بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیا پراسلامی انقلاب کے اثرات
نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com
شاید دنیاکے بڑے بڑے دانش مندوں، کاہنوں اور نجومیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ مکّے کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان انگڑائیاں لینے والا دین اسلام اپنے سینے میں ایسی آتش انقلاب کو دبائے ہوئے ہے کہ جس کے بھڑکتے ہی ذات پات جیسی زنجیریں،قیصر و کسری جیسی بادشاہتیں،روم و ایران جیسی سلطنتیں، عربی اور عجمی جیسی دیواریں خاکستر ہوجائیں گی۔
دیکھتے ہی دیکھتے دین اسلام مکّے کے افق سے ابھرا اور مدینے کی وادی پر چمکتا ہوا آفاق عالم کے اس پار تک پہنچ گیا۔طلوع اسلام کے بعد ہر چشم بینا اورہر مرد دانا کے لئے ہرصبح ، انقلاب کا پیغام لے کر طلوع ہوتی ہے۔ایک ایسے انقلاب کا پیغام جووقت کے سینے میں لمحوں کی طرح سرعت کے ساتھ موجزن ہے۔ جوطاقتیں بھی اس انقلاب کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کوشش کرتی ہیں یہ انقلاب ان کا سینہ چیر کر نسل در نسل اور صدی بہ صدی آگے ہی بڑھتا چلاجارہاہے۔
دین اسلام اپنے ہمراہ ایک ایسے انقلاب کو لے کر پیدا ہوا ہے کہ جس نے اقوام عالم کے درمیان حائل ذات پات اور ملک و نسب کی خلیج کو پاٹ دیا، جس نے عربی اور عجمی کے درمیان مشرق و مغرب کی طرح پھیلے ہوئے فاصلے کو مٹادیا،جس نے عزّت کی میزان، برتری کے معیار اور فضیلت کے ترازو کو تبدیل کردیا۔
بعثت رسول اکرم [ص]سے لے کر آج تک اس دین کی آفاقی و انقلابی تعلیمات نے اطراف عالم میں اقوام عالم کے مفکرین،ادیان،تحریکوں اور معاشروں پر اثر انداز ہوکر کئی مرتبہ مظلوم و محکوم انسانوں کو جبر و استبداد اور ظلم و بربریّت کی زنجیروں سے نجات دلائی ہے۔
ہاں۔۔۔ مگر چشم فلک نے برسوں تک وہ مناظر بھی دیکھے ہیں جب اسلام کی انقلابی تعلیمات کو درہم و دینار اور طاقت و تلوار کے ذریعے دبا دیا گیاتھا۔ وہی ظالم اور جابر حکمران جن کے ظلم و جبر سے اسلام نے اقوام عالم کو نجات دلائی تھی اب دنیا ئےاسلام پر حکومت کر رہے تھے۔
اموی شہنشاہ،عباسی حکمران اور مغل و لودھی بادشاہ بیت المال سے شراب بھی پیتے تھے، رنگ رلیاں بھی بناتے تھے اور امیرالمومنین بھی کہلاتے تھے۔
یہ بادشاہ خود تو محلّات میں رہتے تھے لیکن لوگوں سے کہتے تھے کہ جھونپڑیوں میں زندگی گزارو کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے، یہ خود توعیاشیاں کرتے تھے لیکن لوگوں سے کہتے تھے کہ تم بکریاں چراتے رہو کہ یہ انبیاء کا پیشہ ہے ۔
عرصہ دراز تک دنیا ئےاسلام بادشاہت و ملوکیّت کےبوجھ تلے دبی رہی،تقریباً تیرہ سو برس تک دین اسلام بادشاہت و ملوکیّت کے پنجوں میں سسکتارہا، تیرہ سو سال کے بعدسرزمین ایران سے بادشاہت و ملوکیّت کے خلاف ایک ایسے شخص نے قیام کیاجس کی رگوں میں پیغمبر اسلام [ص] کا خون تھا اور جس کے ہاتھوں میں پیغمبر اسلام [ص] کی کتاب قرآن تھی۔
اس مرد مجاہد نے ایک ایسے دور میں قیام کیا جب پوری دنیا میں ملت اسلامیہ غلامی کی عادی ہو چکی تھی اور ایران کا یہ حال تھا کہ ایران مسلسل تیل بیچ رہاتھااورزرہ پوش گاڑیاں،ٹرک،اینٹی ائرکرافٹ توپیں اور بھاری اسلحہ خرید رہاتھا، یہاں تک کہ ۱۹۷۶سے ۱۹۷۷ کے دوران امریکہ سے اسلحے کی خریداری کا بل چار ارب ڈالر سےبڑھ کربارہ ارب سے بھی زیادہ ہوگیاتھا۔
ملک میں ہر روز نت نئے جشن اور میلے منعقد کئے جاتے تھے، مثلاً ۲۶ اکتوبر کو شاہ کی سالگرہ ، ۲۶جنوری کو سفید انقلاب کی سالگرہ، ۶دسمبر کو آزادی خواتین کی سالگرہ اس کے علاوہ جشن تاجپوشی، شہنشاہیت کا ۲۵ سوسالہ جشن وغیرہ وغیرہ۔۔۔صرف شہنشاہیت کے ۲۵ سوسالہ جشن کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے دنیاکی عظیم ترین نمائش کہاگیاتھا۔
امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا چلاجائے، ایجنسیاں اور فوج کے کارندے اپنے وسیع اختیارات کے باعث کسی کو سراٹھانے کی مہلت نہیں دیتے تھے ،جوکوئی بھی شاہ پر یا شاہ کی پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا اسے ملک دشمن ، غدار اور خائن قرار دے دیا جاتا تھا۔ جیلیں قیدیوں سے چھلک رہی تھیں، ٹارچر سیل خون اور ہڈیوں سے لتھڑ گئے تھے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کر رکھی تھی ، ۱۹۷۸ تک ملکی معیشت کا یہ حال ہوگیاتھاکہ شاہ اور اس کی بیوروکریسی پرائیویٹ بنکوں کے ۵۰ فی صد حصص کی مالک تھی، ایران کی غیرملکی تجارت صرف ۶۰ افراد کے ہاتھ میں آگئی تھی، کمپنیوں کے زیادہ تر شئیرز صرف ۵۰ خاندانوں کے پاس تھے، ہرروز شاہی خاندان کے افراد، شاہی محل کے ملازمین اور کارندوں کے لئےجنیوا میں سوئس بینک کے اکاونٹ نمبر۲۱۴۸۹۵-۲۰ میں پہلوی فاونڈیشن کے اکاونٹ میں کئی ملین ڈالرڈالے جاتے تھے۔ دن بدن ایرانی یونیورسٹیاں بے روزگار وں کو جنم دے رہی تھیں، ملک کے طول و عرض میں غیرملکی سرمایہ کاری خصوصاً امریکی سرمایہ کاری کا جال بچھاہواتھا جبکہ ایرانی نوجوان اپنے ہی ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتے پھررہے تھے، ایران کی یہ نام نہاد ترقی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایران جو کبھی گہیوں برآمد کرتا تھا اس نے گہیوں بھی در آمد کرنی شروع کر دی تھی۔
۱۹۶۰ء میں جب ایران کی حکومت نے اسرائیل کو سرکاری طور پرتسلیم کرلیا تواسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے ٹریننگ اور تربیّت حاصل کرنے کے لئے ایرانی فوج اور ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کےکئی اہم عہدیداران اسرائیل گئے اور اسی طرح موساد کے سینکڑوں اسرائیلی عہدیدار ایران آکر بھی ایرانی فوج اور خفیہ اداروں کو ٹریننگ دینے میں مصروف رہے۔اس ٹریننگ کے نتیجے میں ساواک نے اپن