بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا:
کہنا چاہا: فاطمہۜ عظیم خدیجہ کی بیٹی ہے؛ دیکھا [یہ] "فاطمہۜ" نہیں ہے۔
کہنا چاہا کہ "فاطمہۜ" دختر محمّدؐ ہے؛ دیکھا کہ [یہ] "فاطمہۜ" نہیں ہے۔
کہنا چاہا کہ "فاطمہۜ" زوجۂ علیؑ ہیں؛ میں نے دیکھا کہ [یہ] "فاطمہۜ" نہیں ہے۔
کہنا چاہا کہ "فاطمہۜ" مادر حسینؑ ہے؛ میں نے دیکھا کہ [یہ] "فاطمہۜ" نہیں ہے۔
کہنا چاہا کہ "فاطمہۜ" مادر زینبۜ ہے؛ پھر میں نے دیکھا کہ [یہ] "فاطمہۜ" نہیں ہے۔
نہیں؛ بے شک "فاطمہۜ" ان سارے اوصاف کی مالک ضرور ہیں، لیکن ان اوصاف کی حامل ہوتے ہوئے بھی "یہ" "فاطمہۜ" نہیں ہے۔
[فاطمہۜ کا کامل و جامع عنوان یہ ہے:] "فاطمہۜ ہی صرف "فاطمہۜ" ہیں"۔ [1]
"امیرالمؤمنین علی (علیہ السّلام)، نے زہرائے پاک (سلام اللہ علیہا) کو "خفیہ طور پر" اور "مظلومانہ انداز سے" سپرد خاک کیا ۔۔۔ اور کیا تاریخ نے اس سر بمہر راز پر خاموشی اختیار کر لی؟ جواب؛ "نہ" ہے، کیونکہ تاریخ کے پاس ـ فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کی افشا کرنے والی وصیت کے سامنے، سوائے خاموشی کا روزہ توڑنے کے سوہ، ـ کوئی نہیں ہے۔۔۔
لیکن سیّدۃ نساء العالمینۜ نے، آخری وداع میں، امیرالمؤمنین کو، کیا وصیت فرمائی تھی؟ کیا آپۜ پر ڈھائے گئے ظالموں کے کے مظالم میں سے کچھ، جاننا چاہیں گے۔۔۔ تو پھر "کشتیِ پہلو گرفتہ" (لنگر اندازی کشتی) نامی کتاب کا ایک سطر، ـ جو "استاد سیّد مہدی شجاعی" کی قیمتی تصنیف ہے، ـ پر ٹہر کر تھوڑا سا غور کریں تاکہ آپ امّ ابیہاۜ کی، اپنے مظلوم شوہر کے لئے حق طلبانہ سفارش میں پوشیدہ معانی کے خزانے کی ایک جھلک سے واقف ہوں؛ دیکھئے:
"آپ نے علیؑ سے درخواست کی ـ مظلومانہ و متواضعانہ انداز سے ـ کہ آپ کو رات کے اندھیرے میں دفن کریں اور آپ کی قبر کو سب کی نظروں سے چھپا کر رکھیں۔ آپ چاہتی تھیں کہ اپنے دشمنوں کو بتائیں کہ اس ظلم کی آگ کا دھواں جو تم نے بھڑکائی ہے، نہ صرف تمہاری آنکھوں میں بلکہ تاریخ کی آنکھوں میں جائے گا، اور انسانیت، تا قیامت، اللہ کے "دُرِّ یکتا" کے مزار سے محروم رہے گی۔ کیا زندہ جاوید دستاویز ہے مظلومیت کی! اور کیا کریمانہ انتقام ہے [یہ سیدہ کریمہۜ کا اپنے دشمنوں سے]!
اس وصیت کے اہم ترین حصے میں، خلافت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے غاصبوں اور انسیۃ الحوراء (علیہا السلام) کی شہادت کے عاملین کی موجودگی پر ممانعت شامل ہے... جہاں رسول خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ستم رسیدہ دختر، مکر و فریب اور ریاکاروں کے چہرے سے نقاب اٹھا دیتی ہیں اور درد بھرے انداز میں اپنے جان بہ لب مظلوم سے فرماتی ہیں:
"أُوصِيكَ أَنْ لا يَشْهَدَ أَحَدٌ جَنازَتي مِن هَؤُلاءِ الَّذِينَ ظَلَمُوني وَأَخَذُوا حَقِّي فَإنَّهُم عَدُوِّي وَعَدُو رَسُولِ اَللَّهِ صلى الله عليه وآله وَلاَ تَتْرُكُ أَن يُصَلِّيَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ ولا مِن أَتْبَاعِهِمْ وَادفِنِّي فِي اللَّيْلِ إِذَا هَدَأَتِ الْعُيُونُ وَنَامَتِ الأَبْصَارُ؛
[اے علی!] [اے علی] میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ 'ان میں سے کوئی بھی' 'جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور میرا حق چھینا'، 'میری تجہیز و تکفین اور جنازے میں حاضر نہ ہو'؛ کیونکہ 'وہ میرے دشمن ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے کے دشمن ہیں۔' اور ان میں کسی کو بھی ـ نیز ان کو جنہوں نے ان کی پیروی کی ـ مجھ پر نماز پڑھنے کی اجازت مت دینا؛ مجھے رات کے وقت دفن کرنا، جب آنکھیں بند ہو چکی ہوں اور نگاہیں سو چکی ہوں۔" [2]
علامہ شہید مرتضیٰ مطہری کتاب "سیری در سیره نبوی" (سیرت نبوی کا ایک جائزہ) کے صفحہ 225 پر، حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مولیٰ الموالی امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) سے رات میں تدفین کی انتہائی اہم وصیت کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"تاریخ کا کام ہمیشہ مشکوک ہوتا ہے۔ کچھ افراد ایک جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر خود ہی ہمدرد بن کر ظاہر ہوتے ہیں ـ تاکہ تاریخ کو مشکوک و متنازعہ بنا سکیں، ـ بالکل وہی کام جو مامون نے کیا: مامون امام علی بن موسیٰ الرضاؑ کو شہید کر دیتا ہے، پھر خود سب سے زیادہ، اپنے سر پر طمانچے رسید کرتا ہے اور چیخ و پکار کرتا ہے اور مرثیہ سرائی کرتا ہے، اور یوں تاریخ کو ابہام میں چھوڑ دیتا ہے؛ یہاں تک کہ کچھ لوگ یقین نہیں ہی کر سکتے کہ مامون ہی تھا جس نے امام رضاؑ کو شہید کیا! اسے کہتے ہیں تاریخ کو مشکوک، مبہم اور متنازعہ بنانا۔ سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے ـ اس لئے کہ تاریخ مشکوک نہ ہو ـ فرمایا: "مجھے رات کے اندھیرے میں دفن کرنا" تاکہ تاریخ کم از کم یہ 'سوالیہ نشان' تاریخ میں باقی رہے کہ: 'پیغمبرؐ کی ایک ہی بیٹی تو تھی؛ 'تو اس ایک بیٹی کو رات کے اندھیرے میں کیوں دفن ہونا چاہئے؟ اور اس کی قبر کو کیوں نامعلوم رہنا چاہئے؟!' یہ سب سے بڑی حکمت عملی ہے جو زہرائے مرضیہۜ نے اختیار کی تاکہ تاریخ کے لئے یہ دروازہ کھلا رہے کہ ہزار سال بعد بھی آئیں اور کہیں:
وَلِاَیِّ الْاُمورِ تُدْفَنُ لَیْلاً
بِضْعَةُ الْمُصْطَفی وَیُعْفی ثَرَاهَا
اور [اے مسلمانو!] کن وجوہات کی بنا پر رات کو دفن ہوئیں
وجودِ مصطفیٰ کا ٹکڑا، اور ان کی قبر تک اوجھل رہی
تاریخ کہہ دے: سبحاناللّه! پیغمبرؐ کی بیٹی کو رات کے وقت کیوں دفن کیا جائے؟! کیا جنازہ اٹھانا ایک سنت اور فعلِ مستحب نہیں ہے؟ اور وہ بھی مستحبِّ مُؤَكَّد؛ اور وہ بھی دخترِ پیغمبرؐ کا جنازہ کی؟! کیوں معدودے چند ہی افراد اس جنازے پر نماز بجا لائیں؟! اور کیوں اس کی قبر کا مقام نامعلوم رہے اور کوئی نہ جانے کہ زہراۜ کو کہاں دفن کیا گیا ہے؟!"
وہ سوال جس کا جواب ـ عظیم ترین خاتون سیدہ دُو سَراۜ، جنہیں دکھ پہنچانا، اللہ اور خاتم الانبیاءؐ کی شہادت کے تلخ واقعے میں موجود حقیقت ـ سے بخوبی آشکار ہوجاتا ہے؛ وہ حقیقت جس کے اہمیت کے بارے میں عارف باللہ مرحوم آیت اللہ بہجت (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا:
"فاطمۂ زہرا (علیہا السلام) نے اسی وصیت کے ساتھ ـ کہ انہیں رات میں دفن کیا جائے ـ ، فتح پائی اور فاتح ہیں۔" [3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: شہاب الدین بنائیان
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ