۱۲ روزہ جنگ میں ایران سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا:اسرائیلی تجزیہ کار
اسرائیلی تجزیہ کار نحمیا ستراسلر نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل نے حالیہ تنازعات میں ایران کے خلاف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کی اور نتن یاہو دشمنان اسرائیل کو قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
، ستراسلر نے ہآرتص میں شائع شدہ اپنے مضمون میں لکھا کہ اگرچہ کچھ ٹیکٹیکل کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، لیکن نتن یاہو نے اسرائیل کو سیاسی اور فوجی دونوں محاذوں پر ایک اسٹریٹجک شکست کی طرف دھکیل دیا۔
مضمون کے مطابق، اسرائیل کا واشنگٹن میں روایتی ممتاز مقام متزلزل ہوا ہے اور اس مقام پر سعودی عرب کا اثر بڑھ گیا ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسرائیل کی ساکھ اپنی تاریخ کے نچلے ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
تحلیل کار کے مطابق، اگرچہ اسرائیل نے حماس کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں، لیکن اس تنظیم کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ حماس آج بھی مضبوط ہے اور اس کے پاس 20 ہزار مسلح اہلکار موجود ہیں۔ حزب اللہ بھی اپنی قوت برقرار رکھے ہوئے ہے اور الجلیل کے علاقے کے لیے اب بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
سب سے بڑی ناکامی نتن یاہو کی ایران کے خلاف حکمت عملی میں سامنے آئی۔ جنگ 12 روزہ کے اختتام کے بعد نتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ ایران کے خلاف تاریخی کامیابی حاصل ہوئی اور ہائیڈروجن بم اور 20 ہزار بیلسٹک میزائل خطرات کو ختم کیا گیا، لیکن حقیقت میں ایران نہ تو ہتھیاروں کے معاملے میں اور نہ ہی جوہری پروگرام کے حوالے سے پیچھے ہٹا۔ ایران نے بیلسٹک میزائلوں کی اپنی صلاحیت کو بے مثال طور پر بڑھایا ہے اور حالیہ اعلان کے مطابق اگلی ٹکراؤ کی صورت میں روزانہ 2 ہزار میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ستراسلر نے نتیجہ اخذ کیا کہ نتن یاہو کسی بھی دشمن کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے، اور تمام خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہ بدترین اسرائیلی رہنما اپنی تاریخ میں سب سے بڑی اسٹریٹجک شکست کا شکار ہوا ہے۔
آپ کا تبصرہ