اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، صہیونی رژیم کی سکیورٹی کابینہ نے اتوار کے روز مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ انتہا پسند دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خزانہ بزالل اسموتریچ نے اس اقدام کا مقصد واضح طور پر ’’فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا‘‘ قرار دیا ہے۔
اسموتریچ کے دفتر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، اس فیصلے کے بعد گزشتہ تین برسوں کے دوران منظور کی جانے والی یہودی بستیوں کی تعداد 69 تک پہنچ گئی ہے۔
یہ منظوری ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اقوامِ متحدہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں صہیونی بستیوں کی تعمیر کی رفتار کم از کم 2017ء کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
اسموتریچ کے دفتر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی کابینہ نے وزیرِ خزانہ بزالل اسموتریچ اور وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز کی مشترکہ تجویز پر مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 نئی بستیوں کی منظوری اور ان کی باقاعدہ قانونی حیثیت دینے کی توثیق کی ہے۔ بیان میں اس فیصلے کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا ہے۔
بزالل اسموتریچ نے کہا: ’’عملاً ہم ایک دہشت گرد فلسطینی ریاست کے قیام کو روک رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت ’’اپنی تاریخی وراثتی سرزمین‘‘ میں بستیوں کی تعمیر، توسیع اور مضبوطی کا عمل جاری رکھے گی اور اس راستے کو ’’منصفانہ‘‘ سمجھتی ہے۔
بیان کے مطابق ان بستیوں کے مقامات کو غیر معمولی اسٹریٹجک اہمیت حاصل ہے، جن میں شمالی مغربی کنارے میں واقع غنیم اور کادیم بستیوں کی دوبارہ بحالی بھی شامل ہے، جنہیں تقریباً دو دہائیاں قبل ختم کر دیا گیا تھا۔
منظور شدہ بستیوں میں پانچ ایسی غیرقانونی بستیاں بھی شامل ہیں جو پہلے سے موجود تھیں لیکن اب تک انہیں باضابطہ قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل اسرائیل کو مغربی کنارے کے الحاق سے متعلق خبردار کر چکے ہیں، تاہم صہیونی حکومت کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزرا اس عمل کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
آپ کا تبصرہ