اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، لبنانی اخبار الاخبار نے ٹام باراک کے مقبوضہ فلسطین کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میڈیا میں بنائی گئی فضا کے برعکس یہ دورہ کسی دھمکی آمیز پیغام یا مسلط کردہ منصوبے سے زیادہ مشاورتی اور جائزہ لینے کی نوعیت رکھتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، اس دورے میں کسی حتمی دستاویز کو ’’مان لو یا رد کر دو‘‘ کے انداز میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد اسرائیلی حکومت کے مؤقف کو جانچنا، اس کی سرخ لکیروں کی نشاندہی کرنا اور مذاکرات و دباؤ ڈالنے کی گنجائش کا اندازہ لگانا تھا۔ اس دورے کو ڈونلڈ ٹرمپ اور بنیامین نیتن یاہو کی آئندہ ملاقات کی تیاری بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم یہ دورہ کئی اہم اسٹریٹجک پیغامات بھی اپنے ساتھ لایا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اب غزہ، لبنان اور شام کے معاملات کو الگ الگ نہیں دیکھ رہی بلکہ انہیں ایک مشترکہ علاقائی سلامتی کے فریم ورک کا حصہ سمجھتی ہے۔ امریکہ کا مقصد صرف غزہ کے بحران کا انتظام نہیں بلکہ مغربی ایشیا میں سلامتی کے توازن کو ازسرِنو ترتیب دینا، واشنگٹن کے مخالف قوتوں کو کمزور کرنا اور اپنے مفادات کے مطابق پائیدار سمجھوتے قائم کرنا ہے۔
اسی تناظر میں امریکہ نے ایک نیا تصور اختیار کیا ہے جسے “اسلحے کے تصور کی نئی تشریح” کہا جا رہا ہے۔ امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حماس اور حزب اللہ کو فوجی طاقت کے ذریعے ختم کرنا فی الحال ممکن نہیں، اسی لیے توجہ اسلحہ چھڑانے کے بجائے اس کے استعمال کو روکنے پر مرکوز کر دی گئی ہے۔ یہ تبدیلی زمینی حقائق کو تسلیم کرنے اور طاقت کے استعمال کے بجائے نگرانی اور بازدارانہ نظام اپنانے کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ حکمتِ عملی خاص طور پر غزہ کے معاملے میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کو جنم دے سکتی ہے، خاص طور پر جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں۔ اسرائیل غزہ کے بعض علاقوں سے انخلا اور بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کو حماس کو اسلحے سے محروم کرنے سے مشروط کرتا ہے، جبکہ امریکہ عملی طور پر ان دونوں معاملات کو ایک دوسرے سے الگ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ اختلاف ایسا ہے جسے کسی ایک ایلچی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لیے دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔
شام کے معاملے میں بھی امریکہ کا پیغام واضح ہے کہ شام علاقائی معادلے کا لازمی حصہ ہے اور احمد الشرع کی قیادت میں نئی حکومت کا استحکام کسی بھی آئندہ مفاہمت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مؤقف اسرائیلی سوچ سے مختلف ہے، جہاں نئی شامی حکومت کو یا تو کمزور سمجھا جاتا ہے یا سرحدی خطرات پر قابو پانے میں غیر سنجیدہ تصور کیا جاتا ہے، اور اسی بنیاد پر جنوبی شام میں فوجی کارروائیوں کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ یہی اختلاف واشنگٹن اور تل ابیب کے تعلقات میں ایک اہم گرہ بنتا جا رہا ہے۔
آپ کا تبصرہ