کن حالات میں اس سرخ لکیر سے عبور کرے گا اور اسرائیل کب جوابی کاروائی کرے گا۔۔۔ بشرطیکہ جواب دینے کے قابل ہو!؟۔ برنیاع نے مزید لکھا: یہ تصویر ایک دو روز تک یوٹیوب پر اور دنیا کے ذریعے ابلاغ پر نشر ہوتی رہی اور اب دنیا کے لوگ ایک نئے تشہیری دھوکے کا انتظار کررہے ہیں؛ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی وزیر اعظم اس بار ایک کاغذی بم کے بجائے ایک حقیقی بم ساتھ لے جائے گا اور اس وہ اقوام متحدہ کے فورم میں حقیقی دھماکہ کرے گا؟ یدیعوت لکھتا ہے: ایران کے صدر اور وزیر خارجہ کے موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے، لگتا ہے کہ ایرانی ماضی کے برعکس اب مفاہمت کے درپے ہیں لیکن وہ اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کی بات نہیں کرتے اور اوباما سمیت مغربی ممالک کے سربراہ نے ایران سے ایسی درخواست بھی نہيں کی ہے۔اس صہیونی لکھاری نے لکھا: ایرانی بارگیننگ کرتے ہیں اور وہ حتی کولمبس کے توسط سے براعظم امریکہ دریافت ہونے سے بھی صدیاں قبل سے، جانتے تھے کہ انہيں کس طرح بارگیننگ کرنی چاہئے۔  یہ تھی مغرب اور ایران کے درمیان قربت کے امکان کے پیش نظر غاصب صہیونی ریاست کے اہل قلم کے اندیشے اور اضطراب کا اظہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/٭۔٭

بنیامین نیتن یاہو ذرائع ابلاغ کی طرف سے مذاق کا نشانہ

تہران اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں کمی سے آل سعود کو تشویش